میں نے پاکستان بنتے دیکھا

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ بشیر احمد وثیر): میرا تعلق پسرور ضلع سیالکوٹ سے ہے۔ میں پرائمری سکول میں دوسری یا تیسری جماعت کا طالب علم تھا جب میں نے اپنے بڑوں کو قائداعظم اور پاکستان کی باتیں کرتے سنا۔ شہر میں آئے دن مسلم لیگ جماعت کے جلسے منعقد ہوتے اور جلوس بھی نکالے جاتے۔ ہندوﺅں اور سکھوں کی بھی کافی آبادی تھی لیکن شہر میں کسی قسم کا کوئی تناﺅ نہیں تھا۔ ہر قسم کا کاروبار ہندوﺅں اور سکھوں کے ہاتھ میں تھا۔ اُس وقت شاید ہی کوئی مسلمان بازار میں کاروبار کر رہا ہوگا۔
مسلم لیگ کے علاوہ مجلسِ احرار بھی سیاسی لحاظ سے میدان میں تھی لیکن مسلم لیگ کے مقابلہ میں مجلس احرار کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ شہر میں مجلس احرار کی نمائندگی شاہی جامع مسجد اہل سنت و الجماعت کے خطیب مرحوم و مغفور جناب مولانا بشیر احمد تھے۔ اُنہوں نے مسجد کے ساتھ ایک دینی تعلیم کا اقامتی مدرسہ بھی چلا رکھا تھا جس میں دور دراز علاقوں سے طالب علم دینی تعلیم کے حصول کے سلسلہ میں آتے تھے۔ مرحوم و مغفور مولانا احمد علی لاہوری کی وفات کے بعد آپ اُن کے خلیفہ مقرر ہوئے۔ کبھی کبھار مجلس احرار کی طرف سے مولانا مرحوم اپنے تعلیمی ادارے کے طالب علموں کے ذریعے جلوس بھی نکالتے جس میں شہر کے بچوں کو بھی شامل کرتے اور ہر شامل ہونے والے بچے کی ریوڑیوں، ملوکوں، مونگ پھلی، ٹافیوں اور دیگر کھانے والی چیزوں سے خاطر تواضع کرتے لیکن اس خاطر تواضع کا بچوں پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا تھا۔ بچے نعرے پھر بھی مسلم لیگ کے ہی لگاتے۔شہر کے ہر محلہ میں بچے اپنے طور پر بھی جلوس نکالتے اور مسلم لیگ کے حق میں نعرے لگاتے۔ بن کے رہے گا پاکستان، لے کے رہیں گے پاکستان، پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ اللہ۔ اس کے علاوہ بچے کاغذ خرید کر رنگین پنسلوں سے پاکستان کے تخیلاتی جھنڈے اور تخیلاتی نقشے بھی بناتے اور کامن پنوں کے ساتھ اپنی قمیصوں کی جیبوں پر لگا لیتے اور اپنے گلی محلوں میں نعرے لگاتے پھرتے۔
اپریل 1947 میں میں پرائمری جماعت پاس کرکے قصبہ کے گورنمنٹ ہائی سکول میں پانچویں جماعت میں داخل ہو چکا تھا۔ صاف ظاہر ہے اب سارے شہر کے بچے وہاں اکھٹے ہوتے تھے اور آپس میں پاکستان کی بھی باتیں کرتے تھے۔ اب صرف باتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ اب پاکستان بننے کی باتیں ہوتیں۔ ہندو اور سکھ طالب علموں سے اس سلسلہ میں اس قسم کی باتیں بھی ہوتیں کہ پاکستان بن جانے کے بعد ہندو اور سکھ، ہندوستان چلے جائیں گے۔ یہ باتیں سن کر ہمارے ہندو اور سکھ ساتھی کچھ کچھ اُداس ہو جاتے۔ وہ محسوس کرتے کہ شاید انہیں اپنا شہر چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑے گا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اسکول میں بڑی جماعتوں کے طالب علم اس قسم کی باتیں کرتے کہ ہندو ہندوستان چلے جائیں گے اور ہم ان لوگوں کی دوکانیں اور گھر وغیرہ لوٹ لیںگے۔ یہ واقعی بڑی خطرناک خبر تھی۔ انہیں دنوں یہ بھی اعلان ہو چکا تھا کہ 14 اگست کو پاکستان کے معرض وجود میں آ جانے کا اعلان ہوگا۔ سکول میں موسم گرما کی چھٹیوں کا اعلان ہوگیا۔ان دنوں نہ تو شہر میں بجلی تھی اور نہ ہی ریڈیو وغیرہ ہوتا تھا۔ پاکستان بننے کا اعلان ریڈیو پر ہی کیا جانا تھا۔ خوش قسمتی دیکھئے کہ پاکستان کا اعلان ماہِ رمضان کے با برکت مہینے میں طے پایا تھا۔ شہر میں اگر کہیں ریڈیو کا انتظام تھا تو وہ بانکامل نامی ہندو کے کارخانے میںتھا۔ شہر کے لوگ خبریں سننے کے لئے بانکامل کے کارخانے پہنچ جاتے اور خبریں سنتے۔ جنگ عظیم اول اور دوم کی خبریں سننے کے لئے بھی لوگ بانکامل کے کارخانے پر ہی جاتے تھے جہاں بانکامل ریڈیو کو ایک اونچی جگہ پر رکھ دیتا اور لوگ خبریں سن کر واپس اپنے اپنے گھروں میں پہنچ جاتے۔ 14 اگست کی شب بھی لوگوں نے پاکستان بننے کی خبر بانکامل کے کارخانے میں ہی سنی تھی اور خوشی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے اور بھنگڑا ڈالتے رہے۔ چھوٹے بچوں نے یہ خبر اپنے والدین سے اپنے گھروں میں ہی سنی۔
ہمارے شہر میں پاکستان بن جانے کے بعد کسی قسم کا منفی ہنگامہ نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان بن جانے کے بعد ہندوستان کے اکثر شہروں میں بلوے شروع ہوگئے۔ ملک کی تقسیم میں یہ بات کہیں طے نہیں ہوئی تھی کہ ملکی تقسیم کے ساتھ ہی انتقال آبادی بھی ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے ہندوستان میں کچھ شرارت پسند عناصر نے ہندوستان کے مختلف شہروں مثلاً امرتسر، جالندھر، گورداسپور اور پٹھانکوٹ میں ہندﺅں نے مسلمانوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا جس کا لامحالہ اثر پاکستان میں بھی ہوا۔ کچھ مسلمان امرتسر سے لٹے پٹے لاہور پہنچے تو یہاں بھی ہندو سکھ اور مسلمان فسادات شروع ہوگئے۔ تارا سنگھ اور پٹیل جیسے لوگوں نے امرتسر، جالندھر اور انبالہ وغیرہ شہروں میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جس کا اثر یہاں پاکستان میں بھی ہوا اور پھر نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی انتقال آبادی ہوئی بلکہ اس دوران انتہا کی خونریزی بھی ہوئی۔ پسرور کی آبادی بڑی پر امن تھی لیکن امرتسر سے کچھ عناصر پسرور پہنچے تو یہاں بھی امن و امان تہ و بالا ہو گیا۔ ہمارے محلہ میں ہمارے ایک معزز بزرگ شیخ عطا محمد رہتے تھے۔ چونکہ یہاں بھی حالات خراب ہونے کا اندیشہ تھا اس لیے ایک سردار صاحب ان کے پاس آئے اور ان سے اپنی گائے کا سودا کیا جو شاید چالیس یا پچاس روپے تھا۔ سردار صاحب اپنی گائے لے کے آگئے اور شیخ میاں عطا مرحوم صاحب سے پچاس روپے وصول کرکے گائے کو ان کے کھونٹے پر باندھ کر واپس اپنے گھر روانہ ہوگئے لیکن وہ ابھی گلی کا موڑ ہی مڑے تھے کہ کسی نے اسے چھرا گھونپا اور اس سے رقم چھین کر فرار ہوگیا۔ جو نہی اسے چھرا گھونپا گیا وہ میاں صاحب بچائیں، میاں صاحب بچائیں پکارتا ہوا واپس لوٹا، اسے چھرے کا ایسا گھاﺅ لگ چکا تھا کہ ہمارے محلہ کی مسجد کے دروازے کے بالکل سامنے گرا اور دم توڑ گیا۔ اس کی لاش کافی دیر تک وہاں پڑی رہی۔ میں یہ واقعہ آج تک نہیں بھولا۔
اس واردات کے بعد ہمارے شہر پسرور سے غیر مسلم آبادی نے شہر چھوڑنا شروع کردیا اور پھر ایسا غدر مچا کہ الحفیظ والاماں۔ قتل و غارت گری کا بازار تو گرم نہ ہوا لیکن ہندوﺅں اور سکھوں کی دکانوں کو بھی لوٹ لیا گیا۔ بازار کی یہ حالت ہوگئی کہ صبح کے وقت بھی بازار میں گزرتے وقت ایک ہول سا محسوس ہوتا۔ یہی صورت حال ہندوﺅں کے مکانات کی تھی۔ قتل و غارت سے محفوظ رکھنے کے لئے تمام سکھ اور ہندو آبادی کو گورنمنٹ ہائی سکول پسرور میں پناہ دے دی گئی اور ان کی حفاظت کے لئے سکو ل میں فوج کو بھی تعینات کردیا گیا۔ پسرور شہر کے اردگرد کے دیہات میں سکھوں کی آبادی بھی تھی۔ پاکستانی حکام نے ان تمام آبادیوں سے ہندوﺅں اور سکھوں کو خالصہ ہائی سکول کلاسوالا میں ان کو بحفاظت منتقل کردیا اور پھر اسی طرح فوج ہی کی نگرانی میں ان کو ہندوستان پہنچا دیا گیا تاکہ کوئی خونریزی نہ ہو۔