میں نے پاکستان بنتے دیکھا

2017 ,اگست 22



لاہور(ماجد علی شاہ)1947ء میں ہم امرتسر کے محلہ چوبترہ چوک میں رہائش پذیر تھے۔ میری عمر اس وقت سات سال تھی۔ ہمارے محلے سے کچھ ہی فاصلے پر ’’گُل والی دروازہ‘‘ تھا۔ جہاں میرے بھائی سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے والد محترم مولانا بہاؤ الحق آمنے سامنے رہتے تھے۔ میں اپنی تایا زاد بہن سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی بیگم سے قرآن شریف پڑھنے جایا کرتا تھا۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ ’’قائداعظم زندہ باد‘‘ ان نعروں کی گونج میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے گھر جاتا تھا اور پھر پورے امرتسر کو جلتے دیکھا۔ ہندو اور سکھ مل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ مسلمان ڈٹ کر مقابلہ کرتے، اور ان درندوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیتے۔ پاکستان کے لئے عوام اور قائد میں جو تڑپ اور جذبہ دیکھا وہ آج بھی میری آنکھوں اور دل میں محفوظ ہے۔ گھروں کے گھر اُجڑ گئے۔ بے شمار جانیں پاکستان پر قربان ہو گئیں۔ اَن گنت عزتیں لوٹی گئیں، پھر اللہ پاک نے ہمیں اپنے محبوب اور اپنے نام پر ایک پاکیزہ ملک پاکستان عطا کیا۔ مزے کی بات یہ ہے ہجرت کرنے والوں میں بہت عظیم اور نامی لوگ امرتسر سے ہجرت کر کے آئے مثلاً ان میں میرے سُسر صوفی غلام مصطفی تبسم اور دیگر۔ احمد راہی، خواجہ پرویز اے حمید اور سعادت حسن منٹو جیسے لوگ جو اپنے اپنے شعبہ میں یکتا تھے ان میں سے کسی نے اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہا۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ بڑے پُرامن طریقہ سے ہجرت کر کے آئے ان کے گھروں کے سامان کی نوعیت کچھ اس قسم کی ہے کہ یہ لوگ جوئیں نکالنے والی باریک گنگھی اور طوطے کا پنجرہ تک ساتھ لائے اور پھر بھی اپنے آپ کو ’’مہاجر‘‘ کہتے ہیں۔ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں اور پھر پاکستان صرف۔ 

متعلقہ خبریں