میں نے پاکستان بنتے دیکھا

2017 ,اگست 14



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/فرزانہ چوہدری): میں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ مجھے ضلع حصار کے وہ شب و روز اب بھی یاد ہیں جب تقسیم ہند کے دنوں میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوچکے تھے۔پھر لاہور کے پاکستان میں شامل ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی یہاں مسلمان ہندوﺅں کی املاک کو نذر آتش کررہے تھے۔ ان تا¿ثرات کا اظہار پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی صدر رانا شوکت محمود نے نوائے وقت سے بات چیت کے دوران قیام پاکستان کے دنوں کے کربناک واقعات بیان کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے بتایا میرے والد سلطان محمد کو ضلع امرتسر میں پہلا مسلمان پی سی ایس آفیسر ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ضلع بھر کے با اثر ہندو سکھ اور مسلمان میرے والد کی نظر عنایت کے لیے ترستے تھے۔ کیونکہ انگریزوں نے ایک پالیسی کے تحت سینئر افسروں کو مسلم اکثریتی علاقوں میں تعینات کرنا شروع کردیا تھا۔اس لئے1944-45 میں تقرری کے بعد پاکستان بننے پر انہیں سیٹلمنٹ کمشنر بنا دیا گیا۔ سرکاری ذمہ داری کے سلسلے میںمیرے والد چودھری سلطان قیام پاکستان سے قبل ہی لاہور آگئے تھے اور ہمارا گھر 2فیروز پور روڈ پر واقع تھا۔ یہ گھیراﺅ جلاﺅ کا زمانہ تھا ہم جب کبھی رات کو مکان کی چھت پر جاتے تو شہر کی جانب حد نگاہ تک مختلف مقامات پر آگ لگی دکھائی دیتی تھی۔ چیخوںاور فائرنگ کے آوازیں صبح و شام کا معمول تھیںجس کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ شروع شروع میں تو ہم بہت زیادہ ڈرتے تھے مگر بعد ازاں کافی حد تک مانوس ہوگئے۔ البتہ جب کبھی کسی نزدیکی گھر میں آگ لگتی، فائرنگ ہوتی یا کسی کو قتل کردیا جاتا تو دلوں میں چھپا ڈر عودکر آتا۔ انہی ایام میں شاہ عالم مارکیٹ کو نذر آتش کرنے کا سانحہ ہوا۔ گو کہ شاہ عالم مارکیٹ ہمارے گھر سے بہت دور تھی مگر اس سے بلند ہوتے ہوئے شعلے اور دھوئیں کے بادل آسمان کو چھو رہے ہوتے تھے۔ اس رات ہمارے گھر سمیت تمام مکان کی چھتوں پر لوگ شب بھر موجود رہے۔ آگ کی روشنی اس قدر زیادہ تھی کہ میلوں دور تک روشنی پھیل رہی تھی۔ یہ آگ تین چار روز لگی رہی جس کو مکمل طور پر بجھنے میں تقریباً ایک ہفتہ لگا۔ اس آتشزدگی نے لوگوں کے دلوں اور دماغوں پر خوف اور دہشت بٹھا دی۔ کم عمری کے باعث میرے دل سے خوف نہ جا سکا۔ مجھے یاد ہے کہ جب شاہ عالم مارکیٹ جلی تو میری والدہ نے دو روز تک کھانا نہیں پکایا۔ ہمارے اردگرد کے باقی گھروں میں بھی یہی صورتحال تھی۔ صدمے کی شدت سے لوگوں نے گھروں میں چولہے نہیں جلائے۔

والد سرکاری ذمہ داریوں میں بہت زیادہ مصروف رہتے تھے۔ اکثر والد سے رات کو ہی ہماری ملاقات ہوتی ۔بھارت سے آنے والے قافلوں پر ہونے والے حملوں، قتل و غارت، عصمت دری اور لوٹ مار کے واقعات پر وہ افسردہ دکھائی دیتے ۔ کبھی کبھی تو ان کی آنکھیں بھی اشکبار ہو جاتیں ان کے یہ جملے آج بھی میرے کانوں میں زندہ ہیں جو واہگہ بارڈر یا والٹن کیمپ سے واپسی پر اکثر ان کے منہ سے بے ساختہ نکلتے ” خدایا رحم فرما“ ظالموں کے دلوں میں رحم ڈال دے۔ انسان، انسان کا قاتل بن گیا۔ خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ انسانی خون کبھی اتنا ارزاں نہ تھا جس قدر آجکل ہے“ یہ الفاظ وہ اکثر کہہ کر گہری سچ میں ڈوب جاتے۔تقسیم ہند کے وقت میں چھ سات سال کا تھا کبھی کبھی ضد کر بیٹھتا کہ میں نے آپ کے ساتھ جانا ہے ۔ والد ایک دن مجھے اپنے ہمراہ واہگہ ریلوے اسٹیشن لے جانے پر مجبور ہوگئے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ قدرت انتہائی کم عمری میں مجھے کس قدر خوفناک سانحے کا عینی شاہد بنانے جارہی تھی۔ میں ریلوے اسٹیشن پر والد کے ہمراہ موجود تھا، جب بھارت سے ٹرین کی آمد کی اطلاع آئی میں بھی گاڑی دیکھنے کے شوق میں ان کے ساتھ ہو لیا۔مجھے آج بھی وہ کرب ناک لمحے یاد ہیں، کاش میں نے وہ گاڑی وہ منظر نہ دیکھا ہوتا۔ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے تمام مناظر لوٹ آنے پر میرا سارا بدن لرز جاتاہے۔14اگست کا دن میرے ، بچپن کی یادوں کو تازہ کردیتا ہے۔ دیکھتے یکھتے ریلوے اسٹیشن پر ایک دم شور مچ گیا ۔ گاڑی آہستہ آہستہ اسٹیشن پر رکنے لگی جس کے پہیّے خون سے آلودہ تھے اور بوگیوں پر بھی جا بجا بڑے بڑے سرخ رنگ کے دھبے واضح دکھائی دے رہے تھے ۔ بوگیوں سے لگی آہنی سڑھیاں خود آلود پاﺅں کے ساتھ چھلانگیں لگانے والوں کے جوتوں کے نشانوں سے اٹی پڑی تھیں ۔ یہ مناظرعورتوں اور بچوں کی آخری چیخیوںاور سسکیوں کی گواہی دے رہے تھے۔ریلوے اسٹیشن پر موجود افراد کی کیفیات تو شاید میں بیان نہ کر سکوں لیکن مجھے اپنے والد کے الفاظ یاد ہیں جن کے منہ سے بے ساختہ نکلا اف خدایا ۔۔۔۔۔ ہندو اور سکھوں کے حملوں کے نتیجے میں بوگیوں کی کھڑکیوں میں لٹکے سسر اور بازو قتل غارت کی داستان بیان کر رہے تھے۔ انسانی خون لکیروں کی صورت میں بوگیوں کی دیواروں پر اوپر سے نیچے تک نقش ہو چکا تھا۔ میں نے ایک دو بوگیوں کے اندر جھانکنے کی کوشش کی ہر طرف خون ہی خون اور ننگی درندگی تھی۔ عورتوں کے زیورات اتارنے کے لیے کان، گلے اور بازو کاٹے گئے تھے۔شہید مسلمانوں کی کی لاشیں فرش،اور سیٹوں پر پڑی ہوئی تھیں جو ہندو اور سکھ بلوائیوں کی درندگی کا بھیانک ثبوت تھیں۔ متعدد زخمی کراہتے ہوئے سنائی دے رہے تھے۔ کئی شدید زخمیوں کی زبانیں باہر لٹک رہی تھیں وہ بمشکل سانس لے رہے تھے۔ ایک بچی کے دونوں پاؤں پازیب پہننے کی پاداش میں قلم کر دیئے گئے تھے۔ کاش میں وہ مناظر نہ دیکھتا جو کئی سال تک میری آنکھوں میں جاگتے خواب بنے رہے ۔ مجھے تو صرف ایک روز اس نوع کی واقعات سے گزرنا تھا۔ ان مہاجرین پر جو بیتی اس کا تذکرہ کرنا میرے لیے عملاً ناممکن ہے مگر مجھے بہت حد تک اندازہ ضرور ہے۔

ان ہی ایام میں مجھے ایک بار والد صاحب کے ساتھ گوجرانوالہ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی چند بسیں لاہور لانا چاہتے تھے۔ گوجرانوالہ جاتے اور واپس آتے ہوئے میں نے جو مناظر دیکھے وہ بھی میری آنکھوں میں نقش ہو کر رہ گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ کھیتوں، نالوں اور گڑھوں میں جابجا انسانی لاشیں پڑی ہیں جن کو گدھ، چیلیں کوے اور کتے نوچ رہے تھے۔بچپن کی تلخ ترین یادیں جن کا تعلق 1947ءسے ہے۔ میرے قلب و ذہن میں جونک کی طرح آج بھی چمٹی ہیں۔ آج جب عمر کے اس حصے میں ہوں تو مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ ہمارے ہاں تاریخ کو بُری طرح بھلا دیا گیا ہے۔ ہیئت ہی تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل بھارتی فلموں کے مار دھاڑ کرنے والے ہیروز کو آئیڈیل تصور کرتی ہے۔ حالانکہ اس کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس کا اصل ہیرو تو وہ گمنام مسلمان تھا جس نے 1947ءمیں ٹرین میں جان دی۔ ان کا چائلڈ ہیرو تو وہ بچہ تھا جو اپنی ماں کے پہلو میں ٹرین میں پڑا تھا۔ اصل ہیروئن تو وہ بچی تھی جس کے پاو¿ں پازیب لوٹنے والے بلوائیوں نے تن سے جدا کر دیئے تھے ۔

پاکستان کے مسلمانوں کے اصل ہیرو تو وہ ہزار مرد و زن ہیں جن کی لاشیں اور ہڈیاں میری آنکھوں کے سامنے واہگہ بارڈر کے ساتھ ساتھ زمین کھود کر دفن کر دی گئیں۔ ان اجتماعی قبروں پر چھ چھ فٹ مٹی ڈال کر ان پر ٹریکٹر چلا دیا گیا۔ آج ایک طرف ان ہیروز کی قبروں پر فصلیں اگتی ہیں تو دوسری جانب والٹن کو باب پاکستان قرار دیا گیا ہے۔ اصل میں تو باب پاکستان تو واہگہ میں بننا چاہیے تھا۔ یہی باب پاکستان کا حقیقی مقام ہے جہاں ہزاروں گمنام شہید ابدی نیند سو رہے ہیں۔ کیونکہ بھارت سے بذریعہ ٹرین آنے والے قافلوں کا پہلا پڑاؤ واہگہ بارڈر تھا۔ واہگہ میں چونکہ فوج موجود ہوتی تھی اس لیے قدرے آگے کیمپ بنایا گیا تھا۔ اس وسیع و عریض قطعہ اراضی پر لوگ پاکستان آنے کی خوشی کا اظہار کرتے۔ رب رحیم کے حضور سربسجود ہوتے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں بھوک، ڈر خوف اور شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے لاتعداد لوگ آزاد وطن کی راہ میں قربان ہو گئے۔ہجرت کر کے آنے والے اسی جگہ اپنے بچھڑنے والوں کے بارے میں سوالات کرتے اور ایک دوسرے کو اپنی دکھ بھری داستانیں سناتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو انگریز اور ہندو کے جبر و استحصال سے نجات مل گئی اور اب وہ سب پاکستان کی آزاد فضاوں میں زندگی بسر کر سکیں گے۔ 

متعلقہ خبریں