مہمان دوست کیساتھ اُنکے عزیز کے گھر جانا ہوا۔ یہ مختلف ورائٹی کی اِستریاں بناتے ہیں۔کچھ پیس ہمیں دکھائے ۔ان میں ایک بڑی دیدہ زیب اور فینسی تھی۔ اس بارے بتایا یہ پشاور کے تاجر لے جاتے ہیں۔اس پر میڈ ان کی مہر نہیں تھی۔ ایسا کیوں؟ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا، پشاوروالے خود میڈ ان جاپان کی سٹمپ لگاکر پنجاب سندھ اور جہاں چاہتے ہیں بھیج دیتے ہیں۔ ہمارے پوچھنے پر کہ آپ کیوں یہ مُہر نہیں لگاتے ان کا بڑا &r
ہمارے ہاں غیر معیاری مصنوعات کی تیاری کا منافع خوری کے نقطہ نظر سے رحجان ہے ۔یہ اعلیٰ متوسط اور ادنیٰ طبقات میں یکساں پایا جاتا ہے۔اشرافیہ کی دونمبریاں معاشرے میں انارکی کا سبب بنتی ہے۔غلام مصطفی کھر بینظیر بھٹو کے دور میں وزیر پانی و بجلی رہے۔ کھر صاحب نے ٹیک سوسائٹی کلب میں تقریب کے دوران سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے کرپٹ ذہنیت کے حوالے سے کچھ اس طرح بتایاــ" امریکہ سے وفد پاکستان میں بجلی کے معاہدوں کیلئے آیا تھا۔ اس میں ایک ہندو رکن کانگریس بھی تھا۔اس نے مجھ سے الگ ملنے کی خواہش کی۔ اس نے کہا کرپشن بڑے ممالک میں بھی ہے، بھارت میں بھی کم نہیں۔ پاکستان میں کسی اور ہی شکل میں ہے۔ امریکی وفد بھارت گیا دس دن تک انکے سیاستدان اور بیوروکریٹ بجلی کی قیمت کم کرانے کیلئے لڑتے رہے۔ہم ریٹ کم از کم سطح پر لے آئے تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے کمیشن کی بات کرو جس پر ہم ششدر رہ گئے۔ ان کا جواب تھا ہم اپنے ملک کے مفاد کو زک نہیں پہنچا سکتے۔ کمیشن آپ سے لیں گے۔ بحث و تمحیص کے بعدتین سنٹ میں معاملہ فائنل ہوا۔اِدھر پاکستان میں ہم نے سات سنٹ اس امکان پر مانگے کہ یہ لوگ بھی کم کرائیں گے جس میں چند دن لگیں گے مگر چند منٹ میں مذاکرات کاروں نے اپنا حصہ رکھ کرسات سنٹ میں معاملہ ڈَن کردیا۔ صاحب نے یہ بھی بتایا ، انہوں نے بینظیر بھٹو سے شکایت کی کہ زرداری پیسے مانگتے ہیں۔ ہم آپ کی مانیں یا زرداری کی۔ محترمہ نے کہا آصف صاحب کی مانیں!
شوگر آٹا بحران کی انکوائری ہو رہی ہے کمیشن میں بڑے بڑے لوگ پیش ہو رہے ہیں۔ چینی بحران پر انگلیاں بڑے لوگوں کی طرف اُٹھ رہی ہیں۔ سبسڈی کی مد میں بڑی رقمیں وصولی گئیں۔ وہ سب قانونی ہو سکتا ہے۔ مگر اخلاقیات کا جنازہ اُٹھنے سے کم نہیں۔ سبسڈی گھاٹا پورا کرنے کے نام پر لے لی گئی۔ ساتھ چینی کی قیمت فی کلو 15 بیس روپے تک بڑھا دی۔جائز کمائی بسم اللہ، انسانوں کا خون چوس کر منافع خوری لعنت اللہ۔آخر اتنا دھن کہاں لے جانا ہے ۔دو دھنوان لندن میںایڑیاں رگڑرہے ہیں ایک کراچی میں سسک رہا ہے انہیں پانچ ہزار کے نوٹوں کی دھونی دیں شاید افاقہ ہوجائے۔ کہا جاتا ہے چینی مافیا بڑا طاقتور ہے۔ اس کی جڑیں ہر پارٹی میں ہیں اس کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ اب مافیا شاید اللہ کی پکڑ میں آیا چاہتا ہے۔ پاکستان میں کبھی جی ٹی ایس مضبوط ادارہ تھا۔ اسے ٹریڈ یونین کھا گئی ، بڑے افسر نگل گئے۔ جی ٹی ایس زمین بوس ہوئی تو ان کے بھی گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے بعض تو بھیک مانگنے پر بھی مجبور ہوئے۔ موصول چونگی بھی ایک محکمہ تھا۔ اس کی کرپٹ ذہنیت سے غریب نکو نک آگئے۔ انسانوں کی طرح اس محکمے کے لوگ کام کرتے تو شاید چلتا رہتا مگر اسے بھی بدنیتی لے ڈوبی۔
شوگر مافیا پرکڑاہاتھ پڑنے والا ہے۔ پاکستان میں گنا ‘گندم ‘ کپاس‘ چاول کی ہمیشہ سے بمپر فصل ہوتی آ رہی ہے۔ کسان کو اس کی محنت کا ثمر نہیں ملتا۔ شوگر مافیا کا شکنجہ سب سے کڑا اور دانت کسی بھوت سے بھی زیادہ خونخوار نوکیلے اور تیز ہیں ۔ ملک میں 78 شوگر ملز ہیں جن میں کام کرنیوالوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہوگی۔ شوگر ملز نے عالمی مارکیٹ میں چینی پاکستان کے مقابلے میں سستی ہونے کا جواز پیش کر کے سبسڈی لی۔ دنیا میں چینی اتنی سستی ہے تو وہیں سے لا کر پاکستان میں کیوں نہ سستے داموں عام آدمی کو فراہم کی جائے۔ یہ راستہ چینی مافیا نے دکھا دیا ہے۔ اب حکومت کی توجہ گنے کے بجائے کپاس اور دیگر فصلوں پر ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری سے کروڑوں لوگ وابستہ ہیں۔ ملک میں کپاس زیادہ رقبے پر کاشت ہونے کا مطلب ٹیکسٹائل صنعت کو بوسٹ دینا ہے۔ ریاست پر عزم رہی تو دو تین سال میں ٹیکسٹائل انڈسٹری روزگار کے کروڑوں مزید مواقع فراہم کریگی۔ شوگر ملزبند ہونے یا انکی سپیڈ دھیری ہونے سے چند خاندانوں کی کمر ضرور ٹوٹے گی ساتھ کروڑوں غربت سے دُہری ہوئی کمریں سیدھی ہونگی۔ہر شوگر ملز مالک مافیا کا حصہ نہیں‘ ایماندار اورخدا خوفی کرنیوالے بھی موجود ہیں۔ بات ہم نے میڈ ان پاکستان سے شروع کی تھی۔ پروموٹ پاکستان منصوبے کے تحت حکومت نے تمام تر پاکستانی مصنوعات پر made in pakistan لکھنے کی پابندی لگائی ہے۔ پاکستان میں معیاری کیساتھ دو تین درجے کی غیر معیاری یعنی جعلی و نقلی مصنوعات بھی تیار ہوتی ہیں۔ نقلی پر کون میڈ ان پاکستان لکھے گا! مگر اب لکھنا پڑیگا۔
پاکستان میں بہت کچھ بہترین بھی بنتا ہے اور پیدا ہوتا ہے۔ لارنس پور کے معیار کا کپڑا دنیا میں کہیں نہیں بن سکا۔ چاول اور آم کا دنیا بھرمیں پاکستان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ بھارتی تاجر اس پر میڈ ان انڈیا لکھ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان میں پتھر کی مصنوعات بھی لاثانی ہیں۔ پتھر کے آنکھوں کو خیرہ کرنے والے برتن بنتے ہیں۔ نمک کے شو پیس قابل دید ہیں مگرعموماً MIP کی مہروں سے محروم رہے ہیں۔ اب بھی دو نمبری کرنے والے کوئی نہ کوئی جگاڑ لگانے کی کوشش کریں گے۔ ریاست کے نگہبانوں کی نیت صاف ہو تو دو نمبریاں زیادہ دیر نہیں چل پاتیں۔ نقل پر بھی میڈ ان پاکستان لکھا جاسکتا ہے۔ جہاں میڈ اِن پاکستان لکھا جائے وہیں کمپنی اور ایف آئی اے کا فون نمبر اور وزیراعظم شکایات پورٹل ایڈریس بھی لکھنے کی پابندی لگا دی جائے۔ میڈ ان پاکستان بہترین حکمت عملی ہے جو ملکی معیشت کے فروغ کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جس سے اپوزیشن کو بھی اختلاف نہیں۔