چودھری نثار کی سانحہ کوئٹہ رپوٹ کے بعد وزیراعظم کو استعفے کی پیشکش

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 17, 2016 | 12:07 شام

 

اسلام آباد(مانیٹرنگ)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سانحہ کوئٹہ کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی جس میں مرچ مصالحہ بھی موجود تھا۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف سنے بغیر یکطرفہ رپورٹ کس طرح سامنے آگئی۔

انہوں نے کہا کہ ’اس میں صرف آفیشل نہیں بلکہ ذاتی الزامات بھی لگائے گئے، مثال کے طور پر وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی، مجھے اس الزم سے بہت تکلیف ہوئی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں تو ملزم کو بھی مکمل موقع دیا جاتا ہے اپنا موقف پیش کرنے کا لیکن ایسا کیسا ہوا کہ مجھ پر الزامات لگ گئے اور میرا موقف بھی نہیں لیا گیا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ میں فوری طور پر اس کا جواب دینا چاہتا تھا لیکن دو وجوہات کی بناء پر تاخیر ہوگئی۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’اخبارات میں دیکھ کر بہت دکھ ہوا جس میں لکھا تھا کہ میں نے عوام سے جھوٹ بولا‘۔

انہوں نے کہا کہ میں بہت ہی گناہ گار ہوں لیکن جھوٹ نہیں بولتا، رپورٹ میں صرف پیشہ ورانہ نہیں ذاتی الزامات بھی لگائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں اپنا مؤقف پیش کروں گا، ملک کی سیکیورٹی انتہائی حساس ہے‘۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ رپورٹ دیکھنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو پیشکش کی کہ میں وزارت سے استعفیٰ دے کر صفائی پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن وزیراعظم نے مستعفی ہونے کی بات تسلیم نہیں کیا۔

وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا تھا کہ وہ آج انتہائی جارجانہ موڈ میں آئے ہیں اور کہا کہ صرف ایک ہی موضوع پر بات ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ اس رپورٹ کے حوالے سے میرے بات کرنے کے خلاف تھے لیکن میں یہ معاملہ واضح کرنے اور تصویر کا دوسرا رخ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا‘۔

واضح رہے کہ 8 اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خود کش دھماکے میں 70 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی۔

بڑی تعداد میں وکلاء بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سول ہسپتال پہنچے تھے کہ اچانک دھماکا ہوگیا۔

اس واقعے پر تشکیل دیے جانے والے جوڈیشل کمیشن نے دو روز قبل اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس میں حکومت پر شدید تنقید کی گئی تھی۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ’جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان کو پڑھا بھی نہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پر عمل نہیں ہوا‘۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب ہاؤس میں ایک خط بھیجا گیا جس میں ان سے پانچ سوالوں کے جواب دینے کا کہا گیا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ’پہلے میں سمجھا کہ یہ خط جعلی ہے کیوں کہ میں پنجاب ہاؤس میں نہیں رہتا، تحقیقات پر معلوم ہوا کہ ایک جج کے سیکریٹری نے میرے لیے وہ خط وہاں چھوڑا تھا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’خط میں پہلا سوال یہ تھا کہ میں نے کیوں اہل سنت والجماعت سے کیوں ملاقات کی؟ میں نے جواب دیا کہ میں نے کبھی ملاقات نہیں کی‘۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ’مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیوں اہل سنت والجماعت کو عوامی اجتماع کی اجازت کیوں دی گئی؟ میں نے کہا میں نے ایسی کوئی اجازت نہیں دی‘۔

انہوں نے کہا کہ دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات کی، ملاقات میں ون پوائنٹ ایجنڈے شناختی کارڈ پر بات کی۔

چوہدری نثار نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں آنے والے وفد میں مولانا لدھیانوی بھی شامل تھے، وفد فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ سے متعلق بات کے لیے آیا تھا، جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ مولانا لدھیانوی کو ساتھ لے کر کیوں آئے؟