ماں میں نے تمہارے ساتھ جانا ہے۔۔۔

2017 ,اگست 25



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/  اعجا ز شیخ): قیام پا کستان کے لےے برصغیر کے مسلمانوں نے تقریباً 10لا کھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ ہندوستان کی تقسیم کے جرم میں کانگریس کی سر پرستی میں سکھوں اور ہندو غنڈوں نے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا یہ ایسی غم ناک داستان ہے جسے بیان کرتے ہوئے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک ملک سے اتنی بڑی ہجرت پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی ۔ تاہم ہمارے ادیبوں نے یہ المنا ک باب بیان کرنے میں قدرے بخل سے کام لیا ہے۔ اسی لیں آج ہما ری نسل قیام پاکستان کے مقصد سے کماحقہ واقف نہیں ۔ انھیں تو یہ خطہ پا کستان سونے کی طشتری میںرکھا مل گیا ۔ وہ نہیں جا نتے کہ یہ سر زمین حاصل کرنے کے لےے کتنی بیٹیوں ، ماﺅں اور معصوم بچوں نے اپنی جانو ں کا نذرانہ پیش کیا ۔ پاکستان ہجرت کر نے والوں میں میری ایک عزیزہ بھی شامل ہیں ۔ ان کہانی بھی ایسا درد ناک باب ہے جو شاید ان کی موت کے بعد ہی ختم ہو ۔ گووہ اب ۴ بچوں کی ماں ہے ۔ ان کے میاں ایک پنکھا ساز کمپنی کے مالک او ر صاحبِ حیثیت ہیں ۔ مگر وہ جس کرب میں مبتلا ہیں وہ ایک ماں ہی جان سکتی ہے۔ ان کی ایک پیا ری ، معصوم اور پھول سی بیٹی دریائے بیا س کے کنا رے رہ گئی تھی ۔

یعنی جب ان کا قافلہ دریائے بیاس کے قریب پہنچا تو سکھ درندوں نے حملہ کر دیا اور بے یا رو مددگار قافلے کو تہ تیغ کرنے لگا ۔ میری عزیزہ اپنی ۲ اور ۴ سالہ بچیوں کے ساتھ درختوں کے ایک جھنڈ میں چھپ گئیں ۔بدقسمتی سے جا تے ہوئے ۲سکھوں نے ما ں بیٹیوں کو چھپتے دیکھ لیا۔ تبھی ایک سکھ نے کہا ” تو معراج دین کی کڑی تے نئیں ؟“ ( تم معراج دین کی بیٹی تو نہیں؟) میری عزیزہ ہا تھ جوڑ کر کہنے لگیں ” ہا ں میں اس بد نصیب کی بیٹی ہوں ۔ تم نے میرے ما ں با پ کو شہید کر دیا ، لو مجھے بھی مار ڈالو۔“مگر سکھ کہنے لگا ” تیرے باپ نے ایک مر تبہ مجھ پر احسان کیا تھا اور کچہری میں میرے حق میں گواہی دی تھی ۔ اس کا مجھ پر بڑا احسان ہے ۔ میں تجھے دریا پا ر کرا دوں گا۔“ میری عزیزہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سکھ کے ساتھ چل پڑیں ۔ ابھی چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ ایک اور جھتے نے حملہ کر دیا ۔ شام ہونے میں ابھی تھوڑا سا وقت تھا ۔ دریائے بیا س کا پانی ہر چیز بہا ئے لے جا رہا تھا ۔ بارش اور بجلی کو ند نے سے منظر اور بھی خوفنا ک ہو گیا تھا ۔ وہ سکھ کہنے لگا۔ ” میں دونوں بچیوں سمیت تمہیں دریا پا ر نہیں کروا سکتا۔ صرف ایک بچی ساتھ لے لو ، دوسری یہیں چھوڑ جا ﺅ۔ “ اسی اثنا میں شور بلند ہوا ۔ جس میں مظلوموں کی چیخ و پکار اور آہیں شامل تھیں ۔ سکھ جتھے بچے کچے بے آسرا لوگوں کو ما ر رہے تھے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری عزیزہ نے اپنی چھوٹی بچی کو تھوڑے سے چنے دے کر کیکر کے نیچے بٹھا یا اور بڑی کو لے کر چل پڑی ۔ تبھی چھوٹی بچی نے چلا کر کہا ” ماں !میں نے تمہا رے ساتھ جانا ہے ۔ “ سکھ نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر ما را جس سے وہ زمین پر گر گئی ۔ سالوں عشروں بعد بھی میری عزیزہ ہنستے ہنستے رو پڑتی اور روتے روتے ہنس پڑتی ہیں ۔ ایک دن مجھے سے کہنے لگیں ” بھائی ! مجھے موت کیوں نہیں آجا تی ؟کا ش وہ سکھ مجھے وہیں قتل کر دیتا۔ مجھے ایسی سزا تو نہ ملتی ۔ مجھے بیٹی روبینہ بہت یا د آتی ہے ۔ وہ نہ جانے کس حال میں ہو گی ۔ اس کی آواز میرے کا نوں میںگونجتی ہے ” ماں !میں نے تمہارے ساتھ جاناہے ۔“

متعلقہ خبریں