اسلام آباد(مانیٹرنگ)
گذشتہ روز سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کرتے ہوئے فریقین کو تین نومبر تک ضوابطِ کار جمع کرانے کا حکم دیا تھا
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف پاناما لیکس کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کا کسی جماعت کے ضوابطِ کار سے متفق ہونا ضروری نہیں ہو گا۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں لارجر بینچ نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیک
سماعت کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے جانے والے جواب میں اس موقف کو دہرایا گیا کہ ان کے پاس موجود اثاثے اور جائیداد وہی ہے جس کے بارے میں اپنے ٹیکس اور انتخابی گوشواروں میں بتا چکے ہیں۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے تینوں بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔
عدالت میں وزیراعظم کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے بھی جواب جمع کرایا گیا ہے تاہم وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز اور بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کی جانب جوابات جمع نہیں کروائے گئے اور عدالت نے انھیں پیر جواب جمع کرانے کی حتمی مہلت دی ہے۔
سماعت کے دوران ضوابطِ کار کے بارے میں عدالت کے استفسار پر حکومت اور تحریکِ انصاف کے وکلا کا کہنا تھا کہ وہ آج ٹی او آرز جمع کروا دیں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ پاناما لیکس کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے لیے کسی بھی جماعت کی جانب سے جمع کرائے جانے والے ٹی اور آرز یا ضوابطِ کار سے متفق ہونا ضروری نہیں ہو گا۔
Image caption عمران خان کا کہنا تھا کہ سات ماہ سے پاناما کا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے لیکن وزیراعظم کی جانب سے عدالت سے مزید وقت طلب کیا جا رہا ہے
منگل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کرتے ہوئے فریقین کو تین نومبر تک ضوابطِ کار جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کمیشن کے قیام پر یہ تحریری یقین دہانی طلب کی تھی کہ فریقین تحقیقاتی کمیشن کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے۔
’اٹارنی جنرل کرپٹ خاندان کا مقدمہ کیوں لڑ رہا ہے‘
سماعت کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے وزیراعظم کا مقدمہ لڑنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ 'یہ ایک کرپٹ خاندان کا مقدمہ ہے اور اٹارنی جنرل کو کس نے یہ مقدمہ لڑنے کی اجازت دی ہے؟'
عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں خوشی ہے کہ پاناما سے متعلق درخواستیں عدالت نے قابل سماعت قرار دی ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سات ماہ سے پاناما کا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے لیکن وزیراعظم کی جانب سے عدالت سے مزید وقت طلب کیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'اس ہیجانی کیفیت سے جتنی جلدی ہو نکلا جائے جو دانستہ طور پر بنائی جا رہی ہے۔'
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے عدالت عظمیٰ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے اور وہ فریقین سے گزارش کرتے ہیں کہ ادارے کی کارروائی پر اعتماد کرنا چاہیے۔
'عدالت کے فیصلے کا احترام اور انتظار کریں۔ جو بھی حکم جاری ہوگا وہ اس کی تعمیل کریں گے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس معاملے میں اب تک اپوزیشن کی جانب سے مسلسل منفی رویہ سامنے آ رہا ہے
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پاکستان تحریکِ انصاف کے علاوہ حزبِ مخالف کی دیگر جماعتوں جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں نوٹس کے اجرا کے بعد وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ عدالتِ عظمیٰ میں اس معاملے پر کارروائی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف سے احتساب شروع کرنے کے مطالبے پر دو نومبر کو اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا تھا تاہم معاملہ عدالت میں جانے کے بعد گذشتہ روز بدھ کو جماعت نے یوم تشکر منایا۔
یوم تشکر کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا تھا کہ اب عدالت وزیراعظم نواز شریف سے حساب لے گی۔
جسٹس جسٹس عظمت سعید کہتے ہیں کہ یہ بات لکھ کردیں کہ مریم نواز وزیراعظم کی کفالت میں نہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں وزیراعظم کا جواب اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے بیرون ملک فلیٹس اور دیگر بتائی گئی جائیدادیں نہیں۔ نہ ہی وہ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ وزیراعظم قانون کے مطابق باقاعدہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ 2013ءکے گوشواروں میں تمام اثاثے ڈکلیئرڈ ہیں۔ ان کا کوئی بچہ انکی زیرکفالت نہیں۔ وزیراعظم آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل نہیں قرار دیے جا سکتے۔
وزیراعظم کے بچوں کے جواب نہ جمع نہ ہو سکے جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تین بچوں کی جانب سے جواب کیوں جمع نہیں کرایا۔ آپ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ نوازشریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے بتایا کہ مریم صفدر‘ حسن اور حسین ملک سے باہر ہیں۔ جسٹس عظمت کہنے لگے کہ کیا آئندہ سال جواب جمع کرائیں گے۔ پندرہ دن کا وقت دیا ہے جواب جمع نہیں کرایا۔
اگر پتہ ہوتا کہ یہ کرنا ہے تو عدالت ہی نہ لگاتے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر جواب جمع نہ کرایا تو الزامات تسلیم کر لیں گے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ بات لکھ کردیں کہ مریم نواز وزیراعظم کی کفالت میں نہیں۔ جسٹس امیرمسلم نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف لگائے گئے الزامات سے انکاری ہیں۔ سلمان بٹ نے عدالت سے سات روز کی مہلت مانگی تو سپریم کورٹ نے مریم‘ حسن اور حسین کا جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔