ستمبر11کے بعد شروع کی جانیوالی جنگ کے 16 سال

2017 ,ستمبر 11




ستمبر11کے بعد شروع کی جانیوالی جنگ کے 16 سال

تحریر: مصطفیٰ کمال پاشا

9ستمبر 2001 بروز منگل بوقت 8.45بجے صبح امریکی ایئر لائنز بوئنگ 767، امریکی معیشت اور دولت کے کوہ گراں 110منزلہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور کی 80ویں منزل سے ٹکرایا۔ اس میں 20ہزار لٹر جیٹ فیول تھا اس ٹکر کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے اور کئی سو افراد اس عظیم الشان بلڈنگ کے بالائی فلورز پر پھنس گئے ابھی یہ ہنگامہ جاری تھا لوگوں کو بلڈنگ سے نکلنے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کا عمل جاری تھا کسی کو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہو گیا ہے اسے ایک حادثہ ہی تصور کیا جا رہا تھا کہ پہلے حادثے کے ٹھیک 18منٹس بعد یونائیٹڈ ایئر لائنز کا ایک اور بوئنگ 767نیویارک کی فضاؤں میں نمودار ہوا اس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرف ٹیڑھا چکر لگایا اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور کی60ویں منزل سے ٹکرایا اس ٹکر کے نتیجے میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور ملبہ ارد گرد کی بلڈنگ اور گلیوں میں دور در تک پھیلنے لگا۔دنیا نے جان لیا کہ امریکہ پر حملہ ہو گیا ہے
امریکہ کچھ عرصے سے سعودی اسامہ بن لادن کی القاعدہ تنظیم کے ساتھ حالت جنگ میں تھا ۔لادن امریکیوں کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کرنے، خلیجی جنگ میں مسلمانوں کے قتل عام اور مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کی موجودگی کے باعث امریکہ کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہا تھا ۔امریکیوں کو اطلاعات بھی مل رہی تھیں کہ کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ امریکی سکیورٹی محکموں کے مطابق القاعدہ میں عرب نوجوان شامل ہیں جسے کئی خلیجی ممالک کی معاونت بھی حاصل ہے۔ سعودی عرب بالخصوص القاعدہ کی مالی معاونت کرتا ہے جو اس کی بین الاقوامی سرگرمیوں کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔اطلاعات کے مطابق 9/11کے منصوبہ ساز اور حملہ آور ایک سال یا اس سے کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں داخل ہوئے تھے انہوں نے امریکی فلائنگ سکول میں داخلہ لے کر جہاز اڑانے، چلانے اور کنٹرول کرنے کی تربیت حاصل کی تھی۔ لائسنس بھی حاصل کئے اور پھر طے شدہ پروگرام کے مطابق آگے بڑھتے گئے9/11سے کچھ ماہ قبل کچھ نوجوان امریکہ میں دائیں بائیں غائب ہو گئے تاکہ منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے درکار معاونت کا بندوبست کر سکیں۔19حملہ آور ایسٹ کوسٹ ایئر پورٹس سے کیلیفورنیا جانے والی چار پروازوں میں سوار ہوئے۔ انہوں نے سکیورٹی کو جُل دے کر باکس کڑ اور دیگر ہتھیار طیارے میں سمگل کئے اور پھر طے شدہ منصوبے کے مطابق طیاروں کا رخ نیویارک کی طرف موڑ دیا۔ طیاروں میں سوار ہوتے ہی انہوں نے انکا کنٹرول سنبھال لیا اور اپنی مہارت سے عام کمرشل طیاروں کو گائیڈڈ میزائلوں میں بدل کر رکھ دیا۔
لاکھوں امریکیوں نے امریکن ایئر لائنز فلائٹ77کو واشنگٹن کے نواح میں امریکی ملٹری سطوت کے نشان پینٹاگون کی مغربی سائیڈ کے اوپر اڑتے لہراتے اور ٹکراتے ہوئے دیکھا جس سے اس دیوۂیت بلڈنگ کا کچھ حصہ تباہی کا شکار ہوا ۔اس حملے میں جہاز میں سوار 64مسافروں کے علاوہ پینٹاگان میں کام کرنے والے 125فوجی اور سویلین بھی ہلاک ہو گئے۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے شمالی ٹاور اور پینٹاگون پر حملے کو ابھی 15 منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک اور بھیانک سانحہ وقوع پذیر ہو گیا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا 200میل فی گھنٹہ سے چلنے والے طوفان اور روایتی آگ برداشت کرنے کے قابل سٹیل سٹرکچر دیکھتے ہی دیکھتے ریت کا ڈھانچہ ثابت ہو کر زمین بوس ہو گیا۔ اس حادثے میں تین ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں جن میں 343آگ  بجھانے کے محکمے کے اہلکار، نیویارک سٹی پولیس کے 23افسران کے علاوہ پورٹ اتھارٹی پولیس کے 37افراد بھی شامل تھے جو لوگوں کو تباہ شدہ عمارت سے نکالنے میں مصروف تھے۔
اس کے چالیس منٹ بعد نیوجرسی کے ایئرپورٹ سے کیلیفورنیا جانے والے ایک جہاز کو بھی اغوا کیا گیا۔ یونائیٹڈ فلائٹ 93کے لوگوں کو نیویارک میں ہونے والی تباہی کی خبریں مل چکی تھیں اس لئے انہوں نے اس اغوا کی مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ جہاز میں سوار مسافروں اور عملے کے ارکان نے 4 اغوا کاروں کے خلاف مزاحمت کی اور طیارہ 500میل فی گھنٹہ کی رفتار سے مغربی پینسلوانیا کے دیہی علاقے میں 10-10بجے صبح تباہ ہو گیا اس میں سوار 45افراد ہلاک ہو گئے ۔اس تباہ ہونے والے جہاز کی منزل کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں جن میں ایک وائٹ ہاؤس کی تباہی بارے ہے۔ بادی النظر میں حملہ آوروں نے امریکی دولت کے مظہر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور امریکی ملٹری طاقت اور ہبیت کے نشان پینٹاگون پر حملہ کیا۔ اس کے علاوہ امریکی سیاسی قوت کا مظہر وائٹ ہاﺅؤس ہی نشانہ ہو سکتا تھا بہرحال چوتھا حملہ آور جہاز بغیر کسی ٹارگٹ کو نشانہ بنائے تباہ ہو گیا۔
رات نو بجے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور اکتوبر کے مہینے       امریکہ نے افغانستان پر لشکر کشی کرکے آتش و آہن کے ایک ایسے کھیل کا آغاز کیا جو آج 16سال گزرنے کے باوجود اپنے حتمی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ 5000ارب ڈالر خرچ کرنے، ہزاروں امریکی فوجیوں کو مروانے، زخمی کرانے اور نفسیاتی مریض بنائے جانے کے باوجود جنگ حتمی انجام تک نہیں پہنچ پائی۔ عراق اور افغانستان میں ”انسانی المیہ“ رونما ہو چکا ہے ہزاروں نہیں لاکھوں شہری ہلاک اور مجروح ہو چکے ہیں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، دنیا ہی    نہیں امریکہ بھی   غیر محفوظ ہے.

وویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ نے دنیا کی سپریم پاور کا روپ دھار لیا۔ کویت پر عراقی قبضے کو ختم کرانے کیلئے امریکی اتحادی افواج خلیج میں داخل ہوئیں اور امریکہ نے جدید الیکٹرانک وارنیٹر کے ذریعے دُنیا کو ایک بار پھر ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا۔ ایئر اینڈ فائر پاور کے حسین امتزاج کا بھرپور مظاہرہ کیا اور پھر مشرق وسطیٰ کی نئی جغرافیائی حد بندیوں کا بھی اعلان کردیا کیونکہ دُنیا میں کوئی بھی مُلک یا قوم امریکی خواہشات کے آگے بند باندھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی اس لئے امریکی بالادستی تسلیم شدہ سمجھی جانے لگی۔ ایسے پس منظر میں 9/11 کا ہونا امریکیوں کیلئے سوہانِ روح بن گیا۔ جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کرکے امریکی قوت کو للکارا تھا جسے امریکہ نے ایٹمی حملے کرکے برابر کردیا۔ اس وقت امریکہ کو ایک مُلک اور قوم کی شکل میں دُشمن کا سامنا تھا جس کے ساتھ حساب برابر کرکے امریکہ نے دُنیا پر اپنی برتری ثابت کی تھی۔ اس کے بعد ”سٹار وار پروگرام“ کے ذریعے امریکی سرزمین اور دفاع کو ”ناقابل رسائی“ اور ”ناقابل شکست“ بنا دیا گیا تھا لیکن 9/11 نے ایک بار پھر امریکی دفاعی حصار کو مکڑی کا جالا ثابت کردیا تھا۔ اس دفعہ امریکی قوت کے بُت کو کسی مُلک نے نہیں‘ کسی قوم نے نہیں بلکہ ایک شخص اسامہ بن لادن نے شکست دی تھی جس کے پاس نہ کسی ملک کی شہریت تھی‘ نہ ہی اس کی کمان میں کوئی فوج تھی‘ نہ ہوائی جہاز نہ توپ و ٹینک اس کے باوجود ایک شخص نے امریکی قوت کا بُت پاش پاش کردیا تھا۔ امریکہ پوری دُنیا کو اپنے ساتھ ملا کر 2001ءسے اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی تلاش میں کبھی عراق کے صحراﺅں میں اور کبھی افغانستان کے پہاڑوں میں کھجل خوار ہورہا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ امریکی قیادت میں جاری ہے۔ افغانستان کو پتھر کے زمانے تک پہنچانے کے بعد عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی ہے۔ عراق میں اپنی پٹھو حکومت قائم کرنے اور فوجیں نکالنے کے بعد امریکہ پچھتا رہا ہے کیونکہ خِطے میں ایرانی اثرونفوذ بڑھ گیا ہے‘ امریکی مفادات بھی محفوظ نہیں رہ سکے ہیں۔ 2015ءمیں افغانستان میں ملٹری آپریشن ختم کرنے کے بعد امریکی ایک بار پھر یہاں اپنے مفادات محفوظ بنانے کیلئے ملٹری آپریشن شروع کرچکے ہیں۔ اس سے پہلے امریکی کمانڈر اعلان کرچکے ہیں کہ افغانستان میں جنگ جیتنا ممکن نہیں ہے۔ اس دفعہ امریکی صدر ٹرمپ نے جنگ کے اہداف کے حصول کیلئے کسی قسم کے ٹائم ٹیبل کا اعلان نہیں کیا گویا اب جنگ لامحدود مدت تک جاری رہے گی۔

امریکی تاریخ میں لڑی جانے والی یہ طویل ترین جنگ ہے۔ براﺅن یونیورسٹی کے نیٹاکرافورڈ کے مطابق 9/11 کے بعد دہشت گردی کیخلاف عراق‘ افغانستان اور پاکستان میں لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ مجموعی طور پر اربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے ۔ 5 ہزار ارب ڈالر کے علاوہ 2 ہزار ارب ڈالر افغانستان میں خرچ کئے جاچکے ہیں۔ جنگ پر اٹھنے والے خرچ کی اس رقم میں قرضے بھی شامل ہیں۔ امریکہ کو مستقبل میں ان قرضوں پر سُود بھی ادا کرنا ہوگا۔ جس سے امریکی مالیاتی معاملات میں بھی بگاڑ دیکھنے میں آرہا ہے۔

بش‘ اوباما اور اب ٹرمپ سب صدور نے 9/11 کے بعد یہ جنگ اپنی پوری استعداد کے ساتھ لڑی۔ جارج بش نے اس جنگ کو کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ قرار دیا۔ اوباما ویسی ہی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ختم ہوتی ہوئی جنگ کو ایک بار پھر دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جسے طالبان نے خوش آمدید کہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام امریکیوں کے نمائندے ہیں جو کہ مجموعی طور پر امریکیوں کے نظریات اور سوچ کا عکاس نہیں ہے نسل پرستی اور اسلام دُشمنی کے جذبات لئے ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر 9/11 کی جنگ شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ پچھلے مہینے ساﺅتھ ایشیا بارے اپنی افغان پاکستان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے جو دھمکی آمیز انداز اختیار کیا اور جو اقدامات بیان کئے وہ خِطے میں کسی خوشگوار مستقبل کی نشاندہی نہیں کرتے۔

9/11 کے بعد دہشت گردی کیخلاف امریکہ کی اعلان کردہ جنگ نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک کو غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں کئی مُسلم ممالک مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ عراق‘ افغانستان‘ شام لہولہان ہوچکے ہیں‘ پاکستان زخمی زخمی ہے‘ پوری دُنیا خوف کی لپیٹ میں ہے۔ امریکی پالیسیوں کے ردعمل کے طور پر کئی چھوٹے بڑے مسلح گروہ سرگرم عمل ہیں‘ کئی دہشت گردوں کو امریکی پشت پناہی حاصل ہے۔ داعش جو اس وقت دہشت گردی کے منظر پر چھایا ہوا ہے امریکی معاونت سے ہی اس قدر توانا اور وحشت ناک بنا ہے گو اب اسے امریکہ کی اس طرح پشت پناہی حاصل نہیں ہے لیکن وہ اس میدان میں ایک توانا اور فیصلہ کُن فریق کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ امریکی عوام بھی اس جنگ سے بیزار ہیں وہ بنیادی حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنا پسند نہیں کرتے ہیں جبکہ امریکی ادارے دہشت گردوں کی سرکوبی کی آڑ میں کئی ایسے قوانین نافذ کررہے ہیں جن سے امریکی شہریوں کے بنیادی حقوق پر زد پڑتی ہے۔ ناٹو اور دیگر اتحادی ممالک اب اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ امریکی معیشت شاید ہی جنگی اخراجات کا بوجھ برداشت کرسکے۔ دہشت گردی کیخلاف جاری اس جنگ کے بارے میں امریکی رائے عامہ بھی منقسم ہے۔ صدر بننے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس جنگ کے خاتمے کے داعی تھے لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے یو ٹرن لیا اور افغانستان میں ہاری ہوئی اس جنگ کو پھر سے شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے دیکھئے نئی جنگ کیا گُل کِھلاتی ہے۔

متعلقہ خبریں