2019 ,نومبر 1
کہانی کچھ یوں ہے کہ
ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ، اور ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے کہا.
”کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟
“طوطے نے کہا....... لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
سوئے اتفاق کہ جس وقت طوطا طوطی یہ باتیں کر رہے تھے ، عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،
اس نے طوطے اور طوطی کی بات بغور سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو ؟ لہٰذا آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ، میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی اس محبت بھری دعوت سے طوطا طوطی کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،
رات گزار کر کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی کو پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو ؟
طوطی پریشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،!
الو یہ سن کر ہنسا.....اور بولا.
یہ تم کیا کہ رہی ہو ؟ تم تو میری بیوی ہو.
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،
دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا
” چلو ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت میں چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں .قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے .
،قاضی نے اُلو کے دئیے ہوئے "دلائل" کی روشنی میں اُلو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،
طوطا عدالت سے باہر نکلا اور اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،
”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہو اپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“
طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا
”اب کیوں میر زخموں پر نمک چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے کہا.
نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے-
طوطا یہ سنکر حیران رہ گیا. بولا
تو جب تم یی بات جانتے ہو اور تسلیم بھی کررہے ہو. تو پھر طوطی پر تمہارا دعویٰ اور عدالت میں چلنا, یہ سب کیوں تھا ؟
الو نے کہا.......بات یہ ہے کہ جب تم طوطی سے باتیں کررہے تھے. کہ یہ بستی جس قدر ویران و وحشت زدہ ہے. تو تم نے طوطی سے کہا تھا. کہ لگتا ہے. کہ یہاں سے کسی اُلو کا گزر ہوا ہے.
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے. بلکہ بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب انکے اندر سے انصاف اٹھ جاتا ہے ......!
آج مملکتِ پاکستان کے حالات پر یہ کہانی ہوبہو صادق آتی ہے. اُلو نامی پرندہ جو کہ یمارے ہاں ویرانی و وحشت اور نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے. لیکن دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چائنا میں یہ عقلمندی کی علامت مانا جاتا ہے. لوگ اسکو گھروں میں پالتے ہیں. کیونکہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے اس ملک میں ویرانی اور نحوست کا راج اسلیے نہیں ہے. کیونکہ وہاں کرپشن کی سزا میں مزکورہ شخص کو گولی ماردی جاتی ہے. اور طرفہ تماشہ یہ کہ گولی کی قیمت بھی مرنے والے کے لواحقین سے وصول کی جاتی ہے. ہمارے ہاں کی طرح انکو جیلوں میں عیش نہیں کروائے جاتے.
مملکتِ پاکستان کے کرتا دھرتا یہ سمجھ کر بیٹھے ہیں. کہ ہم ایٹمی قوت ہیں. ہم پر حملہ آور ہونا کسی کے بس کی بات نہیں ہے. افسوس ہے انکی سوچ پر. کیونکہ آجکی جدید دنیا میں جنگوں کے انداز مکمل و یکسر تبدیل ہوچکے ہیں.
آج کے دور میں جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ نفسیاتی بنیادوں پر لڑی جارہی ہیں. مدِ مقابل ملک کو قرضوں کے جال میں جکڑ کے ,اسکو قحط سالی یہ آبی وسائل کی کمی کا شکار بناکر عوام میں مایوسی پھیلا کر, اپنی ثقافت گھر گھر پھیلا کر,عریانی و فحاشی کو پھیلاکر, مختلف بیماریوں کے وائرس چھوڑ کر, میڈیا اور صحافیوں کو خرید کر لڑی جارہی ہیں.
ہمارے ہاں اسوقت یہ تمام مصیبتیں بدرجہ اتم موجود ہیں. اور پاکستان میں تو ہر دوسرا تیسرا غدار ہے, کافر ہے, یہ پھر امریکی, یہودی یہ راء کا ایجنٹ مشہور ہے.
تاہم ہمارے اربابِ اختیار کو ان تمام حالات سے کوئی بھی دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی. انکی باڈی لینگویج یہی بتارہی ہے. کہ وہ وقت گزارے کی نورا کشتیوں سے مطمئن ہیں. اس مملکت میں آج انصاف جس انداز سے نادر و ناپید ہے. وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے.
ملک کو دیمک کی طرح کھانے والے جن پر اربوں ڈالر کی کرہشن کے الزامات ہیں. وہ جیل میں عیش کررہے ہیں. انکو کوئی انگلی تک لگانے کی ہمت نہیں کرسکتا. جبکہ عوام الناس کا جو حشر تھانوں میں ہورہا ہے. جس طرح لوگ تشدد سے مررہے ہیں. وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے.
ہر قسم کے جرائم عام تھے اور ہیں.اکثر پولیس کی چیرہ دستیوں سے سوشل میڈیا بھرا ہوتا ہے. بچوں کے اغواء ریپ اور قتل کے واقعات ہورہے ہیں. لیکن کوئی اشک شوئی نظر نہیں آرہی ہے.
مہنگائی کمر توڑ ہے. نئے پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے. ایسا کبھی کرپٹ پاکستان میں بھی نہیں ہوا.ساٹھ روپے کا ڈالر, چار روپے بجلی فی یونٹ, بیرونِ ملک سے دو سو ارب ڈالر کی وآپسی, عدالتی اور تھانہ کلچر کی بہتری, یکساں نظامِ تعلیم, اور جون جولائی کی فیسوں کی معطلی, جیسے وعدے اور جو خوشنما خواب دھرنے میں دکھائے گئے تھے. انکی بیھانک تعبیر ہمارے سامنے ہے. آٹا, دال, چینی, چاول, مصالحہ جات, ادویات غرض کہ ہر شئے کی قیمت آسمان پر گئی ہے. گیس کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک اضافہ, بجلی کی قیمتیں ایک سال میں چار مرتبہ بڑھائی گئیں ہیں.
اور تماشہ یہ کہ جن شخصیات کو ان مصیبتوں کا زمہ دار قرار دیا جارہا ہے. ان میں سے کسی ایک سے بھی ابتک ایک ٹیڈی پائیہ الٹا ان پر جیلوں میں معقول خرچہ آرہا ہے. جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے. کہ ان افراد کے خلاف کوئی معقول ثبوت موجود نہیں ہیں. بلکہ انکو ایسٹیبلشمنٹ سے پنجہ آزمائی کی سزا مل رہی ہے.
کچھ ہی دن ہوئے صنعتکاروں پر تین سو ارب روپے معاف کیے گئے ہیں. اے آر وائی کے متعلق مشہور ہورہا ہے. کہ ان پر کئی ارب کا ٹیکس معاف کردیا گیا ہے. یہ سب معاف کرنے والے جو نواز شریف کو کرپشن پر کہتے تھے. کہ یہ پیسہ تمہارے ناپ کا پیسہ تھا. ابتک یہ نہیں بتاسکے. کہ یہ پیسہ کس کے باپ کا تھا.
لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوئے ہیں. عدالتیں طاقتورں کی داشتہ کا رول ادا کرریی ہیں. انکی بے بسی اور بے اوقاتی ہر خاص و عام پر عیاں ہے. کبھی جج کی ویڈیو دامنے آتی ہے. تو کبھی چئیرمین نیب کی غیر اخلاقی ویڈیو آتی ہے. ججز پر دباؤ میں فیصلے دینے کے الزامات ہیں. یہ کسی بڑے آدمی کو کیا سزا دینگے. جون جولائی کی فیسیں تک ختم نہیں کرواسکیں.
حکومت کے حامی فرمارہے ہیں. کہ حکمران کو کچھ وقت دیا جائے. انکو ورثے میں خزانہ خالی اور بدحال معیشت ملی ہے.
تو حضور کوئی بتائیگا . کہ کب ہمارا خزانہ بھرا ہوا تھا ؟
اسی خزانے کو بھرنے کیلیے عوام کا لہو پہلے بھی نچوڑا جاتا تھا. اور اب بھی نچوڑا جارہا ہے. جبکہ اسی خزانے سے اربابِ اقتدار و اختیار کی لاکھوں کی تنخواہیں مراعات اور مہنگے برانڈ کی لگژری کاریں خریدی جاتی ہیں. ملک اگر مشکل میں ہے. تو کسی وزیر مشیر نے اپنی مراعات کی کمی یہ قربانی دینے کی پیشکش کی ؟ صدر مملکت 13 لاکھ تنخواہ لیتے ہیں. کوئی بتائیگا. کہ وہ کرتے کیا ہیں ؟ جس سرکاری وزیر نے یہ بکواس کی تھی. کہ عوام ایک وقت کھائیں. دوسرے وقت فاقہ کریں. اسی کے متعلق اسی سوشل میڈیا پر بتایا گیا ہے کہ انکے لیے 90 لاکھ کی گاڑی امپورٹ کی گئی ہے.
ایسے لوگ جو اہنی چادر سے بڑھکر پیر پھلائیں. انکو اپنی بھوکی ننگی عوام کو دیکھکر شرم نہ آئے. ابلتے گٹر اور ٹوٹی سڑکیں جنکی پہچان ہو.جہاں بارش کے پانی میں دوڑنے والا کرنٹ عوام کی جان لے لے. اور جنکو اپنے معاملات سدھارنے کے بجائے آپس میں الزام تراشیاں کرنے اور کشکولِ گدائی در در لیکر پھرنے کی عادت ہو. وہ دس لاکھ کا سوٹ پہنیں یہ دو کوڑی کی قمیض شلوار, دنیا انکو بھکاری ہی کہتی ہے. اور بھکاری کتنا ہی مہنگا ہتھیار ہاتھ میں رکھ لے. اسکا بھوکا پیٹ اسکی بے بسی پر ہنسنے کیلیے کافی ہے.
ہمارے جذباتی ملک کی ایٹمی طاقت سے متعلق کلپس سوشل میڈیا پر سینڈ کرکے دنیا سے فرمارہے ہیں. ہماری طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھنا. ورنہ آنکھ نکال دینگے. کس کی آنکھ نکالینگے ہم. کیونکہ جنکو آنکھ نکالنے کی دھمکیاں ہم دے رہے ہیں. انکے ملکوں میں تو ہمارے حکمراں طبقات کی آل اولادیں جائیدادیں مال دولت سب رکھا ہوا ہے. اور ہمارے حکمران قرضوں کے حصول کیلیے انھی کے در کے گداگر بنے رہتے ہیں.
ناقابلِ تسخیر دفاع ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ قوموں کو بھی ناقابلِ تسخیر بناکے حاصل کیا جاتا ہے.
کسطرح ؟
انصاف فراہم کرکے, انکو یکساں نظامِ زندگی عطا کرکے, انکو احساسِ تحفظ فراہم کرکے ,زندگی کے بنیادی حقوق فراہم کے , تاکہ ان میں مملکت کیساتھ محبت وفاداری اور احسانمندی کے جذبات پیدا ہوں.
کیونکہ اگر صرف ہتھیار ہی ناقابلِ تسخیر دفاع کی ضمانت ہوتے. تو وہ سوویت یونین جسکی سلطنت آدھی دنیا پر محیط تھی. بھوک ناانصافی اور غربت کی بناء پر 16 ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتا. اور اسکے وہ علاقے جہاں ایٹمی ہتھیار نصب تھے. جنکے متعلق فورسز کو حکم تھا. کہ اگر کوئی سویلین ان علاقوں میں نظر آئے. تو اسے فوراً ہی گولی ماردی جائے. وہ ہتھیار بے یار و مددگار نظر نہ آتے. اور روسی عوام صدر میں واقع پیراڈائز ہوٹل پر مختلف ٹکے کوڑیوں کی اشیاء بیچنے اور انکی عورتوں میں کئی جسم فروشی کرنے پر مجبور نہ ہوتیں.