جنرل راحیل شریف : ہم شرمندہ ہیں ،پاکستانی قوم ایک بڑی سعادت سے محروم ہو گئی
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع نومبر 27, 2016 | 09:04 صبح

لاہور(شیر سلطان ملک)ہم بھی عجیب و غریب رویے اور طرز عمل رکھنے والی قوم ہیں ، واہگہ بارڈر پر انڈیا کی پریڈ ہو یا کسی سیاسی جماعت کا کوئی جلسہ ہو اسے ہم تفریح کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں وہاں جانے کے لیے کئی دن پہلے پلاننگ کرتے ہیں ۔ مگر قومی مفادات کو قربان کیا جا رہا ہو یا قومی مفادات کا تحفظ کرنے والے قومی ہیرو کو نظر بند رکھا جا رہا ہو ، ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ اس میں دل چسپی اور تفریح کا کوئی سامان نہیں، فیس
کچھ ایسی ہی غفلت جنرل راحیل شریف کے بارے میں پاکستانی قوم سے ہوئی ہے جو جب آرمی چیف تھے تو پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں انکے بارے تعریفی بینر اور اشتہارات لگے، جنرل صاحب سے یہ درخواست بھی کی گئی کہ خدا را وہ اس قوم کو چھوڑ کر نہ جائیں اور اپنے عہدہ میں توسیع لے لیں۔ لیکن یہی راحیل شریف جب رخصت ہوئے تو انہیں وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت کرنے والے میاں نواز شریف چند سیاستدان اور بیوروکریٹ تھے۔ جب کہ پاکستانی قوم جس نے تین سال تک راحیل شریف کو ہیرو بنائے رکھا اس 20 کروڑ آبادی والی قوم کے ایک لاکھ افراد کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اسلام آباد میں آرمی ہیڈکوارٹر سے وزیرا عظم ہاؤس جانیوالے راستے پر کھڑے ہو جائیں اور جب جنرل راحیل شریف وہاں سے گزریں تو یہ لوگ انکو سیلوٹ کر دیں اور ان پر چند پھول نچھاور کردیں۔ لیکن افسوس کسی نے بھی اس بارے میں سوچا تک نہیں ۔ اللہ کے بندو اسلام آباد نہ جاتے اپنے اپنے شہر اور گلی محلے میں راحیل شریف کی تصویر رکھ کر اس پر پھولوں اور پتیوں کی بارش کر دیتے ۔ اور علامتی طور پر اس دلیر اور بہادر افسر کو الودع کہہ ڈالتے۔
یہ راحیل شریف کا حق اور پاکستانی عوام کا قومی فریضہ بنتا تھا کیونکہ نہ صرف راحیل شریف نے نا مساعد حالات میں اپنی ذمہ داری شاندار طریقہ سے انجام دی بلکہ اندرونی سطح پر دہشت گردوں کا صفایا کیا اور بیرونی سطح پر راء اور بھارتی افواج کو بھی لگام ڈالے رکھی۔
اور پھر راحیل شریف کا تعلق تو شہیدوں کے خاندان سے تھا ۔ جس خاندان کے حصے میں دو نشان حیدر آئے اس خاندان کے بیٹے کو پاکستانی قوم نے حقیقتا ً اچھے انداز میں رخصت نہیں کیا۔ کم از کم اس طرح سے نہیں جس کے وہ مستحق تھے۔
یہ فرق ہوتا ہے باشعور اور سوئی ہوئی غافل اقوام میں ۔