میری قیمت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 19, 2021 | 17:58 شام

 یہ وہی ہال ہے۔ وہی درو دیوار ،وہی سٹیج،وہی فرنیچر کی سیٹنگ اور ڈیکوریشن ہے مگر حاضرین سارے کے سارے وہ نہیں جو دس سال قبل اس ہال میں موجود تھے۔ان میں سے چند ایک ضرور آج دس سال بعد بھی دِکھ رہے تھے۔ دس سال قبل میں نے حاضرین پر اچٹتی نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا۔ ”میرے پاس کیش کی صورت میں30ارب روپے موجود ہیں، ان پر میں سانپ بن کر نہیں بیٹھا ہوا ہوں،لوگوں کی ضرورت پوری کرتا ہوں مگر ان لوگوں کی جو واقعی مدد کے حقدار ہیں۔ آپ میں سے کوئی خود کو حقدار ثابت کر دے تو اس کی مدد بھی کی جا سکتی ہے۔

ہال میں 500نشستیں تھیں اور ساری کی ساری پُر تھیں۔ مدد کے لیے سامنے آنا بھی کوئی آسان نہیں ہوتا۔ دو تین منٹ ہال میں ایک خاموشی ہی رہی اور پھر تیسری چوتھی قطار سے ایک نوجوان اُٹھا۔ اس نے کہا کہ مجھے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے جو آپ کے لیے معمولی سی ہو گی“۔ ”کتنی چاہیے“۔میں نے پوچھتے ہوئے اسے سٹیج پر آنے کے لیے کا اشارہ کیا۔وہ کچھ جھجکتے ہوئے سٹیج پر آ گیا۔”دس کروڑ چاہئیں“۔ وہ سٹیج کی طرف بڑھا تو اس کے لیے مہمانوں سے ذرا فاصلے پر کرسی رکھوا دی گئی۔ ”کیا کرو گے؟ “ میں نے مختصر سا سوال کیا۔”گھر بناو¿ں گا، گاڑی لوں گا اور کوئی ایسا کاروبار کروں گا کہ کچن چلتا رہے“۔ نوجوان نے دس کروڑ کا موٹا موٹا حساب کتاب بتا دیا۔ ”اور کسی کو بھی ایسی معاونت کی ضرورت ہو تو سٹیج پر آ جائے“۔ میری اس پیشکش پر اسی لڑکے کی عمر کے دو لڑکے اور ایک لڑکی سٹیج پر آگئی۔ ان میں پہلے سے وہاں موجود لڑکے جیسی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ اس نے اپنا نام نوید بتایا تھا۔”نوید تم دس کروڑ کے بدلے کیا دے سکتے ہو؟“۔ ”جان کے سوا سب کچھ، سب کچھ، کچھ بھی“۔ ”نہیں جان دینے کی ضرورت نہیں“۔میں نے نوید کو تسلی دی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ ”آپ میں سے کوئی اس کی مدد کرنے پر تیار ہے تو بتائے، مشروط یا غیر مشروط “۔ ”میں تیار ہوں لیکن ایک شرط ہے“۔ کرسیوں کی پہلی قطار میں تقریباً درمیان میں بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔”کیا شرط ہے“۔ میں نے پوچھا ۔ ”یہ میرے پاپا ہیں ۔ ہمارا اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ اسی شہر کے نواح میں فیکٹری ہے ، اس میں آگ لگی جس پرفوری طور پر قابو پا لیا گیا لیکن کوئی ایسا کیمیکل جلا جس کے دھویں سے میرے والد کی بنائی جاتی رہی۔ بہت علاج کروایا۔ ڈاکٹروں نے آنکھوں کے ٹرانسپلانٹ کا مشورہ دیا یہ نوجوان ایک آنکھ میرے والد کو دے دے تو میں دس کروڑ روپے دینے کو تیار ہوں ۔ دونوں آنکھیں دے دے بیس کروڑ دیدوں گا“۔ نوجوان نے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک ساٹھ سالہ شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کراشارہ کیا کہ یہ میرے والد ہیں۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑکر اسے جھکنے کا اشارہ کیا ۔ اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ نوجون پھر گویا ہوا۔”میرے پاپا کہہ رہے ہیں کہ ہم نوید کو پوری رقم ابھی ادا کر دیتے ہیں۔یہ ایک یا دونوں ںآنکھیں پانچ سال بعد دے دے تاکہ یہ دنیا دولت کے ساتھ اچھی طرح دیکھ لے“۔ ہال کے درمیان سے ایک آواز ابھری ۔”میری والدہ کو گردے کی ضرور ت ہے حاضرین میں سے کوئی تیار ہو تو میں پچاس کروڑ روپے میں خریدنے کو تیار ہوں“۔ ایک امیر شخص نے دل کی بولی ایک ارب روپے لگا دی ۔ ”نوید کیا خیال ہے تم خود کتنے کے ہو“۔ میں نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ کئی ارب کا، شاید کئی کھرب کا بلکہ کسی بھی قیمت سے بالاتر ہوں۔ اس نے رُندھی آواز میں کہا اور سٹیج سے اپنی نشست کی طرف چل پڑا۔ اس سے قبل سٹیج پر اس کے بعد آنے والے لڑکے اور لڑکی چلے گئے تھے۔انسان کی سب سے بڑی دولت اس کا اپنا وجود ہے۔ دنیا کے بڑے امیر بیماریوں کے ہاتھوں کنگال ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ یونان میں جہازوں کی کمپنی کا مالک ارسطو اوناسس کی دولت ، شہرت اور طاقت کو دیکھ کر امریکی مقتول صدر کینڈی کی نوجوان اور خوبرو بیوہ نے اوناسس سے دوسری شادی کر لی تھی۔ اوناسس کی پلکیں آنکھوں پر اس طرح ماس بڑھنے سے آ جاتیں کہ دکھائی دینا بند ہو جاتا۔ دیکھنے کے لئے اسے ہاتھ کی انگلیوں سے آنکھیں کھولنا پڑتی تھیں ۔ اس سے کسی نے سب سے بڑی خواہش پوچھی تو جواب دیا۔”آنکھیں جھپک سکوں۔ اس کے بدلے میں اپنی آدھی دولت اور جائیداد ے سکتا ہوں ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ دے دوں گا۔“ آج دس سال بعد پھر وہی ہال ہے۔ تمام سیٹیں پُر ہیں۔ چند ایک لوگ وہی ہیں جو دس سال قبل جہاں آئے تھے۔وہ کسی اور موضوع پر موٹیویشنل لیکچر تھا۔ ”ایک بات کرنا چاہتا ہوں“۔جیسے ہی میں روسٹرم پر آیا ہال کے اندر سے ایک آواز ابھری ، جس کے ساتھ ہی ایک نوجوان کھڑا ہو گیااور سٹیج کی طرف آنے لگا۔ ہال میں موجود تمام نظریں اس پر جمی اور اس کی چال کے ساتھ متحرک تھیں ۔ وہ سٹیج پر آیا تو اس کی تصویر دھندلکے سے نکل کر واضح ہوتی چلی گئی۔ اس کی آنکھ کے اوپر سیاہ رنگ کا مسہ تھا۔ اس شکل کو میں بھول نہیں سکتا تھا،یہ نوید تھا۔ سر میں اپنے گھر سے اپنی گاڑی کیاسپورٹیج پر اس ہال میں آ یا ہوں ۔چار کنال کا ڈیفنس میں گھر ہے اور یہ سب آپ کی موٹیویشن پر محنت کرنے سے ممکن ہوا ہے۔میں دس سال قبل آئی ٹی کا سٹوڈنٹ تھا۔ محنت نہ کرنے سے فیل ہو رہا تھا۔آپ کا لیکچر سننے کے بعد محنت کی۔ فرسٹ کلاس میں پاس ہوا۔میرا جی پی اے4رہا ۔ اسی بنا پر ملازمت ملی اور پھر اپنی کمپنی بنا لی اور آج میراکاروبار واقعی اربوں بلکہ کھربوں روپے پر محیط ہے۔ نوید کی بات ختم ہوئی تو سامنے کی قطار کے دائیں بیٹھا ایک باریش بزرگ کھڑا ہو گیا۔ اس نے حیران کن انکشاف کیا۔ ”میرا نام جمال احسن ہے میں وہی ہوں جو دس سال قبل بینائی سے محروم ہو گیاتھا۔ اسی فیکٹری میں پھر کیمیکل میں آگ لگی ۔ میں اس کے دھویں کی زد میں آیا ، آنکھوں سے پانی بہنے لگا ۔ آستین سے آنکھیں صاف کیں۔ چھبن ہو رہی تھیں آنکھیں کھولیں تو نظر بحال ہو چکی تھی“۔نوید اور جمال نے اپنی اپنی بات ختم کی۔آج کا لیکچر ہوا۔لوگ اُٹھ کر جانے لگے۔کچھ میرے گرد جمع ہوگئے اور پھر یہ بھی اپنی راہ چل دیئے۔میں ہال سے نکلا تو نوید کو منتظر پایا۔وہ میرےقریب آیا اور بڑی آہستگی سے کہا۔”میں ہر ماہ تیس لاکھ روپیہ اللہ کی راہ میں دے دیتا ہوں۔یہ میری اللہ سے تجارت ہے جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوا۔“