یوم باب الااسلام محمد بن قاسم

2017 ,جون 6



لاہور(مہرماہ رپورٹ/مولانا حسین احمد اعوان):ہر سال 10 رمضان المبارک کو ملک بھر میں یوم باب الااسلام انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن اسلام کے عظیم سپہ سالار فاتح سندھ محمد بن قاسم کی برصغیر میں آمد کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے ایک مسلمان بیٹی کی پکار پر حجاز سے دیبل آکر قلیل لشکر اور بے سروسامانی کے عالم میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو شکست فاش دی اور سندھ پر اسلام کا ہلالی سبز پرچم لہرا دیا۔ تاریخی روایات کے مطابق مسلمان تاجروں کے عزیزواقارب بمعہ اپنے مال و اسباب کے جزیرہ العرب سری لنکا سے واپس عرب جا رہے تھے جبکہ ان کا بحری جہاز دیبل کی بندرگاہ (کراچی) کے پاس پہنچا تو سندھی قذاقوں نے ان تاجروں کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔ اس موقعہ پر ایک مسلمان بچی نے زور سے پکارا کے اے حجاج ہماری مدد کو آو۔ یہ واقعہ اسی جہاز میں سفر کرنے والے ایک مسلمان نے جاکر اس وقت عرب کے فرماں رواں حجاج بن یوسف سے بیان کیا۔ حجاج بن یوسف یہ واقعہ سن کر سخت غصے میں آ گئے اور فرط جذبات میں زور سے کہا بیٹی میں آ رہا ہوں.... میں آرہا ہوں۔

چنانچہ فوری طور پر حجاج بن یوسف نے اپنے سترہ سالہ نوجوان بھتیجے کو جن کا نام محمد بن قاسم تھا مسلمان لشکر کا سپہ سالار بناکر قیدیوں کی بازیابی کیلئے سندھ روانہ کر دیا۔

محمد بن قاسم کا لشکر انتہائی تیزی کے ساتھ سندھ کی بندرگاہ دیبل جواب کراچی کے نام سے مشہور ہے وہاں آ پہنچا اور اس وقت سندھ کے ہندو حاکم راجہ داہر کو پیغام بھیجا کہ وہ ڈاکوں سے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان تاجروں کی عورتیں اور بچے بازیاب کرکے ان کے حوالے کر دے راجہ داہر جو طاقت کے نشہ میں چور تھا اس نے اس بات پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ لشکر جمع کرکے مسلمان فوج کے مقابلہ کی تیاری شروع کر دی۔

محمد بن قاسم کی فوج جو جذبہ جہاد سے سرشار اور اللہ تعالیٰ کی حکمرانی پر یقین رکھنے والی تھی انتہائی جرات اور بہادری کے ساتھ راجہ داہر کی فوجوں کا مقابلہ کیا اس جنگ میں پہلی مرتبہ اسلامی فوج نے منجیقوں کا استعمال کیا اور بڑے بڑے پتھروں سے شہر کے قلعہ کی فضیل اور گنبد جس پر جھنڈا لہرا رہا تھا تباہ کر دیا ہندوں کا عقیدہ تھا کہ اگر ان کا جھنڈا گر گیا تو شکست ان کا مقدر ہے لہذا گنبد تباہ ہونے سے جوں ہی جھنڈا گرا ہندو فوج بھاگ نکلی اور شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ محمد بن قاسم تیزی کے ساتھ دیبل سے آگے بڑھا اور سندھ کا تمام علاقہ فتح کرکے ملتان تک آ پہنچا ابھی وہ اپنے پاوں مضبوط کرکے اسلامی مملکت قائم کررہا تھا کہ بعض وجوہ کی بنا پر حجاج بن یوسف نے اسے واپس بلا لیا وگرنہ محمد بن قاسم اسی دور میں انتہائی تیزی کے ساتھ پنجاب اور دہلی تک کا علاقہ فتح کرنے کی پوزیشن میں تھا اور اگر اس دور میں پنجاب اور دہلی کا علاقہ فتح ہو جات تو آج برصغیر کی تاریخ کچھ اور ہوتی ۔ محمد بن قاسم اسلام کا ایک عظیم سپوت تھا جس نے ہندوستان میں مختصر عرصہ قیام کے دوران ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ ہزاروں برس سے کفر کے اندھیروں میں بھٹکا ہوا یہ ہند کا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ محمد بن قاسم کی آمد کے وقت ہندوستان کفر کا گڑھ تھا۔ ہندو ذاتوں اور چھوٹے رسم و رواج میں قید تھے برہمن، ویش، کھشتری، اور شودر کی تقسیم نے دراصل انسانیت کو بری طرح جکڑ کر انسانی جسم کو تقسیم کر رکھا تھا شودر کو جانوروں سے بدتر گنا جاتا اگر کسی برہمن کی آواز شودر کے کان میں پڑ جاتی تو اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا اور اسی طرح اگر کسی شودر کا سایہ برہمن پر پڑ جاتا تو شودر کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔

محمد بن قاسم نے ہندوستان آکر اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور رسول رحمت اللعالمین کی رسالت کا ڈنکا بجایا۔ اسلام کے آفاقی دین اور قرآن کے احکامات کے مطابق نظم و نسق چلانا شروع کیا تمام قوموں اور خصوصاً اقلیتیوں سے انتہائی درجہ حسن سلوک کا مظاہرہ کرکے انہیں اہم حکومتی امور میں شامل کیا۔

چنانچہ اسلام کی محبتیں اور برکتیں دیکھ کر ہزاروں سالوں سے جبر و تشدد ،ظلم ،بے انصافی ،استحصال اورذات پات کی زنجیروں میں جکڑی انسانیت کو زندگی کی نئی نوید ملی اور تیزی سے لوگ اسلام قبول کرنے لگے پھر آہستہ آہستہ پہلے سندھ مسلمانوں کا پایہ تخت بنا اور پھر جب مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو مسلمان صوفیا کرام اور بزرگان دین کی آمد بھی شروع ہو گئی اور برصغیر میں اسلام کی نورانی کرنیں جگمگانے لگیں۔

یوم باب اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے ایک عظیم مسلمان جرنیل کی عظیم فتح کی جس نے کفرستان ہند کے کروڑوں انسانوں کی تقدیر بدل دی اور کفر کا گڑھ اسلام کا عظیم مرکز بن گیا اور پھر برصغیر پر کم و بیش 850 سو سال مسلمانوں کی عظیم مملکت پر اسلام کا سبز ہلالی پرچم لہراتا رہا۔

آج جبکہ دنیا 21 ویں صدی کی دہلیز پر کھڑی ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام دنیا میں تیزی کے ساتھ یہود ونصاریٰ اور ہنود اپنے پنجے گاڑ چلے ہیں مسلمان ایک ارب تعداد میں ہونے کے باوجود ان کے آگے کمزور اور بے بس نظر آ رہے ہیں کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچنیا، عراق اور افغانستان عالمی سامراج کی سازشوں میں گھرے ہوئے ہیں کشمیر، اور چیچنیا لہو لہو ہیں مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا جا رہوا ہے لاکھوں عورتوں کے سہاگ اجاڑ دیئے گئے ہیں اور لاکھوں بچے یتیم اور بے آسرا ہو چکے ہیں۔ خصوصاً کشمیر اور چینچیا میں مسلمان بچیاں چیخ چیخ کر عالم اسلام کو پکار رہی ہیں مگر افسوس کے شاید عالم اسلام پر حکمرانی کی اکثریت بے حس اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور ان کے کانوں تک ان مظلوم مسلمانوں کی آواز نہیں پہنچ رہی آخر عالم اسلام کب بیدار ہوگا۔

تاریخ کے اوراق پر نظر ڈائیں تو ہمیں اپنے آپ کو مسلان کہلاتے شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ آج سے 1400 سال پہلے جبکہ ناسائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ تمام عالمی حالات پر نظر رکھی جا سکتی، نا میڈیا اور ذرائع آمدورفت آج جیسے تھے اور نا ہی جدید اسلحہ نامیزائل تھے ،نا ایف 16 طیارے اور نا ہی آج جیسا جدید ترین مواصلاتی نظام جس میں ہم اپنے گھر میں بیٹھ کر چند سیکنڈوں میں عالمی سطح پر ہونے والے واقعات اور تبدیلیاں دیکھتے ہیں ۔ ایک معصوم بچی نے دیبل کے سمندر میں مدد کیلئے پکارا اور اس کی آواز حجاز تک نہ صرف سنی گئی بلکہ حجاج بن یوسف نے اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے محمد بن قاسم کی قیادت میں مسلمان بچوں اور عورتوں کی مدد کیلئے لشکر بھی روانہ کر دیا مگر افسوس کہ آج تمام تر سہولتیں وسائل اور ذرائع ابلاغ کے باوجود 55 سے زائد اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے کانوں میں کشمیر، چیچنیا اور بوسنیا کی ہزاروں مسلمان بیٹیوں میں سے شاید کسی کی آواز نہیں پہنچ سکی کیا۔ عالم اسلام بے حس ہو چکا ہے۔

آئیں یوم باب الا اسلام مناتے ہوئے ان تمام اسباب پر نظر ڈالیں اور بحیثیت مسلمان اپنا احتساب کریں کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں یا برائے نام مسلمان۔ کیا محمد بن قاسم نے جو قدم اٹھایا تھا آج عالم اسلام میں ایک بھی محمد بن قاسم نہیں جو ایسا جرات مندانہ قدم اٹھائے اور کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچنیا اور عراق کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کو پہنچ سکے۔

خدارا اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور عالم کفر کی سازشوں کے خلاف متحد ہوکر انقلابی اقدامات کا آغاز کریں تاکہ ہم اکیسویں صدی میں واقعی باوقار قوم کی حیثیت سے داخل ہو سکیں اور 21 ویں صدی غلبہ اسلام کی صدی ہو۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا

اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

افسوس کہ شاید ہم ابھی تک اس شعر کے پیغام کو نہیں سمجھ سکے مگر حقیقت سے آخر کب تک نظریں چرائیں گے؟ ہمیں ایک دن ضرور اس پیغام کو سمجھنا بھی پڑے گا اور اس پر عمل بھی کرنا پڑے گا اور جب ہم جاگ گئے تو پھر ناصرف یہود و نصاریٰ کی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں گے بلکہ قبلہ اول کو بھی آزاد کرا سکیں گے اور آئندہ یہود و نصاریٰ کی ناپاک سازشوں کا راستہ بھی روک سکیں گے آئیں باب اسلام مناتے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں یہ پیغام پہنچائیں۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر

متعلقہ خبریں