بلی بڈ ، شاہکار

2019 ,ستمبر 9



اُنیسویں صدی کے امریکی ناول نگاروں میں ہر مین میلوائل ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ ’’موبی ڈِک‘‘ اور ’’بِلی بڈ‘‘ اس کی دو شاہکار تحریریں ہیں جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا۔ وہ یکم اگست ۱۸۱۹ء کو نیو یارک میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اُستاد بن گیا‘ لیکن یہ کام اُسے پسند نہ آیا اور جلد ہی اُس نے ایک بحری جہاز پر ملازمت کر لی۔ اُس کی پہلی کتاب ’ٹاپئی‘ تھی جس میں اس نے بحرِاوقیانوس میں اپنے مختلف سفروں کی رُوداد بیان کی تھی۔ اِس کے بعد اُس نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں سے ’’موبی ڈک‘‘ کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ ’’بِلّی بڈ‘‘ میلوائل کی آخری تصنیف ہے جو اُس کی وفات کے تیس سال بعد منظرِ عام پر آئی۔ اصل میں اس کا مسوّدہ ایک ایسے صندوق میں تھا جو ایک مدت تک بند پڑا رہا۔ ۱۸۹۱ء میں میلوائل اس عالمِ فانی سے رخصت ہو گیا۔
بِلّی بڈ ایک کہانی ہے‘ لیکن عام کہانیوں سے یکسر مختلف۔ اِس کہانی میں تاریخ ہے‘ معاشرت ہے‘ فلسفہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں نیکی اور بدی کی ازلی اور ابدی کش مکش کو بیان کیا گیا ہے۔بِلّی نیکی کا مظہر ہے‘ تو کلیگرٹ بدی کا۔ بِلّی نیک نفس ہے ‘ خوش اخلاق‘ محنتی اور پُر خلوص ہے۔ اس کے برعکس کلیگرٹ ظالم ‘ متشدد ‘کینہ پرور اور جھوٹا ہے۔ بِلّی نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا‘ لیکن وہ صرف اس لیے اُس کا مخالف ہے کہ بلی میں اُسے نیکی مجسّم بن کر دکھائی دیتی ہے۔ بدی ‘ نیکی کے ہاتھوں ایک ہی معرکے میں ختم ہو جاتی ہے۔ کپتان دیر جو اتنا عالم وفاضل ہے اور جو خود بھی محسوس کرتا ہے کہ بلی بے گنا ہ ہے‘ وقتی مصلحتوں کی بنا پر اُسے موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ لیکن نیکی صفحہ ہستی سے نہیں مٹ سکتی‘ وہ کسی نہ کسی صورت میں جنم لیتی رہے گی۔ کپتان دیر جو اتنا پڑھا لکھا تھا‘ گمنامی کی مَوت مرتا ہے‘ صرف اس لیے کہ اس نے وقتی مصلحتوں کو نیکی پر فوقیت دی۔ بلی بڈ ایک ایسی داستا ن ہے جس کے بے شمار پہلو ہیں۔ہر بار جب انسان اسے پڑھتا ہے‘تو ایک نیا لطف محسوس کرتا ہے اور اس پر نئے نئے مطالب واضح ہوتے ہیں۔
وہ بھورے بالوں اور خوبصورت ناک نقشے والا ایک قدآور نوجوان تھا۔ دوسرے ملاحوں کی طرح وہ بھی کانوں میں سونے کے آویزے پہنا کرتا اور گلے میں ایک بڑا سا رنگین رومال جس کے دونوں کنارے اس کے سینے پر دائیں بائیں لٹکتے رہتے۔ اس کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت اور شگفتگی اور آنکھوں میں بھولپن تھا۔ وہ سر تاپا خوبصورتی اور طاقت کا مجسمہ تھا۔ یار لوگ اس کی بے پناہ طاقت کی کہانیاں سناتے اور اس کے حُسن کی جی کھول کر تعریف کرتے۔ وہ بہت مخلص اور جرأت مند تھا اور اس کے ساتھی اپنے مطالبات افسرانِ بالا تک پہنچانے کے لیے ہمیشہ اسے منتخب کر تے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ یہ فر ض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتا تھا ۔ طوفان کے دوران وہ بندر کی سی پھرتی سے سیڑھیوں‘ بادبانوں اور مستولوں کی دیکھ بھال کرتا۔ کبھی کسی رسّے کی مرّمت کر رہا ہے‘ تو کبھی بادبانوں کو گرانے میں مصروف ہے۔ کام میں لگن اور دوستوں سے خلوص کی وجہ سے اُسے ہر جگہ محبت اور تعریف کی نظروں سے دیکھا جاتا۔ یہ تھی ہمارے نوجوان بِلّی بڈ کی ایک ہلکی سی جھلک‘ جس کی عمر بائیس سال تھی اور جو اٹھارویں صدی کے آخر میں ایک محنتی‘ دیانتدار اور جفاکش ملاح تھا۔ وہ جہاز کے اگلے حصّے میں مستول کے قریب ایک جُھکے ہوئے عرشے پر کام کرتا تھا۔ بحریہ کی زبان میں یہاں کام کرنے والوں کو ’’فور ٹاپ مین‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ۱۷۹۷ء کا ذکر ہے جب دنیا میں سیاسی بیداری کی ایک لہر دوڑرہی تھی۔ فرانس کے خونیں انقلاب کے اثرات ہر جگہ پہنچ چکے تھے‘ چنانچہ انگلستان کے بعض جنگی جہازوں پر ملاّحوں نے کھلم کھلا اپنے افسروں کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ ان چھوٹی چھوٹی بغاوتوں کو جلد ہی ختم کر دیا گیا‘ تاہم ان کے نتیجے میں برطانوی بحریہ کے قوانین پر نئے سرے سے غور کیا گیا اور کسی حد تک ملاحوں اور دوسرے چھوٹے ملازمین کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔
ان دنوں بِلی ایک تجارتی جہاز پر ملازم تھا جو انگلستان سے روانہ ہو کر کھلے سمندر میں سفر کر رہا تھا۔ جنگ کی وجہ سے مستعد اور تجربہ کار ملاحوں کی بہت ضرورت تھی اور اکثر عملے کی کمی کی وجہ سے زبردستی ملاح بھرتی کیے جاتے تھے۔ ’’انڈومی ٹیبل‘‘ بھی ایک ایسا ہی جنگی جہاز تھا‘ چنانچہ لیفٹنٹ ریٹ کلف کی سرکردگی میں سپاہیوں کا ا یک دستہ اس تجارتی جہاز پر بھی آیا جہاں بِلّی کام کر رہا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ چند نوجوان ملاحوں کو منتخب کیا جائے تاکہ وہ ’’انڈومی ٹیبل‘‘ پر کام کر سکیں۔ تجارتی جہاز کا سارا عملہ لیفٹنٹ کے سامنے لایا گیا۔ جونہی اس کی نظر بلی پر پڑی‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منتخب کر لیا۔ بلی خاموشی سے اپنی جگہ کھڑاتھا۔ اس نے اپنے انتخاب پر ذرا بھی احتجاج نہ کیا تھا۔ ویسے احتجاج تھا بھی بے سود‘ بھلا نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا۔ برطانوی بحریہ کے سامنے تجارتی جہاز کے ایک معمولی ملاح کی حیثیت ہی کیا تھی…لیفٹنٹ نے بلی کی خاموشی کو رضامندی پر محمول کیا تھا اور بہت خوش تھا۔ غالباً یہ پہلاشخص تھا جس نے اپنی قید کا حکم خاموشی سے سنا تھا‘ ورنہ وہ جہاں کہیں بھی جبری بھرتی کے لیے جاتا‘ ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوتا ۔ ملاح چیخ چیخ کر اُسے گالیاں دیتے اور ان میں سے جس کو چُنا جاتا‘ وہ ٹس سے مَس نہ ہوتا تھا۔ مجبور ہو کر سپاہی تشدد پر اُتر آتے اور بکتے جھکتے ہوئے ملّاح کو زبردستی کشتی میں سوار کر لیا جاتا۔
تجارتی جہاز کا کپتان اپنے کمرے میں افسردہ مغموم بیٹھا تھا۔ اس کا جسم فربہ اور عمر پچاس کے لگ بھگ تھی۔ وہ ساری عمر بپھرے ہوئے طوفانوں اور ناموافق ہوائوں سے مقابلہ کرتا رہا تھا۔ ’’انڈومی ٹیبل‘‘ کا لیفٹنٹ اس کے کمرے میں داخل ہوا‘ تو اس نے ٹھہری ہوئی گمبھیر آواز میں کہا:
’’لیفٹنٹ ! تم نے جس نوجوان کو منتخب کیا ہے‘ وہ میرے عملے کا بہترین کارکن ہے۔‘‘
لیفٹنٹ ریڈ کلف نے آہستہ آہستہ اپنا گلاس خالی کیا اور مسکراتے ہوئے بولا:
’’میں جانتا ہوں… اور مجھے اس بات کا افسوس بھی ہے۔‘‘
’’تم کچھ نہیں جانتے… میں تمہیں بتاتا ہوں وہ نوجوان کیا ہے۔ اُس کے آنے سے پہلے میرے جہاز کے ملاح ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان میں شیطان کی روح سما گئی ہے۔ میں اُن کے جھگڑوں کو نمٹاتے نمٹاتے تنگ آچکا تھا…پھر بلی آگیا اور یہاں اطمینان اور سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس میں ایسی کون سی طاقت تھی جس نے اکھڑ مزاج ملاحوں کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ اس نے کبھی کسی کو نصیحت نہیں کی‘ کبھی کسی کو ڈانٹا نہیں‘ اس کے باوجود ہر شخص اس کا احترام کرتا ہے‘ اس کی بات مانتا ہے اور ا س کے لیے ہر تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔ لوگ اس پروانہ وار فدا ہیں۔ صرف ایک شخص ایسا تھا جو اُسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ جھگڑالو ملّاحوں کا سردار تھا‘ لیکن بلی کے آتے ہی لوگوں نے اُس کی بات ماننے سے انکار کر دیا…وہ سب بِلّی کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے تھے… بِلّی کا سلوک اس سے بھی دوستانہ تھا۔اصل میں بلی کو لڑائی جھگڑے سے نفرت ہے‘ وہ تو صلح کا پیامبر ہے‘ مگر اُس سرخ بالوں والے سردار کی سمجھ میں یہ بات نہ آسکی اور ایک روز اس نے مشتعل ہو کر بِلّی کے پیٹ میں ایک گھونسا مارا۔ لیفٹنٹ ‘ تم میری بات پر یقین نہیں کرو گے‘ بالکل اسی طرح جیسے میری آنکھوں نے اس منظر پر یقین نہیں کیا تھا جسے وہ خود دیکھ رہی تھیں… سُرخ بالوں والا ہٹا کٹا اور گرانڈیل تھا۔ وہ ایک چھٹا ہوا بدمعاش تھا اور لڑائی کے دائوں پیچ سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس کے مقابلے میں بِلّی ایک نوخیز جوان تھا‘ مگر جب بِلّی کا ہاتھ اپنی جگہ سے ہلا‘ تو صرف نصف منٹ میں سُرخ بالوں والا فرش پر چاروں شانے چِت پڑا تھا۔ چند لمحوں میں بِلّی نے اُسے اِس بُری طرح مارا تھا کہ باوجود کوشش کے وہ کھڑا نہ ہو سکا۔ اب وہ بِلّی سے محبت کرتا ہے…بالکل اسی طرح جیسے وہ دوسرے بیسیوں ملاح اُسے عزیز جانتے ہیں۔ وہ سب اس کے دوست ہیں۔ وہ اصرار سے اس کے کپڑے دھوتے ہیں‘ اس کے جُوتے چمکاتے ہیں اور ان میں سے ایک نے اسے لکڑ ی کا بڑا ہی خوبصورت صندوق تیار کر کے تحفتہً پیش کیا ہے… لیفٹنٹ‘ اگر یہ نوجوان چلا گیا‘ تو مجھے یقین ہے کہ میرے جہاز پر پھر وہی ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔ میرا دن کا سکون اور راتوں کی نیند حرام ہو جائے گی اور میں کبھی مطمئن ہو کر کھانا نہیں کھا سکوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھا کپتان تقریباً رو پڑا۔
لیفٹنٹ ایک بار پھر مسکرایا اور گلاس میز پر رکھتے ہوئے بولا:
’’فکر مت کرو میرے دوست‘ بادشاہ سلامت تم پر فخر کریں گے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو آج کل ملاحوں کی کس قدر کمی ہے اور تجارتی جہازوں کے کپتان اپنے ملاح دوسرے جہازوں کو دیتے وقت کتنا غم کھاتے ہیں۔ جب بادشاہ سلامت کو معلوم ہو گا کہ ایک کپتان نے خوشی خوشی اپنا بہترین ملّاح بحریہ کے حوالے کر دیا‘تو وہ کتنے خوش ہوں گے۔‘‘
بِلّی لکڑی کا ایک صندوق اٹھائے کمرے میں داخل ہوا۔
’’ لڑکے‘ تم یہ بکس لے کر ہمارے ساتھ نہیں جا سکتے۔‘‘ لیفٹنٹ اپنی مخصوص آواز میں بولا۔ ’’اپنی چیزیں کسی بیگ میں رکھ لو‘ سامان کے لیے ہر شخص کو جہاز پر موجود لکڑی کی خالی پیٹیاں ملتی ہیں۔‘‘
سامان تھیلے میں رکھنے کے بعد بِلّی‘ سپاہیوں کے ساتھ کشتی میں اُتر گیا۔ تجارتی جہاز کا سارا عملہ افسردگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بِلّی نے اپنی ٹوپی اتاری اور کشتی میں کھڑے ہو کر بلند آواز میں بولا:
’’الوداع میرے دوستو…الوداع۔‘‘
پھر اس کی نظریں ان پر سے گز ر کر جہاز کے اونچے مستول پر جا پڑیں۔
’’الوداع… الوداع۔‘‘
’’نیچے بیٹھ جائو۔‘‘ لیفٹنٹ تحکمانہ لہجے میں بولا۔
اور بِلّی مسکرا کر بیٹھ گیا۔
بِلّی نے اس قید کو خاموشی سے قبول کر لیا تھا۔ بالکل اس طرح جیسے انسان خراب موسم کو برداشت کر لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بِلّی کا دل اندر سے خوش تھا کہ چلو ایک نئی جگہ دیکھنے کا موقع ملے گا… شاید یہی وجہ تھی کہ جنگی جہاز انڈومی ٹیبل پر وہ جلد ہی مشہو ر ہو گیا۔ جہاز کے اگلے حِصّے میں جھکے ہوئے عرشے پر اُسے وہی کام ملا تھا۔ تجربہ کار فورمین کی حیثیت سے ہر چھوٹا بڑا اُسے تعریفی نظروں سے دیکھتا تھا۔ اپنے ساتھیوں کی نظر میں بھی وہ ایک مخلص دوست اور نیک دل ملّاح تھا جو آڑے وقت میں دوسروں کے کام آتا تھا۔ جلد ہی وہ ان سے گُھل مِل گیا۔ کئی دوسرے ملا ح بھی اس کی طرح زبردستی یہاں لائے گئے تھے اور کام کے بعد فار غ اوقات میں افسوس ظاہر کیا کرتے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے بارے میں فکر مند تھے جنہیںوہ تنہا چھوڑ آئے تھے اور جن کے پاس گزارے کے لیے کافی رقم موجود نہیں تھی‘ لیکن جیساکہ آگے چل کر معلوم ہو گا‘ ہمارا بِلّی ان سب فکروں سے آزادتھا۔ اُسے کسی چیز کا غم نہ تھا‘ اس لیے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا اور جہاں کہیں وہ جاتا‘ ا پنی نیکی‘ سادگی‘ شرافت اور معصومیت کی وجہ سے غیروں کو بھی اپنا بنا لیتا۔
ایک تجربہ کار ملّاح ہونے کی وجہ سے اُسے قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا تاہم وہ مقام جو اسے تجارتی جہاز پر حاصل تھا‘ یہاں نہ مل سکا۔ ’’انڈومی ٹیبل‘‘ ایک جنگی جہاز تھا اور یہاں قِسم قِسم کے لوگ تھے ۔ ان میں سے ایسے بھی تھے جو اس کی نوعمری پر ہنستے تھے جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں‘ بلّی کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت تھی۔ اس کے بال بھی نو عمر بچوں کی طرح کھنگریالے تھے۔ جِلد ملائم تھی اور رنگت بھی صاف… اس کا پورا جسم یونانی سورمائوں کی طرح گٹھا ہوا اور مضبوط تھا‘ لیکن ہاتھ پائوں‘ ناک وغیرہ عورتوں کی طرح نازک اور چھوٹے چھوٹے تھے۔ ایک روز بحریہ کے ایک افسر نے اُس سے پوچھا:
’’تم کہاں پیدا ہوئے تھے؟‘‘
’’معلوم نہیں‘جناب۔‘‘
’’تمہا را باپ کون تھا؟‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا۔ ‘‘ بلی نے سر جھکا کر جواب دیا۔ پاس کھڑے ہو ئے سب لوگ ہنس دیے۔
۱۷۹۷ء کے موسم گرما میں سپٹ ہیڈ اور نورے کی جو بحری بغاوتیں ہوئی تھیں‘ ان میں سے نورے کی بغاوت بہت بڑی تھی۔ نورے برطانوی بحریہ کا ایک بازو تھا۔بے جا ظلم وتشدد سے تنگ آکر ہزاروں غلاموں نے علم بغاوت بلند کر دیا اور اپنے مُلک کو تباہ کر نے پر تُل گئے۔ انگلستان کی تاریخ لکھنے والوں نے دانستہ اس واقعے کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اپنی خامیوں پر کون نظر ڈالتا ہے۔ قومیں بھی اپنی خامیاں چُھپا لیتی ہیں تاکہ دوسروں کی نظر اُن پر نہ پڑ سکے۔ مختصرا ً یہ کہ حکومت اور باغی لیڈر وں میں گُفت وشنید شروع ہوئی اور کچھ لو‘ کچھ دو کے اصول پر صلح ہو گئی۔ اس وقت سے بحری جنگی جہازوں پر ملّاحوں اور افسروں کے درمیان ایک ناخوشگوار فضا پیدا ہو گئی تھی۔ افسر نورے اور سپٹ ہیڈ کی بغاوتوں کی روشنی میں ملّاحوں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے جس سے ملّاحوں کے دلوں میں خواہ مخواہ غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ ’’انڈومی ٹیبل‘‘ پر بھی فضا بظاہر پُر سکون تھی‘ لیکن جانے اس سکون کی تہ میں کتنے اضطراب پوشیدہ تھے۔اس سے پہلے کہ ہم اصل کہانی کی طرف لوٹیں‘ جہاز کے چند ذمّے دار افسروں کا تعارف بہت ضروری ہے۔
جہاز کے کپتان ایڈورڈ فیر فکس دِیر کی عمر چالیس برس کے قریب تھی۔ وہ بہت اچھا جہاز ران تھا اور ایک بہت معزز خاندان کا فرد تھا۔ وہ ایک مدت سے بحریہ میں تھا اور کئی ایک مشہور جنگوں میں حِصّہ لے چکا تھا ۔ ایک ذمّے دار افسر کی طرح وہ اپنے ماتحتوں کے آرام کا خیال رکھتا تھا‘ لیکن بدنظمی اور بے قاعدگی برداشت نہیں کرتا تھا۔ اس کی گفتگو بہت صاف ہوتی تھی اور وہ دوسرے جہاز رانوں کی طرح بگڑی ہوئی زبان نہیں بولتا تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک خاموش طبع انسان تھا جو بہت کم مسکراتا اوربات چیت کرتا تھا۔ اس کا جسم فربہ تھا اور قدقدرے چھوٹا۔ دوسری بہت سی خوبیوں کے علاوہ اس میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ مغرو ر نہیں تھا ۔ فرصت کے اوقات میں وہ ریلنگ کا سہارا لے کر سمندر کی موجوں پر نظریں جمائے کھڑا رہتا۔ وہ ایک محبِ وطن جہاز راں تھا‘ لیکن سمندر اپنی تمام وسعتوں کے باوجود اسے مطالعے کے کمرے سے نہ چھین سکا تھا۔ اُسے کتابوں سے عشق تھا۔ جہاں کہیں جہاز ٹھہرتا‘ وہ سیدھا بازار پہنچتا اور ڈھیر ساری نئی کتابیں خرید لاتا۔ جنگ کے دوران بھی وہ فرصت کے چند لمحات نکال کر مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔ اُسے تاریخ اور فلسفے سے دلچسپی تھی۔ قدیم اور جدید فلسفیوں کے نظریات اور ا نسانی فطرت کا مطالعہ اس کا دلچسپ مشغلہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ ہر چیز کے بارے میں اس کی رائے واضح تھی۔ دوسرے جہاز رانوں کی طرح وہ خشک مزاج انسان تھا۔ گو اس کی قابلیت اور ذہانت کے سبھی قائل تھے‘ لیکن چونکہ ان کی ذہنی سطح برابر نہیں تھی‘ اس لیے وہ اس سے ملتے وقت بیزاری محسوس کرتے تھے۔ بقول ان کے وہ بڑی فلسفیانہ گفتگو کرتا تھا اور ایسے موٹے موٹے الفاظ بولتا تھاجو اُن کی سمجھ سے بالاتر تھے۔
کپتان کے بعد ہمیں جان کلیگرٹ کا تعارف کرانا ہے جو ’’انڈومی ٹیبل‘‘ کا پولیس افسر تھا۔ اس عہدے کو بحریہ کی اصطلاح میں ’’ماسٹرایٹ آرمز‘‘ کہتے ہیں۔ اس شخص کا فرض مجموعی طور پر جہاز میں نظم ونسق قائم رکھنا اور ملاحو ں کی نگرانی کرنا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ یہ کام بڑی مہارت سے انجام دیتا تھا۔ اس کی عمر پینتیس سال تھی‘ وہ دُبلا پتلا اور لمبے قد کا شخص تھا۔ اس کی تیز نگاہیں مخاطب کے دل میں اُتر جاتی تھیں چونکہ اس کا کام ملاحوں کی دیکھ بھال تھا‘ اس لیے دُھوپ میں بیٹھنا اسے بہت کم نصیب ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی رنگت میں قدرے زردی آگئی تھی۔ کسی کو اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ جہاز کے بوڑھے اور معمّر ملاحوں کا کہنا تھا کہ وہ ایک سپاہی تھا جو بذاتِ خود قانون شکنی کا مرتکب ہوا تھا‘ چنانچہ سزا کے طور پر اُسے بحریہ میں بھیج دیا گیا‘ بہر حال لوگ اس کے بارے میں زیادہ فکر وتردّد سے کام نہیں لیتے تھے۔ ان دنو ں بحریہ کو زیادہ سے زیادہ آدمیوں کی ضرورت تھی‘ چنانچہ اس میںبلا سوچے سمجھے ہر شخص بھرتی کر لیا جاتا تھا۔ زیادہ تر مجرم لوگ یہاں آتے تھے‘ کیونکہ شاہی بحریہ میں شمولیت کے بعد حکومت ان پر ہاتھ ڈالنا مناسب نہ سمجھتی تھی۔ گو حکومت کھلے بندوں اس امر کا اعتراف نہ کرتی تھی‘ لیکن یہ ایک حقیقت تھی جس سے گریز ممکن نہ تھا۔ ملّاحوں میں اُسے خوف اورناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اصل میں اس کا کام ہی کچھ اس قسم کا تھا۔ ملّاحوں کو قابو میں رکھنا جُوئے شیر لانے سے کم نہ تھا‘ چنانچہ سیدھے سادے لفظوں میں مُلّاح اُسے شیطان کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ بہت معمولی حیثیت سے بحریہ میں داخل ہوا تھا‘ لیکن اپنی ذہانت اور عیّاری کی وجہ سے ترقی کرتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا تھا۔ وہ افسران بالا کا ہر حکم بجا لاتا اور جہاز پر ہونے والے چھوٹے سے چھوٹے واقعے پر کڑی نظر رکھتا۔ ملّاح اکثر اس سے عاجز آجاتے تھے‘ لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔
یوں تو ’’انڈومی ٹیبل‘‘ پر آنے کے بعد بِلّی پوری دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دینے لگا تھا‘ لیکن جب پہلی بار اس نے اپنے ایک ساتھی کی مرّمت ہوتے د یکھی جو نالائق اور کام چور تھا‘ تو اس کی مستعدی میں اضافہ ہو گیا۔ سزا یافتہ نوجوان کی پیٹھ خون سے تر تھی اور اس پر بیدوں کے نشان تھے۔بِلّی خوف زدہ ہو گیا اور اس نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی کام میں سُستی نہیں کرے گا۔ جلد ہی اس کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔ کوشش کے باوجود کبھی کبھار اس سے چھوٹی موٹی غلطیاں سر زد ہو جاتیں۔ مثال کے طور پر اُس کا بستر شکن آلود ہوتا یا اُس کا بیگ کسی غلط جگہ رکھا ہوا ہوتا۔ نچلے عرشے میں جہاں وہ سوتے تھے‘ پولیس افسر کلیگرٹ کا ماتحت عملہ نگرانی کے فرائض انجام دیا کرتا ۔ ایک سپاہی کی زبانی بِلّی کو معلوم ہو چکا تھا کہ معمولی سے معمولی غلطی پر اُسے سزا مل سکتی ہے۔یہ صورتِ حال بِلّی کے لیے بہت فکر کا باعث تھی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ ڈینسکر سے مشورہ لے ۔ ڈینسکر ملاّحوں میں سب سے بوڑھا تھا اور عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے اُسے جہاز رانی کے سامان کا انچارج مقرر کیا گیا تھا۔جلد ہی بلی کی اس سے دوستی ہو گئی۔اس دوستی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باقی سب ملاح نوجوان تھے اور بوڑھے ڈینسکر کو تمسخر کی نظروں سے دیکھتے تھے۔صرف بِلّی ایسانوجواان تھا جو اُس کی عمر کا مذاق اڑانے کی بجائے عزّت واحترام سے پیش آتا تھا۔ ڈینسکر بھی محبت میں اُسے بے بی کہہ کر پکارتا تھا۔بِلّی سیدھا اس کے پاس پہنچا اور پوری بات اُسے کہہ سنائی۔ ڈینسکر نے بڑی توجہ سے اُسے سُنا اور پھر بولا:
’’بے بی‘ معلوم ہوتا ہے پولیس افسر تمہارے خلاف ہے۔‘‘
’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے ‘ میں نے دوسرے ملاحوں کی زبانی سنا ہے کہ وہ مجھے بہت اچھا لڑکا سمجھتا ہے۔‘‘
’’اچھا‘ اب تو مجھے یقین ہو گیا کہ ا ُسے واقعی تُم سے نفرت ہے۔‘‘
’’یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ جب بھی میرے قریب سے گزرتا ہے‘ مسکرا کر میری حوصلہ افزائی کرتا ہے۔کئی بار تو اُس نے مجھ سے باتیں بھی کی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘ اِسی بات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمہیں پسند نہیں کرتا۔‘‘
بِلّی پریشان ہوگیا… اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اس نے پولیس افسر کا کیا بگاڑا ہے ۔اس نے بڑے میاں کو کریدنے کی بہت کوشش کی ‘ لیکن ڈینسکر جہاندیدہ ا ور گھاگ تھا۔ اس نے زبان نہ کھولی؛ البتہ اس کے چہرے کی جھریاں اور گہری ہو گئیں اور وہ خاموشی کے سمندر میں ڈوب گیا۔
٭٭
اگلے روز ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے بِلّی پر یہ واضح کر دیا کہ ڈینسکر کا اندازہ درست نہ تھا ۔ ہوا یوں کہ جہاز تیزی سے سفر کر رہا تھا۔ بِلّی نچلے عرشے پر رات کا کھانا کھا رہا تھا۔ اچانک جہاز نے ایک دھچکا کھایا اور کھانے کی پلیٹ بِلّی کے ہاتھ سے چھٹ کر تازہ صاف کیے ہوئے فرش پر گر پڑی۔ پولیس افسر کلیگرٹ قریب سے گزر رہا تھا‘ اُس کا چہرہ غُصّے سے سرخ ہو گیا‘ وہ رُکا اور مُڑ کر دیکھنے لگا۔ دفعتہ اُس کی نظر بِلّی پر جا پڑی۔
’’اچھا‘ تو یہ تم ہو… خوب ‘ بہت خوب۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اوراپنی چھڑی سے بِلّی کو چُھوا… اس کے بعد وہ دوستانہ انداز میں ہنستا ہوا اوپر چلا گیا۔
معصوم اور سادہ لوح بِلّی سمجھا کہ شاید پولیس افسر کی مسکراہٹ دوستانہ ہے۔ اُسے کیا معلوم کہ اس مسکراہٹ میں زہر چھپا ہوا ہے۔ کلیگرٹ کو اس نوجوان سے نفرت تھی۔ ایسی نفرت جو بُرے آدمی کو اچھے آدمی سے ہوتی ہے اورجس کی بنیادیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ انسان خود بھی اسے سمجھ نہیں سکتا۔ کلیگرٹ اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور تھا۔اس کے اندر سے کوئی پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ بِلّی اُس کا دشمن ہے اور ا ُسے ہر قیمت پر اس سے بدلہ لینا چاہیے۔ اُسے بِلّی کی ہر شَے ناپسند تھی… اس کے گھنگریالے بال‘ خوبصورت چہرہ‘ قابلِ رشک صحت اور بے داغ جوانی۔ کبھی کبھار اُس کا جی چاہتا کہ کاش! اُسے بھی بِلّی کی سی خوبصورتی اور صحت مل جائے‘ لیکن وہ خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ بِلّی اور وہ دریا کے دو ایسے کنارے ہیں جن کا ملاپ ناممکن ہے ۔ شاید اس کی یہ نفرت دبی رہتی‘ لیکن اس روز بِلّی کے کھانا گرانے پر اُے ایک جواز مل گیا۔ اس نے اپنے دل میں کہا : ’’یہ کھانا بِلّی نے جان بوجھ کر گرایا تھا … اصل میں وہ میری نفرت کو بھانپ گیا ہے اور بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دینا چاہتا ہے۔‘‘ اس خیال نے اس کے جذبۂ انتقام کو تقویت دی اور اس نے اپنے ایک نائب سکریک کو بِلّی پر کڑی نگاہ رکھنے کا حکم دے دیا۔ سکریک فوراً بھانپ گیا کہ کلیگرٹ‘ بِلّی کو ناپسند کرتا ہے۔اس نے موقع بے موقع بِلّی کی جُھوٹی سچی شکایتوں کے دفتر کھول دیے۔ جب اس نے بتایا کہ بِلّی اُسے گالیاں دیتا ہے‘ تو کلیگرٹ جھٹ مان گیا۔ نفرت ایک ایسا شعلہ ہے جو لمحہ بہ لمحہ بھڑکتا ہے۔ کلیگرٹ کا بھی یہی عالم تھا‘ وہ سمجھتا تھا کہ چونکہ وہ بِلّی سے نفرت کرتا ہے‘ اس لیے بِلّی بھی اُسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہو گا۔ مصیبت یہ تھی کہ اسے بِلّی سے انتقام لینے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ بِلّی اتنا محتاط تھا کہ کوئی اس کے کسی فعل پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔
چند روز بعد بِلّی کو ایک ایسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جو اُس کے لیے بالکل نئی تھی۔ وہ جہاز کے اگلے حِصّے میں مزے کی نیند سو رہا تھا۔ اصل میں نچلے عرشے پر جہاں بے شمار ملّاح ایک دوسرے کے قریب قریب سوتے تھے‘ حبس اور گرمی تھی۔ وہ دیر تک اپنے بستر میں کروٹیں بدلتا رہا‘ لیکن اسے نیند نہ آئی۔آخر وہ اُٹھا اور اُوپر جا کر سو گیا۔ اچانک کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ وہ آنکھیں مَلتے ہوئے اٹھا۔ کوئی سرگوشی کے لہجے میں کہہ رہا تھا:
’’بِلّی! چپ چاپ میرے ساتھ چلے آئو‘ دیکھو مَیں سامنے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر سایہ غائب ہو گیا۔
ایک اچھے انسان کی طرح بِلّی میں بھی یہ کمزوری تھی کہ وہ کسی کی درخواست ر د کرنا نہیں چاہتا تھا۔ گو اسے گفتگوکا یہ انداز پسند نہ تھا‘تاہم وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور غنودگی کے عالم میں مستول کی طرف چل دیا۔ یہاں ایک چھوٹا سا کمرا تھا جس میں جال‘ رسّے ‘ کھونٹے اور اس قسم کی دوسری چیزیں رکھی تھیں۔ اجنبی اس کا منتظر تھا۔بِلّی کوشش کے باوجود اُسے پہچان نہ سکا‘ تاہم اس نے اندازہ لگا یا کہ وہ جہاز کے عقبی حصّے میں کام کرنے والے محافظوں میں سے ہے۔ اجنبی بولا:
’’دیکھو بِلّی‘ میرا خیال ہے‘تمہیںبھی یہاں زبردستی لایا گیا ہے… ہاں‘ ہاں‘ مجھے معلوم ہے تم بھی میری طرح قیدی ہو۔ اس جہاز پر بہت سے ملاح ایسے ہیں جنہیں یہاں قید کر کے بھیجا گیا ہے۔ اگر تم ہماری مدد کرو‘ تو ہم…‘‘
اجنبی خاموش ہو گیا اور بلی کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ بِلّی اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا… کچھ دیر خاموشی رہی‘ پھراجنبی نے اپنی قمیص میں سے دو چمکدار چیزیں نکالیں اور بِلّی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا:
’’لو‘ انہیں سنبھال کر رکھ لو ضرورت کے وقت کام آئیں گی۔ اچھا‘ تو بات پکّی۔ تم ہماری مدد کرو گے۔
بِلّی غُصّے میں آگ بگولا ہو گیا اور الفاظ اُس کے منہ سے ٹوٹ کر نکلنے لگے:
’’میں کچھ سننا نہیں چاہتا ۔ بہتر یہی ہے کہ تم یہاں سے چلے جائو؛ ورنہ میں تمہیں سمندرمیں پھینک دوں گا۔‘‘
یہ سُنتے ہی سایہ تیزی سے غائب ہو گیا۔
’’کون ہے؟‘‘ اُوپر سے کسی ملّاح نے پوچھا۔
’’مَیں ہوں‘ بِلّی بڈ… یہاں ایک محافظ گھس آیا تھا‘ مَیں نے اُسے کہا ہے کہ وہ فوراً اپنی جگہ چلا جائے‘ ورنہ ا س کی خیر نہیں۔‘‘
’’ٹھیک کیا تم نے‘ ان لوگوں کا یہاں داخلہ ممنوع ہے‘ پھر بھی منہ اٹھائے چلے آتے ہیں۔‘‘
تجربہ کار اور بُوڑھے ملّاح محافظوں کو ہمیشہ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اصل میں محافظ خشکی کے باشندے تھے اور اچھے جہاز ران نہیں تھے۔پھر یہ لوگ افسروں کے سامنے ملّاحوں کی شکایت کرنے سے باز نہ آتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ کسی نے بِلّی سے زیادہ باز پُرس نہ کی۔
اُس رات جو کچھ ہوا‘ اُس نے بِلّی کو مضطرب اور بے چین کر دیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ دِن کی روشنی میں وہی محافظ اُسے پھر دکھائی دیا۔ ایک بار اُس کے جی میں آئی کہ اس سے وضاحت طلب کرے‘ لیکن یہ سارا معاملہ اُسے ناپسند تھا اور اس بارے میں اُسے مزید گفتگو پسند نہ تھی۔ وہ شخص بِلّی کی طرف دیکھ کر مسکرایا جیسے وہ مُدتوں سے ایک دوسرے کے واقف ہوں۔ اِس سے بِلّی اور بھی پریشان ہو گیا۔ بغاوت سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی‘ بلکہ وہ اسے ایک بُرا کام تصور کرتا تھا‘ لیکن اس کے ذہن میں یہ خیال تک نہ آیا کہ اُسے افسرانِ بالا تک یہ اطلاع پہنچا دینی چاہیے۔ اصل میں وہ یہ پسند نہ کرتا تھا کہ اس محافظ پر یا کسی اور شخص پر اس کی وجہ سے کوئی مصیبت آئے‘ چنانچہ وہ خاموش رہا‘ لیکن یہ خیال ہر وقت اس کے ذہن کو بے چین کر تا رہا کہ جہاز پر کوئی گڑ بڑ ہونے والی ہے۔ آخر وہ زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور اُس نے واقعے کا کچھ حِصّہ ڈینسکر کو سُنا دیا۔
اس وقت ہوا بند تھی اور جہاز پانی میں ساکت کھڑا تھا۔ وہ لکڑی کی پیٹیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ ڈینسکر نے اس کی بات سُن کر اس طرح سر ہلایا جیسے وہ سب کچھ سمجھ گیا ہو۔
’’میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا نا… پولیس افسر تمہیں جال میں پھانسنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بغاوت کا پولیس افسر سے کیا تعلق ہے۔‘‘ بِلّی نے حیران ہو کرکہا۔
’’تم ابھی بچے ہو… وہ محافظ تو پولیس افسر کے کہنے پر تمہارے پاس آیا تھا۔‘‘
بِلّی کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔ اس نے مزید وضاحت چاہی‘ لیکن بوڑھے کے ہونٹ دوبارہ نہ کھلے‘ تاہم وہ اب بھی معاملے کی تہ تک نہ پہنچ سکا تھا۔اسی روز رات کے کھانے پر اُسے کلیگرٹ دکھائی دیا‘ وہ حسبِ معمول بڑے اخلاق سے ملا اور مُسکرا مُسکرا کر اُس سے باتیں کرتا رہا… اس کے مصنوعی اخلاق نے ایک بار پھر ڈینسکر کی باتوں کو جُھٹلا دیا۔ کلیگرٹ کے طرزِ عمل نے ثابت کر دیا کہ اس کے بارے میں بِلّی کے خدشات درست نہ تھے۔ وہ جہاں کہیں ملتا‘ بڑے اخلاق سے اس کے لیے راستہ چھوڑ دیتا۔ ایک عام فور ٹاپ مین کے لیے جہاز کے پولیس افسر کا راستہ چھوڑ دینا معمولی بات نہ تھی۔ جب بِلّی گزر جاتا‘ تو کلیگرٹ کچھ دیر رُک کر اس کی طرف دیکھتا اور زیرِ لب مُسکراتا۔ انہیں دنوں بِلّی پر ایک اور انکشاف ہوا۔ دو افسر جو اکثر رات کا کھانا پولیس افسر کے ساتھ کھاتے تھے‘ اس کی طرف گُھور گُھور کر دیکھنے لگے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پولیس افسر نے انہیں بِلّی کے بارے میں کوئی اُلٹی سیدھی بات بتا دی ہے۔ اگر بِلّی کی فطرت میں ذرّہ برابربھی بُرائی ہوتی‘ تو شاید وہ فوراً سمجھ جاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘ لیکن وہاں تو سِرے سے بُرائی کا تصّور ہی موجود نہیں تھا۔ یہ باتیں اسے عجیب ضرور لگتی تھیں‘ لیکن اس کا معصوم اور سادہ ذہن معاملے کی تہ تک پہنچنے سے قاصر تھا۔
کیپٹن دِیر نے اپنے کمرے سے باہرنکل کر دیکھا‘ تو سامنے پولیس افسر جان کلیگرٹ کھڑا تھا۔ عام طور پر اس جگہ وہ لوگ کھڑے ہوتے تھے‘ جنہیں کیپٹن سے کوئی کام ہو۔ دِیر نے کلیگرٹ کو چند بار عرشے پر ٹہلتے ضرور دیکھا تھا‘ ورنہ وہ اس سے اچھی طرح واقف نہ تھا۔ جس وقت ’انڈومی ٹیبل‘‘ ساحل سے روانہ ہوا‘ تو پولیس افسر بیمار پڑ گیا‘ چنانچہ اسے ہسپتال بھیج دیا گیا اور کلیگرٹ اس کی جگہ لینے کے لیے آگیا۔ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں‘ کیپٹن دیر فلسفی مزاج اور بہت پڑھا لکھا شخص تھا اور ہر شخص کے بارے میں اس کی اپنی ایک رائے تھے۔ گواس نئے پولیس افسر کے متعلق اُسے زیادہ معلومات نہ تھیں‘ تاہم شکل وشباہت اور عادات واطوار سے وہ اسے پسند نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے قدرے درشتی سے کہا:
’’ہیلو‘ ماسٹرایٹ آرمز… کیا بات ہے… یہاں کیوں کھڑے ہو؟‘‘
کلیگرٹ نے مختصر لفظوں میں اپنی آمد کا مدّعا بیان کیا…
’’انڈومی ٹیبل ‘‘ دشمنوں سے ٹکّر لینے جا رہا ہے‘ لیکن کچھ ملّاح بغاوت کر کے جہاز پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ زیادہ لوگوں کو تونہیں جانتا؛ تاہم ایک شخص کے بارے میں اُسے پورا یقین ہے کہ وہ باغیوں کا سرغنہ ہے۔
یہ جان کر کیپٹن کے ہونٹوں پر تلخی پھیل گئی۔
’’سیدھی طرح کہو‘ کون ہے وہ شخص؟‘‘ اس نے تیزی سے پوچھا۔
’’جناب‘ مجھے کافی دنوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ اندر ہی اندر کوئی چنگاری سُلگ رہی ہے۔ مَیں نے اس بارے میں کھوج لگانا شروع کیا‘ اور جناب سچّی بات یہ ہے کہ مَیں نے پوری کوشش اور دیانتداری سے یہ فر ض انجام دیا‘ کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بے قصور پکڑا جائے‘ اور اب مجھے یقین ہے کہ میں سچائی پر ہوں۔ اگر ہم نے جلد ہی اس بارے میں کوئی قدم نہ اٹھایا‘ تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہاں بھی…‘‘
’’بس‘ بس … اس کا ذکر مت کرو۔‘‘ کیپٹن نے چیخ کر کہا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ کلیگرٹ نورے کی بغاوت کانام لینے والا ہے۔اس بغاوت میں ملّاحوں نے جہاز کے کپتان کو قتل کر دیا تھا۔
’’مَیں پوچھتا ہوں وہ شخص کون ہے؟‘‘
’’کلیگرٹ نے اپنے لبوں پر زبان پھیری اور پھر نہایت عاجزی سے بولا:
’’جناب‘ اس کا نام ولیم بڈ ہے…فورٹاپ مین۔‘‘
’’کیا کہا… ولیم بڈ۔‘ ‘ کیپٹن نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’تمہارا کیا مطلب اس فور ٹاپ مین سے ہے جسے لیفٹنٹ ریڈ کلف تجارتی جہاز سے لایا تھا۔‘‘
’’جی‘ جی ہاں۔‘‘ کلیگرٹ نے تیزی سے جواب دیا۔
کیپٹن دیر کی نظروں میں بِلّی کی صورت گھوم گئی۔وہ خود اس نوجوان سے متاثر تھا اور اس کی مستعدی اورکام میں مہارت دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اسے ترقی دے کر مستول کے گرد کام کرنے والے ملّاحوں کا انچار ج بنا دیا جائے۔ اچانک ا سے محسوس ہوا کہ کلیگرٹ جھوٹ بول رہا ہے۔
’’ماسٹرایٹ آرمز… تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ بِلّی بغاوت کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ خوب اچھاطرح سوچ لو‘ تمہیں معلوم ہے کہ میں جھوٹوں سے بہت بُری طرح پیش آتا ہوں۔‘‘
کلیگرٹ نے جلد جلداپنے الزام کے ثبوت میں دلائل پیش کیے۔اس دوران کیپٹن اس کی گہری نیلی آنکھوں میں جھانکتا رہا۔ جب کلیگرٹ اپنی بات ختم کر چکا‘ تو کیپٹن نے بِلّی کو بُلا بھیجا اور کلیگرٹ کو ساتھ لے کراپنے کمرے میں چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد بِلّی کیپٹن کے کمرے میں داخل ہوا۔ ہمیشہ کی طرح مطمئن اورہشاش بشاش ‘ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید کیپٹن خوش ہو کر اسے کسی اچھے کام پر لگانا چاہتا ہے ۔ کیپٹن دیر نے سب سے پہلے دروازہ بند کیا‘ پھرکلیگرٹ سے مخاطب ہو کر بولا:
’’ بِلّی آگیا ہے‘ تم اس کے منہ پر وہ سب کچھ کہو جو تھوڑی دیر پہلے مجھے بتا رہے تھے۔‘‘
کلیگرٹ اپنی جگہ سے اُٹھا اور بِلّی کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ اس نے بڑی آہستگی سے اُسے سب کچھ بتا دیا۔ شروع میں تو بِلّی بات کو سمجھ بھی نہ سکا‘ لیکن جونہی کلیگرٹ کی گفتگو کے مطالب اس پر واضح ہوئے‘ غُصّے ‘ افسوس اور حیرت کے مِلے جُلے جذبات سے اِس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا اور اس کی موٹی موٹی سیاہ آنکھیں جلتے ہوئے سرخ انگاروں میں تبدیل ہو گئیں۔
’’خاموش کیوں ہو… بولتے کیوں نہیں؟‘‘
کیپٹن نے بلند آواز میں کہا‘لیکن بِلّی کے ہونٹ ساکت تھے ۔ اس کے چہرے پر گہری جذباتی کشمکش کے آثار تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ادھر کیپٹن بھی اس کی مشکل کو سمجھ گیا تھا۔ وہ اس کے قریب پہنچ کر بڑی ملائمت سے بولا:
’’گھبرائو نہیں میرے بچے‘ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ اطمینان سے بات کرو۔‘‘
لیکن یہ الفاظ بِلّی کو سکون بخشنے کے بجائے اس کی تکلیف میں اضافہ کر گئے۔اگلے ہی لمحے بجلی کی سی تیزی سے اُس کا دایاں ہاتھ اپنی جگہ سے ہلااور کلیگرٹ کے ماتھے پر پڑا۔ کلیگرٹ کٹے ہوئے تنے کی طرح فرش پر گر پڑا۔
’’افوہ… یہ تم نے کیا کیا۔‘‘ کیپٹن گھبراہٹ میں بولا۔’’ چلو اٹھائو اسے۔‘‘
وہ دونوں جُھک کر کلیگرٹ کو اٹھانے لگے‘ مگر ا س کا جسم کسی مُردہ جانور کی طرح ڈھیلا پڑ چکا تھا۔ کیپٹن نے فوراً ڈاکٹر کو بُلا بھیجا۔ بوڑھا ڈاکٹر کلیگرٹ کو دیکھتے ہی حیران رہ گیا۔ گاڑھا سیاہ خون اُس کے منہ اور ناک سے نکل آیا تھا اور اس کا لمبا تڑنگا جسم بے حس وحرکت پڑا تھا۔
’’ جناب‘ ماسٹرایٹ آرمز مر چکا ہے۔‘‘ ڈاکٹر آہستگی سے بولا۔ یہ سُنتے ہی کیپٹن کے منہ سے بے اختیار نکلا:
’’یہ قدرت کا انتقام ہے۔ اس شخص نے جھوٹ بولا تھا۔ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ بِلّی بے گناہ ہے‘ مگر اس کو پھانسی دینا ہو گی‘ اس لیے کہ وہ قاتل ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے حیرانی سے کیپٹن کی طرف دیکھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیپٹن کی گفتگو کا مطلب کیا ہے۔ بالآخر وہ اٹھا اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔
کیپٹن دیر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بِلّی نہ صرف جنگی قوانین کی رُو سے مجرم تھا‘ بلکہ نورے اور سپٹ ہیڈ کی بغاوتوں کی روشنی میں بھی اسے سزا دینا ضروری تھا۔ وہ بہر حال ایک معمولی فور ٹاپ مین تھا اور وہ بھی جبری بھرتی کیا ہوا۔ اس نے جہاز کے پولیس افسر کو مار ڈالا تھا۔ اگر اسے چھوڑ دیا جاتا‘ تو دوسرے ملّاحوں کے حوصلے بڑھ جاتے اور ہو سکتا تھا کہ وہ بغاوت پر اتر آئیں۔یہ سوچ کر اس نے بِلّی کے کورٹ مارشل کا حکم دے دیا۔ بِلّی کی قسمت کا فیصلہ تین افراد پر مشتمل ایک ہنگامی عدالت کے سپر د کر دیا گیا۔
بِلّی کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا‘ تو کیپٹن دیر بھی کمرے کے ایک کونے میں چشم دید گواہ کی حیثیت سے بیٹھا تھا۔ بِلّی نے شروع سے لے کر آخر تک ساری رُوداد بلا کم وکاست کہہ سنائی۔ اس کے بعد کیپٹن کی باری آئی۔ اس نے تفصیل سے کلیگر ٹ کی موت کا ذکر کیا۔
بِلّی نے بہت مختصر لفظوں میں کہا:
’’خدا آپ پر رحم کرے… ہمارے درمیان کوئی نفرت موجود نہیں تھی۔مجھے پولیس افسر سے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی ۔ اس کی موت کا مجھے بے حد افسوس ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرا اُسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس نے میرے کیپٹن کے سامنے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا۔ میںاپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔ بس‘ مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔‘‘
’’صرف ایک سوال اور…تم کہتے ہو کہ پولیس افسر سے تمہاری کوئی دشمنی نہیں تھی‘ آخر اسے تمہارے بارے میں یہ سب کچھ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ تمہارے بجائے اس نے کسی اور کو مورد الزام کیوں نہ ٹھہرایا؟‘‘
بِلّی نے اس سوال کا جواب دینے کی بہت کوشش کی‘ لیکن وہ ناکام رہا۔ بالآخر اس نے رحم طلب نگاہوں سے کیپٹن کی طرف دیکھا۔ کیپٹن اپنی جگہ سے اُٹھا اور ججوں سے مخاطب ہوا:
’’جو شخص اِس سوال کا جواب دے سکتا تھا‘ وہ مر چکا ہے۔ آپ لوگوں کو بیکار بحث میں الجھنے کے بجائے اصل مسئلے کی طرف آنا چاہیے۔ ماسٹر ایٹ آرمز مر چکا ہے اور جس شخص کی وجہ سے یہ موت واقع ہوئی‘ وہ آپ کے سامنے موجود ہے۔ ہمیں صرف جنگی قوانین کی رُو سے فیصلہ کرنا ہے کہ بِلّی کو کیا سزا ملنی چاہیے۔‘‘
عدالت کے ایک رکن نے بِلّی سے کہا:
’’تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
جج گہری فکر میں ڈوب گئے۔ شاید ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس مقدمے کا فیصلہ کیونکر کریں۔ آخر کیپٹن دیر نے گفتگو کا آغاز کیا:
’’میرا خیال ہے آپ لوگ فیصلے کے بارے میں متذبذب ہیں۔ قانون کی رُو سے بِلّی مجرم ہے‘ لیکن اخلاق کی نگاہ میں بے قصور۔ ہم برطانوی بحریہ کے ذمّہ دار رکن ہیں اور ہمارا سب سے بڑا فرض برطانوی قانون کی منشا پورا کرنا ہے۔ بِلّی قاتل ہے اور اسے قتل کی سزا ملنی چاہیے‘ لیکن کیا ہم ایک ایسے انسان کو موت کی سزا دے سکتے ہیں جو قدرت کی نگاہ میں معصوم اور بے گناہ ہے اور جس کے بارے میں ہم خود بھی جانتے ہیں کہ وہ بے قصور ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے متفق ہیں…ٹھیک ہے نا… اچھا‘ تو آپ یہ بتائیے کہ یہ کپڑے جو ہم نے پہن رکھے ہیں‘ کیا ہمیں قدرت کے قوانین کو پورا کرنے کی دعوت دیتے ہیں یا بادشاہی قانون کی رکھوالی کرنے کا حکم۔ ہم لڑ رہے ہیں… کیا اپنی مرضی سے یا بادشاہی حکم کی رُو سے… آ پ کے چہروں سے مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ لوگ ابھی بھی متشکک ہیں۔ صحیح کیا ہے اور غلط کیا… اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل کام ہے… کیوں نہ ہم اور اچھے جہاز رانوں کی طرح اس مسئلے کو قانون کے سپرد کردیں۔‘‘
لیکن عدالت کے تینوں جج ابھی تک خاموش تھے۔
اچھا‘ اِس بات کو جانے دیجیے ۔ مسئلے کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھیے۔ جنگ کے دوران میں جبری بھرتی شدہ ایک فور ٹاپ مین ‘ پولیس افسر کے مُنہ پر ایک تھپڑ مارتا ہے‘کیا جنگی قوانین کی رُو سے صرف یہی جُرم قابلِ تعزیز نہیں‘ آپ جانتے ہیں کہ اس پر موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔‘‘
’’لیکن بِلی کا مقصد بغاوت نہیں تھا۔ اس نے یہ تھپڑ غصّے میں آکر مارا تھا۔‘‘ ایک جج نے کہا۔
’’ٹھیک ہے‘ مجھے اس سے انکار نہیں اور اگر یہی مقدمہ خشکی کی کسی عدالت میں پیش ہوتا‘ تو شاید عام ملکی قوانین کے تحت بِلّی کو بے گناہ قرار دیا جاتا‘ لیکن ہم ہنگامی حالت سے گزر رہے ہیں اور ہم پر جنگ کے قوانین عائد ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے بِلّی کو چھوڑ دیا‘تو عملے پر قانون کی گرفت ختم ہو جائے گی۔اس معصوم لڑکے کے لیے میرے دل میں بھی ہمدردی اور محبت کے جذبات ہیں‘لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم خود کتنے مجبور ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر کیپٹن بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد بِلّی بڈ کو مجرم قرار دے کر اگلی صبح پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ سُنا دیا گیا۔
بِلّی ہمیشہ کی طرح مطمئن تھا۔اپنے بارے میں کیپٹن کی اچھی رائے دیکھ کر اسے خوشی ہوئی تھی۔ وہ موت سے خوف زدہ نہیں تھا‘ البتّہ اُسے کیپٹن کی بے چارگی پر ترس آرہا تھا۔ نصف شب کے قریب جہاز پر موجود تمام لوگوں کو عرشے پر بُلایا گیا۔ کیپٹن دیر نے حاضرین کو پورا واقعہ سنایا اور عدالت کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ لوگوں میں اضطراب اور بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ آہستہ آہستہ یہ بے چینی زبان پکڑتی چلی گئی اور ہنگامہ برپا ہونے ہی والا تھا کہ کیپٹن نے سب لوگوں کو اپنے اپنے بستروں میں جانے کا حکم دے دیا۔
بِلّی عرشے پر زنجیروں میں مقید دنیا ومافیہا سے بے خبر سو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر فرشتوں کی سی معصومیت تھی اور ہونٹوں پر ایک نورانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ صبحِ کاذب کے وقت ایک گھنٹی بجی اور جہاز کا سارا عملہ عرشے پر جمع ہو گیا۔ بالائی عرشے پر تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ اس کے باوجود ا تنی خاموشی تھی کہ دلوں کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ بِلّی کو پھانسی کے تختے پر کھڑا کیا گیا‘ تو اس کے مُنہ سے بے اختیار نکلا:
’’خدایا! کیپٹن دیر کو معاف کر دے۔‘‘
یہ آواز بلند ہوتی چلی گئی۔جتنے لوگ عرشے پر موجود تھے‘ وہ سب یہ فقرہ دُہرا رہے تھے۔کیپٹن دیر اپنی جگہ کھڑا اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ عین اس وقت جب بِلّی کا جِسم ایک جھٹکے کے ساتھ نیچے گرا‘ افق سے شاہِ خاور طلوع ہوا اور پگھلے ہوئے سونے کی روشنی میں سارا منظر حسین نظر آنے لگا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ بِلّی کا جسم ایک لمحے کے لیے بھی نہیں تڑپا۔ اس کی موت بھی اتنی ہی پُر سکون تھی جتنی کہ اس کی زندگی۔
بِلّی کی مَوت کے کچھ عرصے بعد کیپٹن دیر ایک معرکے میں زخمی ہو گیا۔ اس سے پیشتر کہ وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی وجہ سے شہرت ِ دوام حاصل کرتا‘ ایک ہسپتال میں خاموشی سے مر گیا۔ کہتے ہیں کہ آخری وقت اس کے ہونٹوں پر بِلّی بڈ کا نام تھا۔ کیپٹن ویر مر گیا… جان کلیگرٹ ختم ہو گیا… لیکن بِلّی بڈ آج بھی زندہ ہے۔ سادہ لوح ملّاحوں کے گیتوں میں اس کا نام اب بھی سنائی دیتا ہے اور سمندری ہوائوں کی سرسراہٹ میں اب بھی اس کی باتوں کی مہک شامل ہے۔

متعلقہ خبریں