ارشد چائے والا آتے ہی چھا گیا مگر ان ہیروز کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ جانیے اس رپورٹ میں
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اکتوبر 20, 2016 | 17:28 شام

لاہور(شیر سلطان ملک) ویسے تو پاکستان میں ہر شعبہ میں لکیر کا فقیر بن کر چلنے کا ٹرینڈ عام ہے مگر اس قوم کا ایک المیہ یہ ہے کہ بغیر سوچے سمجھے ایک ہی جانب اندھا دھند بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ۔ نہ ملکی مفاد کو مد نظر رکھا جاتا ہے نہ قومی وقار کو اور نہ ہی سماجی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے ۔ بس جو سامنے آجائے اور نظروں کو بھا جائے اسی کے نام کا شور مچ جاتا ہے اور اسے راتوں رات ہیرو بنا دیا جاتا ہے ۔ چاہے اسے درست طری
کچھ ایسا ہی ان دنوں پاکستان میں ہو رہا ہے ۔
یہاں ایک 18 یا 20 سال کا ایک نوجوان اسلام آباد میں چائے کا کھوکھا چلاتا تھا اسکی صرف دو خوبیاں ہیں نمبر ایک اسکی آنکھیں نیلی ہیں اور دوسری یہ کہ اس کا رنگ گورا ہے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ بازار کو شرف رونق بخشتی ایک لڑکی یا خاتون کی نظر اس نوجوان بنام ارشد خان چائے والا پر پڑ گئی ۔ تو یہ نوجوان اس خاتون کے دل کو ایسا بھایا کہ فورا موبائل سے اسکی تصویر اور ویڈیو بنا ڈالی اور اپنے گھر پہنچتے ہی فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اپ لوڈ کر دی ۔
پھر کیا تھا ایک شور مچ گیا ۔
چائے والا ، ارشد خان چائے والا، ہاٹ چائے والا، ہاٹ کیک چائے والا ،
یوں اس نیلی آنکھوں والے نوجوان نے راتوں رات شہرت کی منزل پالی اور عنقریب اس ہیرے کو تراش خراش کر ماڈلنگ اور ٹی وی اشتہارات کی بدولت دولت کی دیوی سے بھی متعارف کروا دیا جائے گا۔ پھر دوسری دیویاں خود ہی در پر حاضری دینا شروع کر دیں گی۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا کہ یونانی شہزادوں جیسی شکل صورت رکھنے والا مگر چھٹی یا آٹھویں جماعت میں فیل نوجوان صرف اپنی ظاہری صورت کی بدولت ڈاکٹری کر سکتا ہے۔؟
کیا صرف نیلی آنکھوں اور گوری چمڑی کی بدولت کوئی نوجوان راہ چلتے کسی کو نظر آجائے تو کیا اسے کسی تھانہ کا ایس ایچ او مقرر کیا جاسکتا ہے۔؟
اور صرف اچھی اور خواتین کو بھانے والی شکل و صورت کی وجہ سے کوئی نوجوان اپنا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج کروا سکتا ہے۔؟
اگر ان تینوں سوالوں کا جواب ناں میں ہے تو ہمارے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کو بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا کہ ایک مڈل فیل 18 سالہ دبلے پتلے نوجوان کو اسکی نیلی آنکھوں اور گوری رنگت کی وجہ سے راتوں رات ہیرو بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ صرف شکل و صورت اور تعلقات کی فلمیں چلا کر ہماری فلم انڈسٹری اور سٹیج و ٹی وی ڈرامہ کو پہلے ہی تباہ کیا جا چکا ہے۔
دکھ اس بات کا نہیں کہ ایک چائے والے کو بغیر کچھ کیے دولت اور شہرت مل رہی ہے بلکہ غم تو اس بات کا ہے کہ ہمارا میڈیا ایسے لوگوں اور ہیروز کو پروموٹ نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں ٹرینڈ بناتا ہے جو اپنے اپنے شعبوں میں مسلسل کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں اور حقیقتاً مردوں والے کام کررہے ہیں۔ اسکی بجائے الٹا انکے کردار کو متنازعہ بنا کر انکی کامیابیوں کو ناکامی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اچھے کام کو درست راستہ پر چل کر انجام دینے کی روش کم ہوتی جا رہی ہے اور ہر معاملہ میں شارٹ کٹ اختیار کرنا ہمارا معمول بنتا جا رہا ہے۔
ذیل میں پاکستان کے دو مختلف شعبوں کے ایسے نوجوانوں کا ذکر کیا جارہا ہے جنہیں اگر ہمارا کوریج دیتا اور انکی کامیابیوں کا ذکر عام کرتا تو ایک چائے والے کی بجائے ایسے لوگ ہمارے ہیرو اور ہمارے میڈیا کا ٹرینڈ ہوتے اور جن کو فالو کرکے ہماری نوجوان نسل میں ارض وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کی امنگ اور شوق پیدا ہوتا ۔
سرفراز خان ورک: محکمہ پولیس کے ایک نوجوان افسر جو ان دنوں شیخوپورہ میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ اس سے قبل ضلع میانوالی میں تعینات رہے ۔ سرفرازورک عملی طور پر چوروں ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر اشتہاریوں خاص طور پر سود خوروں اور منشیات فروشوں کے لیے دہشت کی علامت ہیں۔ انکی کسی بھی ضلع میں تعیناتی کا نتیجہ دو صورتوں میں نکلتا ہے، ایک تو اس علاقہ اور ضلع میں پولیس کلچر تبدیل ہو جاتا ہے اور دوسرا جرائم پیشہ عناصر جائے پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔ اگر کسی کو اس بات پر شک ہو تو وہ ضلع میانوالی کے کسی بھی شہری کو فون کرکے پوچھ لے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میانوالی کے غریب لوگ آج بھی سرفراز کان ورک کو ایک ہیرو اور نجات دہندہ کے طور پر یاد کرتے ہیں ۔ اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر انہیں دعائیں دیتے ہیں ۔سرفرازخان ورک کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ رشوت خور پولیس افسر انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے اور میانوالی کے ایک تفتیشی کو جب انہوں نے رنگے ہاتھوں رشوت لیتے ہوئے گرفتار کر لیا تو اسی تھانہ میں اس تفتیشی افسر کے ساتھ وہ سلوک ہوا تھا کہ پورے ضلع میں محکمہ پولیس کی کالی بھیڑوں نے فورا اپنا رنگ اور انداز و اطوار بدل لیے تھے۔
عرفان محسود :پاکستان کے قابل فخر سپوت عرفان محسود ایک جانب ایم فل کے طالبعلم ہیں تو اپنے گھر سے دور ایک دوسرے شہر میں رہائش پذیر ہیں لیکن حال ہی میں انہوں نے ایک منٹ میں ایک ٹانگ سے سب سے زیادہ کِک لگانے کا عالمی اعزاز اپنے نام کرلیا۔محمد عرفان محسود نے احمد امین بودلہ کا وہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جس میں انہوں نے ایک ٹانگ سے ایک منٹ میں لگاتار فل کانٹیکٹ ککس لگائی ہیں۔گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے عرفان محسود کے اس ریکارڈ کی تصدیق کی ہے۔26 سالہ عرفان کا تعلق وزیرستان کی تحصیل لدھا سے ہے اور انہوں نے ایک منٹ میں 87 ککس لگائیں جبکہ اس سے قبل پاکستان کے ہی احمد امین بودلہ نے اس دوران 79 ککس لگائی تھیں جو اس وقت کا ورلڈ ریکارڈ تھا۔محسود نے کہا کہ مجھے بچپن سے ہی مارشل آرٹ کا جنون تھا اور 2005 میں میٹرک کے بعد میں نے باقاعدہ تربیت شروع کردی تھی جب کہ ماہِ رمضان میں بھی روزے کی حالت میں ہونے کے باوجود اپنی ٹریننگ اور ورزش نہیں چھوڑی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان اور وزیرستان کے لوگوں کا مثبت اور بہتر تصویر دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں، ہم دہشتگرد نہیں بلکہ ہم تعلیم اور کھیل دونوں میں مہارت رکھتے ہیں۔
اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ہمارے ہیرو اور ہمارے میڈیا کا ٹرینڈ کس طرح کے لوگ ہونے چاہیں ۔ ارشد خان چائے والا جیسے جو مستقبل میں چائے صابن اور موبائل کمپنیوں کے اشتہاروں میں کام کرنے جارہے ہیں ۔ یا سرفراز خان ورک اور عرفان محسود جیسے جن کی بدولت نہ صرف معاشرہ کے ناسور پر قابو پایا جا رہا ہے بلکہ صحت مندانہ سرگرمیوں کے ذریعے ملک و قوم کا نام بھی روشن کیا جارہا ہے۔