حکومت کا عوام کے لیے گرینڈ ریلیف پیکیج۔۔۔ پیٹرول، بجلی مکمل فری۔۔۔ہر خاندان کے لیے 2 ہزار روزانہ الاؤنس، عمران ریاض کو ضمانت نہ دے کر اسلام آباد ہائیکورٹ کا قوم پر احسانِ عظیم

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جولائی 08, 2022 | 06:30 صبح

آجکل شدید حبس کا موسم ہے۔ صبح گھر سے نکلا تو رم جھم کے ساتھ ہلکی ہلکی ہوا خنکی لئے چل رہی تھی۔ بادِ نسیم اور بادِ صبا اسی کو کہتے ہیں ۔ لگتا تھا کہ خلد بریں کا کوئی دروازہ زمین کی طرف کھول دیا گیا ہے۔ گھر سے مارکیٹ کی طرف گیا تو ہر چہرے پر طمانیت اور بشاشت تھی۔ لوگ خوشی خوشی نہ صرف ادھر سے ادھر آ جارہے تھے خنداں پیشانی سے خریداری کر رہے تھے، دکان دار کو خوش دلی سے ویلکم کر رہے تھے۔ بلکہ گاہک اور دکاندار جھومتے نظر آرہے تھے۔ دل کے اندر اطمینان ہو تو دنیا خوبصورت لگنے لگتی ہے۔ یہی کیف

یت ان لوگوں کی تھی ۔ رات کو سویا تو کئی پریشانیاں تھیں۔ سب سے بڑی توموسم کا حبس تھا۔ مہنگائی کا طوفان تو عذاب بنا ہوا ہے۔ صبح موسم خوشگوار تھا اور لوگ خوشنما نظر آرہے تھے۔ ایک کو روک کر پوچھا کہ اس قدرشادمانی رعنائی اور خوشی سے کیسے سرشار ہو تو اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ جیسے میں کسی پسماندہ بستی سے جدتوں کے شہر میں آگیا ہوں۔ ”آپ کو نہیں معلوم کہ رات سے صبح تک کیا ہو گیا ہے“۔ میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہانہیں۔ تو اس نے کہا کہ پٹرول کی قیمت وہی ہے۔250روپے بجلی کا یونٹ بھی وہی ہے۔ مگر حکومت کی طرف ہر شہری کے لیے بجلی اور پٹرول فری کر دیا گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ روزانہ دو ہزار تک خریداری فری ہوگی اور وہ خریداری کر رہے ہیں۔ یہ اعلان کب ہوا؟۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ صبح پونے دو بجے۔ میں اس وقت سو رہا تھا۔ لہٰذا پانچ چھ گھنٹے خوشی کی خبر سننے سے محروم رہا، تاہم میں بھی اب خوش قسمت عوام میں شامل ہو گیا تھا۔ دکاندار بڑی خوشی سے لائنوں میں لگے گاہکوں کوضرورت کی اشیاءدے رہے تھے۔ دکاندار اس لئے کانوں تک راضی تھے کہ ان کو اپنی سیل پر حکومت کی طرف سے20فیصد منافع کے ساتھ ادائیگی ہونی تھی۔ یہ کایا پلٹ تبدیلی کیوں کرآگئی؟ یہ ایک فطری اور اہم سوال تھا۔ اسی دوران ایک حکومتی نمائندہ کا وہاں سے وی 8میں گزر ہوا۔ اس نے لوگوں کو اس طرح خوش دیکھا تو گاڑی سے اترا۔ لوگوں نے اسے دیکھ کر نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ آوے ای آوے، ساڈا میاں آوے ای آوے ۔ میں نے تھوڑی سی جسارت کر کے ان سے پوچھا کہ حضور پر کایا پلٹ تبدیلی کیسے آ گئی۔ اس نے اپنے ساتھ پچھلی گاڑیوں سے اترنے والے حواریوں کی طرف دیکھا پھر مجھ پر نظر دوڑائی اور کہا کہ آپ کو بھی معلوم نہیں تو کوئی آواز نہ آئی۔ اس نے اپنے ایک نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تم بھی نہیں بتایا ہم پمفلٹ بنوا رہے ہیں۔ پورا اہتمام کر کے بتائیں گے۔ فوٹو شاپ کرنے والا تھوڑا لیٹ ہے۔ اور آڈیو ایڈیٹر اور ویڈیو ایڈیٹر تو آ چکے ہیں۔ وہ عمران خان کے ویڈیو ٹوٹے بنا رہے ہیں۔ شاباش حکومتی نمائندے نے اس کی تحسین کی اور ہماری طرف خصوصی طور پر میری طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ سب تو ہم نے11اپریل کو کرنا تھا جب شہباز شریف سے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ ہماری پارٹی کے لیے یہ خوشی ہمالیہ اور کے ٹو سے بڑھ کر تھی۔ اس روز ان پر اور ان کے فرزندار۔۔۔۔۔۔۔ پر فرد جرم عائد ہونی تھی مگر اوتار نے ان کو عدالت جانے کے بجائے تخت طائوس پر بٹھادیا۔میں مضطرب ہو رہا تھا کہ اس کی طرف سے آج عوام پر احسان کیوں کیا گیا ہے۔ تو اس نے اپنی بات کو آگے بڑھایا اور میرے سوال کا جواب بھی دے دیا، اس نے کہا کہ ہم تاخیر کا شکار اس لیے ہوئے کہ عمران ریاض اس معاملے میں رکاوٹ تھا اسے رات کو ہمارے عظیم محسن اور امیدوں کو یقین اور پھر عمل میں بدلنے والے نیوٹرل نے گرفتار کرا دیا ہے۔ کس کو؟۔ میری طرح تجسس لئے ہوئے ایک اور شخص نے پوچھا عمران خان کو۔”عمران خان“ بہت سے لوگوں نے حیران ہو کر یک زبان کہا۔ سابق وزیر اعظم عمران کو نہیں صحافی عمران خان کو، اس نے جواب دیا اور مزید گویا ہوا۔عمران ریاض خان کو گرفتار کیا گیا ہے تو عوام کو اتا ریلیف ملاہے۔ عمران خان نیازی کو گرفتار کیا جائے گا۔تو اندازہ کر لیں کہ عوام کو کس قدر ریلیف ملے گا۔دو ہزار کو دس ہزار کر دیا جائے گا۔اس کے ساتھ ہی نعرے گونجنے لگے ساڈا میاں آوے ای آوے