کبھی نہ ختم ہونیوالی داستان

2017 ,اگست 18



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/افتخار علی ملک): اگست کا مہینہ میرے لئے دوہری یادگار بن گیا ہے۔ ایک کہ اس ماہ ہمیں آزادی کی نعمت ملی اور دوسرا کہ اس ماہ میرے والد دنیا کے سٹیج پر اپنا کردار ادا کرنے کے بعد اپنی ابدی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔ انکی صورت میں صرف میرے والد ہی نہیں بلکہ میرے پیر و مرشد اور تحریک پاکستان کا ایک ایسا کارکن بھی ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلا گیا جو اس پاک وطن کے قیام کے ہر مرحلے میں شریک رہا‘ جسے اس عظیم قائد محمد علی جناح ہمراہ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ میرے والد ستارۂ امتیاز محمد شفیع ملک مرحوم 11 اپریل 1916ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز قرآنِ پاک سے کیا بعدازاں میونسپل ہائی سکول مزنگ سے تعلیم حاصل کی۔ بچپن ہی سے علامہ محمد اقبال ؒ کے عاشق تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 1930ء میں جب اُنکی عمر صرف چودہ برس تھی جب علامہ اقبال ؒکا خطبہ صدارت الٰہ آباد سنا تو اُنکے مُرید ہوگئے اور انہیں اپنا مُرشد قرار دے دیا۔ عظیم شاعر علامہ محمد اقبال ؒ کا جب انتقال ہوا تو ملک محمد شفیع مرحوم کی عمر 22 برس تھی، انہوں نے علامہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ علامہ کے تابوت کو کندھا دیا۔ اُن ہی دنوں غازی علم دین شہید ؒ نے شاتمِ رسول راجپال کو جہنم واصل کیا اور اِس "جُرم"میں غازی شہید ؒ کو پھانسی دے دی گئی۔ اُن کی نمازِ جنازہ یونیورسٹی گرائونڈ میں پڑھائی گئی۔ میرے والد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے غازی علم دین شہید ؒ جیسے عاشقِ رسول کے جنازے کو بھی کندھا دیا۔ اسی طرح جب قائد ملت قائداعظم محمد علی جناح قوم کو داغ مفارقت دے گئے تو انکے جنازے میں شریک ہونیوالے لاکھوں مسلمانوں میں میرے والد محترم بھی موجود تھے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے جب دوقومی نظریہ پیش کیا اور اُسکے بعد تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا تو محمد شفیع ملک مرحوم بھی قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی سرکردگی میں حصولِ پاکستان کیلئے انتہائی سرگرمی سے مصروفِ عمل ہوگئے۔ اُن ہی دنوں ایک واقعہ پیش آیا۔ ان دنوں شملے میں دو پہیوں والے رکشا چلتے تھے‘ یہ رکشے بالعموم تین چار مرد کھینچتے تھے‘ پہاڑی سڑکوں پر رکشا کھینچنا بڑی ہمت کا کام تھا علاوہ ازیں اس کام میں مہارت بڑی اہم تھی کیونکہ اگر رکشا پر گرفت ڈھیلی ہوجائے اور چڑھائی چڑھی جارہی ہو تو رکشا کے نیچے جاگرنے کا خطرہ ہوتا جس سے رکشا سوار کی جان بھی جاسکتی تھی ورنہ کم سے کم شدید چوٹیں ضرور آتیں۔ ایک بار قائد اعظم ؒ رکشا میں سوار تھے کہ آناً فاناً رکشا کھینچنے والے ایک شخص کا پائوں پھسلا، اس خوف سے کہ کہیں قائداعظم ؒ زخمی نہ ہوجائیں سڑک کے کنارے مسلمان برق رفتاری سے لپکے، رکشا کو تھام لیا اور لڑھکنے نہیں دیا۔ قائداعظم ؒ بڑے سکون سے رکشا میں بیٹھے رہے اور مطلقاً پریشان نہیں ہوئے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے لوگوں کے جذبہ محبت کا شکریہ ادا کیا اور انکی پریشانی پر اظہار مُسرت بھی کیا۔ ان لوگوں میں حُسن اتفاق سے میرے والد محمد شفیع ملک مرحوم بھی شامل تھے جو ان دنوں ایک مضبوط اور چاق و چوبند نوجوان تھے۔ قائداعظم ؒ نے اُن سے دریافت کیا کہ کہاں کے رہنے والے ہو۔ جب میرے والد نے لاہور کا نام لیا تو قائداعظم ؒ کے بارعب چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ قائد اعظم ؒ کی سرکردگی میں تحریکِ پاکستان زور پکڑتی گئی اور ساتھ ہی سِکھوں اور ہندوئوں کے مظالم بھی۔ محمد شفیع ملک مرحوم نے ظلم و بربریت کے بہت سے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے، قیامِ پاکستان کیلئے ذبح ہونے والے مرد، خواتین اور بزرگوں کی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔ ہمیں یہ واقعات سناتے ہوئے اُن کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں ہوتا تھا، میں خود گواہ ہوں کہ قیامِ پاکستان کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالے مسلمانوں کی قربانیوں کا دُکھ وہ مرتے دم تک نہیں بُھولے۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی محنت اور مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ میرے والد اُن غازیوں میں شامل تھے جو قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ صحیح سلامت پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے لیکن پاکستان کیلئے شہید ہونے والوںکا دُکھ ساری عمر نہیں بھول پائے۔ انہوں نے مہاجرین کی آبادی کاری کیلئے اپنی حیثیت کے مطابق ہرممکن کوشش کی جبکہ بعدازاں وہ دُکھی انسانیت کی خدمت کیلئے سرگرمِ عمل ہوگئے جس پر انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

متعلقہ خبریں