پاناما کیس:سپریم کورٹ میں آج کی کاروائی کا احوال
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع نومبر 30, 2016 | 08:58 صبح
اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں پانامالیکس کیس کی سماعت کے دوران شریف برادران کی بڑی جعلسازی کا انکشاف ہو گیا۔وکیل کا کہناتھاکہ دبئی فیکٹری کی فروخت کے وقت وزیراعلیٰ شہبازشریف بطور نمائندہ پیش ہوئے تھے جس پر عدالت نے کہا کہ کا غذات پر دستخط کس نے کیے تھے،بظاہر کوئی یکسانیت نظر نہیں آرہی،یہ تو دستخط ہی جعلی ہے ,جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا 12 ملین درہم قطر کیسے منتقل ہوئی؟ ۔
خبروں کے مطابق چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کی،جس دوران پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہا دبئی سٹیل مل کی دستاویزات موجود ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا دستاویزات عدالت میں تو موجود نہیں ، وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا وزیر اعظم نے کہا یہ وہ ذرائع ہیں جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے۔ عدالت کو بتایا گیا دبئی بینک کا قرضہ 26 ملین درہم تھا ادا صرف 21 ملین درہم ہوا ، دبئی فیکٹری کی فروخت سے طارق شفیع کو کچھ نہیں ملا جبکہ دبئی فیکٹری طارق شفیع کے نام تھی، وزیر اعظم اپنے بیانات میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کیا وزیر اعظم نے عدالت میں بھی جھوٹ بولا ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا دستاویزات بتاتی ہیں کہ دبئی کا معاملہ میاں محمد شریف کا تھا ، اس میں بچوں کا نام نہیں ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا 12 ملین درہم طارق شفیع نے قطر کیسے منتقل کیے ، کیا یہ رقم فروخت کے وقت طارق شفیع کو منتقل ہوئی ، جسٹس عظمت سعید شیخ نے پوچھا فروخت کے معاہدے پر کس کے دستخط تھے۔ نعیم بخاری نے بتایا معاہدے پر طارق شفیع کے دستخط تھے۔ جسٹس اعجاز نے کہا لگتا ہے کہ طارق شفیع کے دستخط کسی دوسر ے شخص نے کیے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی تقریر میں بھی قطر کی سرمایہ کاری کا ذکر نہیں ہے۔ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے ، صادق اور امین نہ رہنے پر وزیر اعظم نااہل ہو گئے ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا آپ نے اپنے انداز سے اپنا کیس پیش کیا ہمیں کچھ پوچھنا ہو گا تو آپ سے پوچھ لیں گے