قلعہ خیر گڑھ اختیار خان کے بیٹے حاجی خان نے 1775ء میں تعمیر کرایا تھا اور اس کا نام قلعہ خیر گڑھ رکھا۔ یہ قلعہ دفاعی وجوہات کی بنا پر تعمیر ہوا تھا۔ تمام قلعہ کچی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ اس قلعہ کے اندر ایک پکا تالاب اور صحن میں رہائشی مکانات تھے، ان میں کچھ پکے بھی تھے۔ قلعہ کی فصیل کے کچھ حصے پکے تھے۔داخلی پختہ دروازہ تھا، جس کے اوپر رہائشی حصہ تھا۔ یہ قلعہ گول شکل میں ہے اور چاروں طرف سے 170فٹ تک اندر کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ جس کے چاروں طرف آٹھ پہلو برج ہیں۔ یہ قلعہ دراوڑ قلعے سے تقریباََ 64 کلوم
یٹر کی دوری پر واقع ہے۔یہ قلعہ امتداد زمانہ کے علاوہ پانی کی کمی کی وجہ سے ویران ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ مرمت نہ ہونے کی وجہ سے منہدم ہو گیا اور اب صرف ایک ڈھیر سے زیادہ نہیں ہے۔
صحرائے چولستان میں قلعہ خیر گڑھ آبادی سے میلوں دور ایک ویرانے میں لاغر و نحیف سا کھڑا ہے ایسےلگتاہےقلعےکے برج عنقریب روہی کی ریت میں ملنے والے ہیں ماضی کی کہانی سناتا یہ چھوٹا سا قلعہ دیراوڑ کے قلعے سے 64 میل دور مغرب میں واقع ہے
بہاولپور گزیٹر کے مطابق یہ قلعہ اختیار خان کے بیٹے حاجی خان مندھانی داؤد پوتہ نے 1776 میں تعمیر کرایاجس کانام قلعہ خیر گڑھ رکھا تھایہ قلعہ بھی چولستان کے دیگر چھوٹے قلعوں کی طرح دفاعی وجوہات کی بناء پر تعمیر کیا گیا تھا
کہتے ہیں کہ اس قلعے میں جنات کا بسیرا ہے، یہ تباہ حال قلعہ نہ صرف ایک ویرانے میں واقع ہے جہاں کسی آدم زاد کی رہائش نہیں ہے بلکہ یہاں جانوروں کی آلائشیں بھی بکثرت موجود ہیں، قلعے کا شمال مغربی برج آسیب زدہ ہے اور یہاں پر کچھ لوگوں نے چلہ کشی بھی کی ہوئی ہے
یہ تمام قلعہ کچی اور پکی اینٹوں سے بناہوا تھا اور اس کے اندر ایک پکا تالاب بھی تھا قلعہ کی فصیل کے کچھ حصے پکے بھی تھے داخلی پختہ دروازہ تھا جس کے اوپر رہائشی حصہ بھی تھاقلعے کا داخلی دروازہ تو اب بھی قدرے بہتر حالت میں ہے جس پر پکی اینٹوں سے بنا خوبصورت ڈیزائن آج بھی دیکھا جا سکتا ہےاس مستطیل قلعے کے چاروں کونوں میں مٹی اور اینٹوں سے بنا ایک ایک برج ہے جو تعمیری لحاظ سے خود ایک شاہکار ہیں انکے خوبصورت گول گنبد دیکھنےوالوں کو پہلی ہی نظر میں مبہوت کر دیتےہیں اب قلعے کے درمیان میں ریت اور مٹی کے سوا کچھ نہیں لیکن اسکی دیواریں آج بھی قائم ہیں اور ہمارے اربابِ اختیار خصوصاً “محکمہ آثارِ قدیمہ” کی بے حسی اور لاپرواہی پر منہ چڑا رہی ہے