2017 ,اگست 11
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/شاہد رشید): مسلمانان برصغیر نے قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت اور لازوال قربانیوں کے بعد14اگست 1947ءکو دوقومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کر لیا۔ ”پاکستان کا مطلب کیا.... لا الٰہ الا اللہ“ تحریک پاکستان کا مقبول ترین نعرہ تھا۔ اسلامیان ہند ایک ایسے خطہ¿ زمین کیلئے جدوجہد کر رہے تھے جہاں وہ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد کے ایسے متعدد بیانات موجود ہیں جن میں بڑی صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے کہ پاکستان میں نظامِ حکومت صرف اور صرف دینِ اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائے گا۔ قائداعظمؒ نے 13جنوری 1948ءکو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“ بدقسمتی سے آج بعض عناصر قائداعظمؒ کی 11اگست 1947ءوالی تقریر کو بنیاد بنا کر یہ منفی پراپیگنڈہ کررہے ہیں کہ قائداعظمؒ ایک سیکولر ریاست کے خواہاں تھے۔ ذیل کی سطور میں ہم اس تاریخی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں کہ قائداعظمؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے ۔
11اگست‘ 1947ءکے تاریخی خطاب کے دوران بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس مملکتِ خداداد میں اقلیتوں کے تحفظ اور جمہوریت کے حوالے سے انتہائی وقیع گفتگو فرمائی تھی۔ آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا: ”پاکستان میں آپکو اپنے مندروں‘ مسجدوں اور پرستش گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے مقلد ہوں یا آپکی ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو‘ اس سے پاکستان کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری ریاست کسی تمیز کے بغیر قائم ہو رہی ہے۔ ایک فرقے یا دوسرے فرقے میں کوئی تمیز نہیں ہوگی۔ نہ ذات اور عقیدوں کی تمیز ہی ہو گی۔ ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں۔
اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر کچھ عرصہ بعد آپ دیکھیں گے کہ ہندو‘ ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان ‘مسلمان نہیں رہے گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب مٹ جائینگے کیونکہ مذہب کو ماننا ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے۔ میرا مطلب سیاسی تمیز سے ہے۔ وہ سب ایک قوم ہو جائینگے۔“ اس خطاب میں آپ نے ایک اسلامی ریاست کے بنیادی فریضے یعنی مذہبی آزادی کا اعلان فرمایا تھا جو قرآنی احکامات کے عین مطابق ہے۔ قائداعظمؒ کا یہ خطاب انکی جمہوریت پسندی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے انکے زرّیں خیالات کا عکاس ہے۔ اگر بعض عناصر اس خطاب سے یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مصر ہوں کہ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو ایسے عناصر کی عقل پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
قائداعظمؒ کی 11اگست کی تقریر کا صحیح مفہوم سمجھنے کیلئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے جب مجلس آئین ساز سے خطاب کیا تھا تو ملک کے حالات کیا تھے ۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی ہندوستان میں ہندوﺅں اور سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا۔ اس سے وہاں کے مسلمانوں کے دل میں خوف و دہشت ایسے جذبات ابھرے کہ انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ پاکستان میں آکر پناہ لیں۔ لیکن ان وحشی درندوں نے ان نہتے قافلوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ راستہ بھر قتل و غارت گری کی وارداتیں ہوتی رہیں۔ مسلمانوں کی نوجوان لڑکیوں کو ہزاروں کی تعداد میں چھین جھپٹ کر لے گئے جبکہ معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا۔ مہاجرین کو لیکر جو گاڑیاں یہاں پہنچتیں ان میں سے زندہ انسانوں کی بجائے لاشوں کے ٹکڑے برآمد ہوتے۔ ہندوﺅں اور سکھوں کے ان انسانیت سوز مظالم کا ردّعمل کہیں کہیں پاکستان میں بھی دیکھنے میں آیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہاں موجود پاکستان کے کچھ بدخواہ عناصر نے بھی موقع غنیمت جان کر غیر مسلم اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ آپ سوچئے کہ ایک ایسی مملکت جس کی عمر ابھی ایک دن بھی نہ ہوئی ہو اس قسم کے لرزہ خیزحالات سے دوچار ہو۔ پھر اس کی کیفیت یہ ہو کہ اسکے پاس نہ اپنی فوج ہو ، نہ اسلحہ، نہ سامان اور نہ پیسہ۔تو اسکے سربراہ کے دل پر اس سے کیا نہ گزرتی ہو گی؟۔ بھارت کے اخبارات یہاں کی غیر مسلم اقلیتوں کیخلاف مظالم کی فرضی داستانیں بیان کر کے وہاں کے مسلمانوں کیخلاف انتقام کی آگ کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے تھے اس لیے نہایت ضروری تھا کہ یہاں غیر مسلم اقلیتوں کو پورا یقین دلایا جائے کہ وہ یہاں ہر طرح سے محفوظ رہیں گی اور مذہب کی بنا پر ان سے کوئی ناروا سلوک نہیں کیا جائےگا۔ یہ تھے وہ حالات جن میں قائداعظمؒ کو یہ تقریر کرنا پڑی۔ قائداعظمؒ نے بذاتِ خود اس تقریر میں انہیں تسلی دی کہ مملکت کی نظر میں سیاسی لحاظ سے وہ پاکستان میں برابر کے شہری ہونگے۔ 11اگست ‘1947ءکی تقریر سے قبل بھی متعدد مواقع پر قائداعظمؒ کئی بار اقلیتوں کو یہ یقین دہانی کروا چکے تھے کہ نئی قائم ہونیوالی مملکت میں ان کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جائیگا۔ 13جولائی‘ 1947ءکو بھی قائداعظمؒ نے اقلیتوں کو یقین دلایا کہ ”اس نئی مملکت میں انہےں اپنے مذہب‘ عقےدے‘ زندگی اور تمدن کا تحفظ حاصل ہوگا۔ وہ پاکستان کے مکمل شہری ہوں گے اور سلسلے میں کسی سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائےگا“۔اگر قائداعظمؒ کی یہ تقریر زندگی کی آخری تقریر ہوتی تو ہم پراپیگنڈہ کرنیوالوں کو شاید درست سمجھ لیتے لیکن انہوں نے اسکے بعد متعدد تقاریر کیں جن میں واضح پیغام دیا۔25جنوری1948ءکو کراچی بار ایسوسی ایشن سے اپنے خطاب میں فرمایا: ”میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جودیدہ ودانستہ اور شرارت سے یہ پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائیگا۔
اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح قابلِ اطلاق ہےں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہو چکے ہیں‘ یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کوئی خوف‘ ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اسکے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے ہر شخص سے انصاف‘ رواداری اور مساوی برتاﺅ اسلام کا بنیادی اصول ہے پھر کسی کو ایسی جمہوریت‘ مساوات اور آزادی سے خوف کیوں لاحق ہو جو انصاف‘ رواداری اور مساوی برتاﺅ کے بلند ترین معیار پر قائم کی گئی ہو“۔ بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کی تقاریر و بیانات سے یہ امر روزِ روشن کی مانند واضح ہو جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظریہ¿ حیات کے اصولوں پر مبنی ریاستی اور سماجی ڈھانچے کی تشکیل کے خواہش مند تھے اور مسلمانانِ برصغیر کیلئے محض ایک آزاد مملکت کا قیام ہی ان کا مقصود نہ تھا بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمان وہاں آزادی کے ساتھ اپنے ضابطہ¿ حیات‘ اپنی تمدّنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ بابائے قوم نے اغیار کی پھیلائی ہوئی بدگمانیوں کو دور کرنے کیلئے بارہا اپنی تقاریر میں واضح کیا کہ پاکستان میں اسلام پر نظامِ حکومت کے سوا کسی دوسرے نظریے یا اِزم کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔