میں نے پاکستان بنتے دیکھا

2017 ,اگست 31



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک / ڈاکٹر عظمت الرحمن):14 اگست 1947ء کا دن ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے قیام پاکستان کا آئینہ ہے جس کو دیکھے بغیرہماری شناخت مکمل نہیں ہوتی۔ آزادی کے ثمرات پانے کے لیے ہم نے جان ومال کی قربانیاں دی ہیں۔میں ملک سے باہر بھی گیا مگر جو عزت مجھے یہاں پر ملتی ہے وہ دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ میں چار ہسپتالوں (لاہورجنرل ہسپتال، میوہسپتال،سروسز ہسپتال، منشی ہسپتال) کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہا ہوں۔ کھرکی ہسپتال کا پہلا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہا اور اتفاق ہسپتال کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔ اگر ہندوستان میں ہوتا تو مسلمان ہونے کی وجہ سے کبھی کسی نمایاں عہدے تک نہ پہنچتا۔ پاکستان نے ہمیں شناخت، آزادی، عزت اور وقار بخشا ہے۔

ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہم لدھیانہ میں رہتے تھے۔ اس وقت میری عمر پانچ چھ سال ہو گی۔ اس وقت ایک آواز جو آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے جب بھی 14 اگست آزادی کے دن کاجشن منایا جاتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ میں نے بھی یہ نعرے لگائے۔ بچے بڑے بوڑھے سب کی زبان پریہی نعرہ تھا ۔اس سے قطع نظر کہ یہ نعرہ کیا ہے مگر ایک جوش ولولہ ضرور تھا جو میں سمجھتا ہوں کہ یہ قدرتی چیز تھا۔ پٹیالہ میں ایک قصبہ جس کا نام سننان تھا۔ وہاں پر ہماری ایک جدی پشتی حویلی تھی۔ جس میں ہمارے بزرگ رہتے تھے ان میں تا تو وہ حکیم تھے یا مسجدوں کے خطیب تھے۔ جب پاکستان بنا تو ہم لدھیانہ میں رہائش پذیر تھے 14اگست1947 ء کو پاکستان کا اعلان ہوتے ہی قتل وغارت شروع ہوگئی ہے ۔ ہم جس علاقے میں رہتے تھے مجھے یہ نہیں پتہ ہے کہ وہاں سکھ اور ہندو رہتے تھے کہ نہیں۔ ہم لدھیانہ شہر میں رہتے تھے۔ خراب حالات کے پیش نظر علاقے کے لوگوں کا اکٹھ ہوا اور کہا پاکستان چلتے ہیں۔ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھروں سے نکلے ۔ ہم جب گھر سے چلے تو ہم سٹیشن پر نہیں گئے بلکہ ریلوے لائن پر بیٹھے رہے کہ یہاں مال گاڑی آئے گی۔ ہم ریلوے لائن پر دو تین بیٹھ رہے۔ وہاں گزرا توایک ایک لمحہ کئی گھنٹوں اور ایک دن مہینوں کے برابر لگ رہا تھا۔ مال گاڑی آئی تو اس کے زیادہ ڈبوں کی چھت نہیں تھی۔ ہم سب گائے بھینسوں کی طرح اس پر سوار ہو گئے۔ بندے سے بندہ جُڑا ہوا تھا۔ مال گاڑی اپنی منزل مقصود کی طرف رواں تھی ۔ راستے میں جو سٹیشن آئے بالٹیوں میں دال اور توے کی روٹیاں ہمیں کھانے کو مل جاتی تھیں۔ رات ہو چکی تھی۔ دیکھا کہ اچانک گاڑی رک گئی، بڑا ہی خوف ناک اس رات کا سناٹ تھا۔ ہم نے دیکھا آسمان پرایک گولہ پھٹا روشنی پھیلی ۔ اس روشنی میں ہم نے چھلیوں کے کھیتوں میں سکھوں کو چمکتی تلواروں کے ساتھ دیکھا۔ میری والدہ نے مجھے اور میرے بھائی کو اپنی گود میں چھپا لیا ۔ ایک خوف تو طاری ہوا کہ یہ لوگ اب حملہ آور ہوں گے۔ روشنی کا گولا پھٹنے کے فوراً بعد فائرنگ شروع ہوگئی تڑ تڑ گولیوں کی آوازیں کانوں میں آنے لگیں۔ میں نے یہ آوازیں سنیں کہ اوئے خانصہ مار دیتا اے ‘ خالصہ مر گیا اوئے۔ واھگرو جی دا خالصہ ، واھگرو جی فتح فتح ۔ راج کرے گا خالصہ باقی رہے نہ کو۔ جو بولے سونہال ستسری اُکال ،نہ بولے سو نہال ست سری اکال ۔سکھون نے اپنے مخصوص نعرے لگائے۔ ان کے پاس رائفلیں نہیں تھیں اس لیے جوابی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس وقت تو بالکل سمجھ نہیں آئی یہ کیا ہو رہا ہے مگر بعد میں پتہ چلا کہ ریلوے لائن پر درخت کاٹ کر ڈال دیا گیا اس وجہ سے گاڑی رک گئی تھی۔ انجن میں بلوچ ریجمنٹ کے 5 فوجی تھے انہوں نے حملہ آوروں کو دیکھنے کے لیے پہلے گولا پھینکا حملہ آور کو دیکھ اور ان پر فائرنگ کی۔ مجھے پیاس لگ گئی اور میں پیاس کی شدت سے نڈھال ہو رہا تھا۔ پانی کے لیے تڑپ رہا تھا۔میری امی حضور سے میری حا لت دیکھی نہ جاری تھی۔ مال گاڑی چند منٹ کے لیے رکی ، میری امی حضور جنہوں نے سفید دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا جلدی سے ٹرین سے اتریں ایک جوہڑ سے پانی لیا اور اپنے دوپٹہ سے چھانا،میں نے اس جوہڑ میں ایک لاش پڑی دیکھی، پیاس شدید لگی ہوئی تھی ، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے وہ پانی پی لیا۔

خداخدا کر کے لاہور اسٹیشن پہنچے۔ لاہور پہنچ کر پتہ چلا کہ اس سے پہلے جتنی گاڑیاں مہاجرین کی لاہورآئیں اکثر میں ڈیڈ باڈیز ہی تھیں، سکھوںنے ان کو مار دیا تھا، خدا کے فضل سے ہم بچ گئے۔ اللہ نے ہمیں بچا لیا، میرے ذہن میں اس وقت پاکستان کے بارے میں کچھ سوجھ بوجھ نہیں تھی بزرگ جو باتیں کرتے اس سے یہ سمجھا یہی ہمارا اصل گھر ہے۔ ہم آٹھ دن لاہور ریلوے سٹیشن پر ڈر کے مارے بیٹھے رہے کہ کہاں جائیں لاہور میںکوئی یہاں عزیز رشتہ دار بھی نہیں تھا۔ایک ٹرین آئی ہم سے اس میں بیٹھ گے پتہ نہیں وہ ٹرین کہاں کہاں سے ہوتی ہوئی سرگودھا پہنچی ہم سرگودھا اسٹیشن پر اتر گئے۔ میں 1960 تک سرگودھا میں ہی رہا۔ جب سرگودھا پہنچے وہ چھوٹا شہر تھا۔ ۔ ہمارے خاندان کے کچھ اور افراد بھی ہمارے ساتھ ہی تھے۔ سرگودھا خالی پڑا تھا وہاں جو سکھ اور ہندو رہتے ہوں گے وہ بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے تھے، سرگودھا میں سکھ اور ہندو بہت رہتے تھے۔ میرے ابا حضور بہت دینی آدمی تھے سرگودھادس نمبر بلاک میں ایک جامعہ مسجد تھی وہاں ساتھ ہی ایک بلڈنگ تھی وہ کسی ہندو حکیم کا مطب تھا ابا حضور بھی جیدحکیم تھے وہ لدھیانہ میں اپنا مطب چھوڑ کر آئے تھے۔ ا س مطب کے پیچھے گھر تھا وہ خالی پڑا تھا۔ ابا نے وہ جگہ پسند کی۔ ہم لوگ وہاں رہنے لگے، اس گھر میں اسی طرح سازوسامان تھا جیسے ہم سازوسامان چھوڑ کر آئے تھے۔ کیونکہ ہماری اپنی زمین جائیداد اور گھر ہندوستان میں تھا۔ اس لیے وہ دکانیں (مطب )اور گھر ہمیں قانونی طور پر الاٹ ہوگیا تھا۔ہم آٹھ بھائی تھے۔ سب سے چھوٹا بھائی میں تھا۔ ایک بھائی میرے ساتھ پاکستان آیا۔ ابا نے ہم دونوں بھائیوں کو ڈاکٹر بنا یا تھا۔میرے بھائیوں نے اپنی اپنی جوان بیویوں اور بچوں کو کنویں میں پھینکا دیا اور خود حملہ آور سکھوں اور ہندوں کا مقابلہ کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ ان کی کوئی نشانی نہیں۔ بچوں سمیت سب کچھ ختم ہوگیا۔

متعلقہ خبریں