تاریخی کہانیوں کے شائقین کے لیے مغل دور کی ایک پراسرار سرگزشت ، گولکنڈے کا ’کنگ میکر‘ موچی

2019 ,ستمبر 27



گولکنڈہ کی سلطنت کے آثار آج بھی حیدرآباد (دکن) سے بارہ میل دور کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں۔ جنوبی ہند کی اس سلطنت پر اورنگ زیب کی فتح ایک انوکھی کہانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب گولکنڈہ کبھی تسخیر نہ کر سکتا اگر ایک موچی اسے فتح کا پروانہ لکھ کر نہ دیتا۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ گولکنڈہ کے حکمران قطب شاہی خاندان کا آخری سلطان عبداللہ علی قطب شاہ اولاد نرینہ سے محروم تھا اس لیے اس نے اپنے داماد سید احمد سلطان کو ولی عہد بنا دیا۔ سلطان کی دوسری لڑکی جب شادی کی عمر کو پہنچی تو اس کا رشتہ ایک مغل شہزادے محمد سلطان کے ساتھ کیا گیا۔ رجب میں شادی ہونی تھی جس کی تیاریاں ایک بڑے جشن کی شکل میں شروع کر دی گئیں۔ جشن دیکھنے کے لیے دور دراز سے بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد پہنچ گئی اور خیموں کا شہر آباد ہو گیا۔ شادی سے کچھ دن پہلے شہزادہ چار منار کے مہمان خانے میں پہنچا۔ رجب کا چاند نظر آتے ہی توپیں داغی گئیں اور رات کو مغل شہزادہ جوڑے کی رسم میں شرکت کے لیے کڑے پہرے میں قلعے کی طرف چلا‘ جہاں اس کا ولی عہد سے بھی تعارف کرایا جانا تھا۔ شہزادے کے جلوس کے ہمراہ آتش بازی ہو رہی تھی‘ بینڈ باجا بج رہا تھا اور جلوس پر پھولوں کی بارش کی جا رہی تھی۔ شہزادہ ایک ہاتھی پر سوار تھا اور اس کے ساتھ وزیر بھی موجود تھا۔
ولی عہد نے قلعے کے دروازے پر اُن کا استقبال کیا۔ وزیراعظم گولکنڈہ شری اکنانے دونوں کا باہمی تعارف کرایا جس کے بعد یہ لوگ دربار میں داخل ہوئے۔ سلطان عبداللہ تخت پر بیٹھے تھے‘ ان کے دائیں بائیں ان دونوں کو نشستیں دی گئیں‘ باقی معززین پیچھے بیٹھے تھے۔ رسمیں ادا ہوئیں‘ پھر سلطان نے ولی عہد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شہزادے سے کہا کہ سید احمد سلطان بہت ہی نجیب الطرفین سید ہیں۔
مغل شہزادے نے آہستگی سے کہا‘ جی ہاں میں انہیں جانتا ہوں‘ ان کے آباءواجداد ہمارے خاندان کے پرانے نمک خواروں میں سے تھے۔
پتہ نہیں‘ شہزادے نے یہ بات کس نیت سے کہی لیکن سلطان یہ سن کر فکرمند ہو گیا‘ چہرے سے ناراضی ٹپکنے لگی۔ سلطان کھانے کے کمرے میں چلا گیا۔ اس دوران ولی عہد کو یہ خبر پہنچ گئی کہ مغل شہزادے نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے۔ وہ کھانے پر نہیں گیا‘ بادشاہ نے پوچھا تو بتایا گیا کہ ولی عہد کی طبیعت ناساز ہے۔
کھانے کے بعد بادشاہ ولی عہد کی خواب گاہ میں پہنچا۔ دوسرے دن ملکہ حالات معلوم کرنے بڑی شہزادی کے محل میں گئی۔ تھوڑی دیر بعد بادشاہ بھی وہاں جا پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ ولی عہد نے ہاتھ میں بندوق اور شہزادی نے خنجر پکڑا ہوا ہے اور دونوں سخت مشتعل ہیں۔ دونوں نے بادشاہ پر واضح کر دیا کہ جس روز محمد سلطان کی بارات آئے گی‘ ہم دونوں کا جنازہ اُٹھے گا‘ بادشاہ نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔
ادھر شادی میں چھ دن رہ گئے تھے‘ ہر طرف جشن منایا جا رہا تھا اور مغل شہزادے کی بارات واپس لوٹانا اور اس طرح مغلوں کی دشمنی مول لینا بھی ناممکن تھا۔ آخر بادشاہ نے فیصلہ سنا دیا کہ ہم قول دے چکے ہیں‘ شادی ہو کر رہے گی۔
اس دوران بادشاہ نے قلعے سے شہر جانے والا راستہ خاص خاص لوگوں کے سوا سب کے لیے بند کر دیا اور ولی عہد‘ شاہی خاندان کے افراد اور ان کے محلوں کے ملازمین کی آمدورفت پر بھی پابندی لگا دی تاکہ ولی عہد کی ناراضی کی اطلاع مغل شہزادے اور اس کے ساتھیوں تک نہ پہنچے۔ ولی عہد کو منانے کی کوششیں بھی جاری تھیں لیکن وہ نہ مانا۔ چوتھی رات ملکہ نے بادشاہ کو بتایا کہ بڑی شہزادی نے چار دن سے کھانا نہیں کھایا۔ یہی حال ولی عہد کا بھی ہے لیکن بادشاہ نے فیصلہ بدلنے سے انکار کر دیا۔ ملکہ نے یہ تجویز بھی دی کہ شادی ملتوی کر دی جائے تاکہ اس دوران ولی عہد کو منایا جا سکے‘ بادشاہ نے یہ تجویز بھی مسترد کر دی۔
شادی میں د و دن باقی تھے کہ ملکہ نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا اور کہا کہ مغل شہزادے کی یہ مجال کہ سید زادے کی شان میں گستاخی کرے‘ اسے کہہ دو وہ آج ہی واپس چلا جائے ورنہ آپ سن لیں کہ نکاح سے پیشتر ولی عہد اور بڑی شہزادی کا ہی نہیں‘ میرا بھی جنازہ اٹھے گا۔ بادشاہ نے ملکہ کو اس سنگین انجام سے خبردار کیا جو شادی سے انکار کی صورت میں متوقع تھا‘ لیکن ملکہ نہیں مانی۔ پریشان بادشاہ ساری رات جاگتا رہا لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کیا جائے۔
آخر صبح کے وقت وہ اپنے مرشد سید شاہ راجو قتال کے در پر حاضر ہوا۔ جب وہ مرشد کے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ راجو قتال کا ایک خادم ابو الحسن پانی لینے کے لیے دروازے سے باہر نکل رہا تھا۔ بادشاہ راجوقتال کے حجرے میں داخل ہوا تو اسے دیکھتے ہی قتال نے نعرہ لگایا ”ایک بادشاہ گیا‘ دوسرا آتا ہے۔“
بادشاہ اس نعرے کو نہ سمجھ سکا۔ اس نے راجو قتال کو مسئلہ بتایا اور دعا کی درخواست کی۔ قتال نے بے نیازی کے عالم میں جواب دیا ”اس میں پریشانی کی کیا بات ہے‘ ابوالحسن کو لے جا اور شہزادی اس سے بیاہ دے“ بادشاہ اس عجیب مشورے پر حیران ہوا‘ پھر بولا کل نمازِفجر کے بعد نکاح لازمی ہونا ہے‘ انکار نہیں کر سکتا۔“ کچھ کیجئے۔ راجوقتال جواب میں ایک بات ہی کہتا رہا ”شہزادی کی شادی ابوالحسن سے ہی ہو گی‘ جامغلوں سے کہہ دے کہ تم کون ہوتے ہو“ اسی دوران خادم ابوالحسن پانی کا مٹکا لے کر آ گیا‘ راجوقتال نے کہا تانا شاہ (ابوالحسن کا عرفی نام) بادشاہ کے ساتھ جا‘ جو یہ کہے وہی کر۔ بادشاہ اب بہت ہی پریشان تھا‘ راجو قتال نے برہم ہو کر کہا جا فوراً شادی کر‘ ورنہ کل تو رہے گا نہ تیرا خاندان۔
سلطان نے ابو الحسن کو ساتھ لیا اور محل سرا میں داخل ہو گیا۔ ابوالحسن تانا شاہ نے اس کے پوچھنے پر بتایا کہ اس کا سلسلہ بہمنی خاندان کے آخری فرمانروا سلطان محمود بہمنی سے ملتا ہے۔ شاہی چھننے کے بعد ان کا خاندان تباہ ہو گیا اور اب وہ کوئی ۰۲ سال سے راجو قتال کی خدمت کر رہا ہے۔
سلطان نے ملکہ اور ولی عہد سے پوچھا کہ کیا چھوٹی شہزادی کا رشتہ ابوالحسن سے کر دیا جائے‘ اس صورت میں ولی عہد ابوالحسن ہو گا۔ ولی عہد نے کہا مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں‘ دوسرے روز شہزادی کا نکاح تاناشاہ سے ہو گیا۔
ادھر شہزادہ سلطان کی بارات مہمان خانے سے قلعہ گولکنڈہ کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔
شہزادے کی بارات موسیٰ ندی کے پل تک پہنچی تھی کہ توپیں چلنے کی آواز آئی۔ بارات ٹھٹک گئی۔ توپیں قلعے سے نکاح کے بعد سلامی کے طور پر چلائی جا رہی تھیں۔ کچھ تعجب اور حیرانی کے عالم میں بارات نے پھر چلنا شروع کیا۔ موسیٰ ندی کے پل پر بارات کے لوگوں کو سامنے سے ایک گھڑسوار قاصد آتا ہوا نظر آیا۔ اس قاصد نے قریب آتے ہی بارات کو اطلاع دی کہ شہزادی کا نکاح ہو چکا ہے‘ باراتی واپس چلے جائیں۔
یہ پیغام سن کر بارات میں سنسنی دوڑ گئی‘ غصے سے مغلوں کے منہ سرخ ہو گئے‘ شہزادہ سلطان نے اپنا سہرا اُتار پھینکا اور کسی کو بتائے بغیر ایک طرف روانہ ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ عروسی لباس ہی میں سیدھا اورنگ آباد پہنچ گیا جہاں اورنگ زیب عالمگیر ان دنوں دکن کا صوبیدار تھا۔ اورنگ زیب یہ واقعہ سن کر آگ بگولا ہو گیا اور اس نے سرداروں کو اکٹھا کرنے کے بعد گولکنڈہ پر حملہ کر دیا۔
یہ جنگ ایک دو دن نہیں‘ کئی مہینے چلتی رہی‘ بے شمار جانی نقصان ہوا لیکن گولکنڈہ کی قطب شاہی فوج حیران کن مزاحمت کر رہی تھی۔ کافی تگ و دو کے باوجود اورنگ زیب ناکام واپس لوٹ آیا۔
اس واقعہ کو ۳۲ سال گزر گئے۔ اس عرصہ میں سلطان عبداللہ قطب شاہ راہی ملک فنا ہوا اور حکومت اس کے ولی ابو الحسن عرف تانا شاہ کے پاس آ گئی۔
تانا شاہ ایک شریف اور بہادر آدمی تھا۔ اس کے حکومت سنبھالنے کے بعد پہلی رات ہی راجو قتال نے اپنے خادم کے ذریعے ایک انار اس کے پاس بھیجا۔ خادم کو حکم تھا کہ یہ انار وہ اپنے سامنے تاناشاہ کو کھلائے۔ خادم اس کے پاس پہنچا تو ابوالحسن بہت خوش ہوا اور پوچھا مرشد نے میرے لیے کیا بھیجا ہے؟ خادم نے انار دکھایا اور کہا کہ یہ تبرک بھیجا ہے اور ساتھ ہی حکم دیا ہے کہ آپ اسے میرے سامنے کھولیں اور اس کے دانے نوش کریں۔
ابوالحسن نے انار کھولا‘ چکھا تو دانے نہایت شیریں تھے‘ ایک ایک کر کے اس نے سات دانے کھائے اور پھر کہا اور نہیں کھایا جا سکتا‘ تو یہ مجھے دے دے‘ باقی صبح کھائوں گا۔
خادم واپس چلا گیا اور راجو قتال کو سارا ماجرا بتایا۔ قتال ناراض ہوا اور خادم کو واپس تانا شاہ کے پاس بھیج دیا‘ یہ حکم دے کر کہ باقی انار بھی ابھی کھائو۔
خادم واپس گیا اور تاناشاہ کو راجو قتال کا پیغام دیا۔ ابوالحسن نے سات دانے اور کھائے اور پھر معذرت کر لی کہ اب ایک دانہ بھی اور نہیں کھایا جا سکتا۔ کل میں اسے ضرور کھا لوں گا۔ خادم نے واپس جا کر یہ بات بھی قتال کو بتا دی۔ راجو افسردہ ہو گیا اور اس کے منہ سے نکلا افسوس‘ ابوالحسن تو صرف چودہ سال حکومت کرے گا‘ سات برس بعد راجو قتال کا انتقال ہو گیا۔
اسی سال اورنگ زیب نے تسخیر دکن کی ادھوری مہم پھر شروع کی لیکن پہلا حملہ ناکام ہو گیا‘ اس کے بعد جتنی بھی کوششیں کی گئیں‘ سب ناکام رہیں‘ یہ امر بڑا پراسرار تھا کہ مغلوں کی اتنی عظیم الشان سپاہ مگر گولکنڈہ کی فتح کے کوئی آثار نہیں۔
اسی چکر میں سات برس مزید گزر گئے۔ ابو الحسن کی حکومت کو ۳۱ سال اور ۵ ماہ گزر چکے تھے‘ اورنگ زیب نے ایک اوربڑا حملہ کیا اور اس بار ایک سے بڑھ کر ایک جنگی ہتھکنڈہ آزمایا لیکن فتح کی کوئی علامت نمودار نہیں ہوئی۔ تاناشاہ کی حکومت کے چودہ سال مکمل ہونے میں ابھی دس دن باقی تھے کہ زبردست آندھی نے مغل فوج کے خیمے اُکھاڑ دیے۔ کافی دیر کے بعد جب طوفان تھما تو اورنگ زیب آندھی سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے نکلا۔ اسے ایک کنارے پر دیا جلتا ہوا نظر آیا۔ اورنگ زیب متعجب ہو کر اس طرف چلا‘ دیکھا کہ دو مغل سپاہی عبادت میں مصروف ہیں۔ وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اورنگ زیب نے ان سے بے ساختہ پوچھا کہ آپ بزرگ ہستیاں ہیں‘ فتح کی دعا کیوں نہیں کرتے؟
سپاہیوں نے کچھ تامل کے بعد بتایا کہ جب تک وہ قطب نہ مانے جس کے ذمے گولکنڈے کی حفاظت ہے‘ فتح ممکن نہیں۔ اورنگ زیب پہلے تو حیران رہ گیا‘ پھر اس نے اصرار کیا کہ اس قطب تک رسائی ہونی چاہیے۔
سپاہیوں نے ایک پرچہ لکھ کر اورنگ زیب کو دیا اور اشارہ بتایا کہ لنگر حوض میں ایک موچی آپ کو ملے گا‘ اسے یہ پرچہ دے دیجئے اور جواب ہمیں بتائیے۔ دوسرے دن بادشاہ موچی کے پاس جا پہنچا اور سلام کے بعد پرچہ اس کے حوالے کیا۔ اس وقت موچی جوتے سی رہا تھا۔ پرچہ دیکھ کر پہلے تو ناراض ہوا پھر کوئلے سے اس پر لکیریں ڈال کر واپس کر دیا۔ اورنگ زیب پرچہ واپس لے کر سپاہیوں کے سامنے پہنچا اور پرچہ ان کے حوالے کر دیا۔ وہ پرچہ دیکھ کر مایوس ہوئے اور کہا کہ موچی کا ماننا مشکل ہے‘ ایک بار پھر جائیں شاید مان جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے پرچے پر اپنی اشاروں کی زبان میں ایک اور تحریر لکھ دی۔ اورنگ زیب اگلے دن پھر موچی کے پاس جا پہنچا۔ موچی کچھ دیر تک رقعے کو گھورتا رہا پھر ’نگرانی ختم‘ کہہ کر جوتے اٹھائے اور ایک طرف نکل گیا۔
اس واقعہ کے تیسرے دن قلعہ فتح ہو گیا۔ اورنگ زیب نے دونوں سپاہیوں کی تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ جس روز موچی غائب ہوا تھا‘ اسی رات دونوں سپاہیوں کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔
یہ واقعہ پڑھ کر ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر تانا شاہ کی حکومت ۴۱ سال انار کے ۴۱ دانوں سے مشروط تھی تو پھر اگر ’موچی‘ اپنی نگرانی نہ ختم کرتا تب بھی کیا گولکنڈے کو فتح نہیں ہو جانا چاہیے تھا؟ دوسرے لفظوں میں اگر موچی نگرانی ختم کرنے سے انکار کر دیتا تو کیا تانا شاہ مزید حکومت کرتا رہتا‘ حالانکہ اس نے صرف ۴۱ دانے کھائے تھے۔ اس کی ایک تشریح یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ موچی کے انکار کے بعد تاناشاہ کی حکومت تو ختم ہو جاتی لیکن اس کے خاندان کی حکومت بدستور رہتی بہرحال یہ بھی ان بہت سے واقعات میں سے ایک ہے جو تاریخ کی کتابوں میں موجود تو ہیں لیکن ان کی روایت کے سو فیصد درست ہونے کے شواہد نہیں ملتے۔

متعلقہ خبریں