میں نے پاکستان بنتے دیکھا۔۔۔۔ حکیم سلطان احمد دائودی

2017 ,اگست 28



پاکستان کیا ہے اور قربانی کیا ہے یہ وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے ساتھ محبت کی جنگ لڑی ہو، ہر انسان کی عملی زندگی میں باپ جہاں اولاد کی پرورش کرتا ہے وہیں وہ استاد بھی ہیں اور مرشد بھی، روحانیت میں لپٹے اس رشتہ کی محرومی کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب کوئی اس رشتہ سے محروم ہو جائے، میرا سن پیدائش 1950ء ہے میں نے آزادی کی تحریک اپنی شعوری بیداری کی حالت میں نہیں دیکھی، پاکستان کے لفظ سے میرے کان مانوس ضرور تھے تاہم میں نے طلوع پاکستان اور تعمیر پاکستان کے حالات و واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے، سنے، اور پڑھے ہیں میں اکثر اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ مملکت خدا داد پاکستان میں کسی بھی حکومت نے گوارا نہیں کیا کہ عملی طور پر ہجرت پاکستان کے مناظر کی عکس بندی کی جائے، بھارت سے پاکستان آنے کا منظر نامہ ہے، پھٹے ہوئے پیراہن ، چار پائیاں، چولہے، بیل والے بڑے گڈ، قافلے، اوڑھنیاں ، ٹوٹے جوتے، اور ہزار ہا وہ لاشے جو ہجرت کے رشتہ میں خونی گزر گاہ بنے، آج آزاد فضائوں میں سانس لینے والی نسل کو ان راہوں کی سنگینی کا علم نہیں، میرے والد صحیح معنوں میں ایک سماجی درویش تھے جنہوں نے آزادی وطن اور تعمیر وطن کے محاذ پر زندگی لگا دی میں جب انکی زندگی کی یادوں میں گھم ہوتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ بچپن، نو عمری، سے جوانی اور بڑھاپے تک ان کی لگن ایک طاقتور پاکستان رہی، انہوں نے جب سن 1983ء کے دوران ہونے والی مردم شماری میں ایک موثر تحریک چلائی کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان اپنا اندراج کروائیں تاکہ الیکشن میں ہونے والی ووٹنگ کے دوران مسلمانوں کی عددی حیثیت بڑھے تو انہیں ہندوئوں کی مذاہمت پر اٹھارہ ماہ کیلئے پابند سلاسل ہونا پڑا۔ میری والدہ جولائی1947ء فیصل آباد آ گئیں جب کہ والد فساد زدہ علاقے میں چھپے رہے اور 21اگست کو انتہائی پریشان کن حالات کا مقابلہ کرکے پاکستان پہنچے۔وہ اکثر یہ کہتے تھے کہ میں نے والد والدہ کی قبر پر فاتحہ پڑھنی ہے، اس تڑپ میں 1968ء کے دوران امرتسر گئے اور ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر آئے، انکی یہ خواہش زندگی بھر دوبارہ پوری نہ ہو سکی۔ ممتاز روحانی بزرگ باباجی سرکار، صوفی برکت علی ؒ کے ساتھ میرے والد کا تعلق 1968ء میں دارالاحسان سانگلہ ہل میں قائم ہوا جو مرتے دم تک رہا، انکے انتقال پر انکی میت انکے پوتے اور نواسوں نے اٹھا کر قبرستان تک پہنچائی، بابا جی نے اپنے مرکز کو چلانے کیلئے جو کمیٹی بنائی اس میں میرے والد بھی شامل تھے، بابا جی کے ساتھ محبت کے تعلق نے میرے والد کو یہ موقع فراہم کیا کہ انہوں نے گگڑوں کو جنہیں سانسی (gyepsy)کہا جاتا ہے انہیں مسلمان کرنے کیلئے جو ٹیم مقرر کی اسکے سرپرست میرے والد تھے اور الحمد للہ اس ٹیم کو یہ ٹرف حاصل ہوا کہ انہوں نے ایک لاکھ گگڑوں کو محدود عرصہ میں مسلمان کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون جب پاکستان آئے تو انہوں نے میرے والد کو اقوام متحدہ کی طرف سے اس پراجیکٹ پر انہیں خصوصی سند دی اور نواع انسانی کیلئے انکے جذبہ کو سراہا، میرے والد نے 1973ء سن 2007ء تک سول ہسپتال میں مسلسل 34ویں برس ہر روز بیسووں بیماروں کی تیمارداری کی، نادار غریب مریضوں کو ادویات کی فراہمی کو ممکن بنایا اس کام میں بھی بابا جی کی خواہش تھی کہ انہوں نے یہ کام کرنا ہے، والد محترم نے پوری زندگی سماجی خدمت اور تعمیر پاکستان میں تیاگ دی، انہیں، ستارہ خدت، تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن کے اعزاز کے ساتھ ساتھ سینکڑوں اعزازات ملتے رہے، اگست 2008ء کے دوران انکی بیماری بڑھی اور 28 اگست دوپہر ان کا انتقال ہوا جس وقت ان کا جنازہ گھر سے اٹھایا گیا میری مرحومہ والد کے وہی الفاظ جو بچپن میں والدہ پڑھا کرتی تھیں خواتین میت کے پاس کھڑی پڑھ رہی تھی، پڑھ لا الہ الا اللہ، محمد پاک رسول اللہ اے کلمہ نور سویرا اے، پڑھ لا الہ الا اللہ۔۔۔

(تحریر:۔ حامد سلطان دائودی)

متعلقہ خبریں