2019 ,اگست 29
”جھانسی ہماری ہے، خبردار ! اسے ہاتھ نہ لگانا۔“ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی یہ آواز آج بھی بندیل کھنڈ کی پہاڑیوں میں گونج رہی ہے۔ اہل ہنود کا یہ طریقہ ہے کہ اپنے مردے کو چتا کی نذر کر دیتے ہیں۔ چتائیں ہزاروں سال سے جلتی آئی ہیں اور بجھتی آئی ہیں۔ جب رانی جھانسی فرنگی فوجوں کا مقابلہ کرتی ہوئی میدان جنگ میں موت کے گھاٹ اتر گئی تو اسے بھی گھاس پھونس کی چتا پر شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔ چتا بجھ گئی، رانی راکھ کا ڈھیر ہو گئی، لیکن وہ شعلہ آج بھی زندہ ہے۔ جنگ آزادی کے مجاہدوں نے ظلم کی سیاہ اور صبر آزما راتوں میں اسی شعلے کی تابانی سے اپنی راہیں روشن کیں۔ اور ذہنوں کو جلا بخشی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے نام سے خاک و خوں میں آلودہ ان گنت مرقعوں کے باب کھلنے لگتے ہیں۔ آسمان سے خون کی بارش ہو رہی ہے۔ دہلی محاصرے میں ہے۔ بنارس میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ کان پور اور سکندر باغ (لکھنؤ) میں قتل عام جاری ہے۔ ہزاروں جانباز آزادی کا پرچم لہراتے ہوئے اٹھتے ہیں اور ڈھیر ہوتے جاتے ہیں۔ شہر شعلہ زار بنے ہوئے ہیں۔ کان پور، دہلی، لکھنؤ، بریلی، جھانسی، باندہ اور فرخ آباد اجڑتے جا رہے ہیں۔ آخری معرکہ جھانسی کا تھا۔ وہ بھی ختم ہوا اور اب ناکامیوں کے پس منظر میں ایک شعلہ نظر آ رہا ہے، یہ جھانسی کی رانی ہے۔
بہادر وہ ہے، جس کی عظمت کا اعتراف دشمن بھی کریں جب رانی جھانسی کا نام آتا ہے تو انگریز جنرلوں سے لے کر انگریز مورخوں تک سبھی کے سر احترام سے جھک جاتے ہیں۔ 1857ءکی یہ ہیروئن اپنی دانائی، دلیری، انتظامی صلاحیت اور جنگ جویانہ صفات کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ رانی جھانسی، جس کا نام بچپن میں منو بائی تھا اور بعد میں لکشمی بائی کے نام سے معروف ہوئی۔ جھانسی کے راجہ گنگا دھرا راﺅ کی دوسری بیوی تھی۔ گنگا دھر راﺅ نے 1853ءمیں وفات پائی۔ اولاد تھی نہیں۔ اس لیے اس نے اپنے خاندان کے ایک لڑکے انند راﺅ کو متبنی بنا لیا۔ وفات سے ایک دن پہلے گنگا دھر راﺅ نے اس کی اطلاع وائسرائے ہند لارڈ ڈلہوزی کو بھی کر دی تھی۔ وائسرائے نے اسے متبنیٰ نہ کیا۔ کیونکہ پالیسی تو یہ تھی کہ جس قدر جلد ممکن ہو، ایک ایک کر کے تمام دیسی ریاستوں کو انگریزی سلطنت میں شامل کر لیا جائے۔ آخر وہی ہوا۔ ریاست بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو پانچ ہزار روپے ماہوار پنشن مقرر ہو گئی۔ البتہ شوہر کی ذاتی جائیداد اس کے قبضے میں رہی۔
کمپنی سرکار کی اس غداری اور چیرہ دستی پر رانی جھانسی کی آنکھوں میں خون اتر آیا لیکن اس نے نہایت دانائی سے کام لے کر اس شعلے کو دبائے رکھا، تاکہ قبل از وقت بھڑک کر رہے سہے اثاثے کو بھی راکھ نہ کر دے۔ رانی نے تین سال نہایت صبر و سکون سے گزارے۔ اور اپنی ذاتی ریاست کا انتظام چلا کر غیر معمولی ذہانت اور صلاحیت کار کا ثبوت دیا۔
ایک مورخ ڈی بی پرسنیس رانی لکشمی بائی کے معمولات زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وہ اپنے روزمرہ معمولات میں نہایت سخت تھی۔ ہر روز دربار لگاتی۔ حافظہ اتنا تیز تھا کہ ساڑھے سات سو سرداروں میں سے، جو بلا ناغہ دربار میں حاضری دیتے تھے۔ اگر کوئی سردار کسی دن حاضر نہ ہوتا تو دوسرے دن جواب طلب کر لیتی۔ تحائف ملتے تو خادموں میں تقسیم کر دیتی۔ مردانہ لباس پہنتی تھی۔ گہرے نیلے رنگ کا کوٹ، پاجامہ اور ٹوپی اس کا پہناوا تھا۔ کمر میں دوپٹہ باندھتی، ساتھ شمشیر لٹکتی ہوئی۔ زنانہ لباس سے بھی پرہیز نہ تھا۔ احکام کبھی منشی سے لکھواتی کبھی خود لکھتی۔ ہر بات نپے تلے اور سادہ الفاظ میں ہوتی۔ رحم دل اتنی تھی کہ ایک بار ہزاروں فقیروں کو سردی میں ٹھٹھہرتا ہوا دیکھا تو شہر کے سارے درزی بلوائے اور چار دن کے اندر ہی اندر کپڑے اور کمبل ان کے لیے بنوائے اور تقسیم کئے۔ میدان جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کی نگرانی خود کرتی۔
جون کے اوائل میں جب انقلابیوں نے جھانسی میں انگریزوں کے خلاف مورچہ قائم کیا تو انگریز جنرل سرہف روز یہ مورچہ توڑنے کے لیے جھانسی کی جانب روانہ ہوا۔ برطانوی فوج کے اعلیٰ کمانڈر سرکولن اور وائسرائے لارڈ کیننگ کی ہدایت تھی کہ پہلے تو راجہ چرکھاری کو تانیتا ٹوپے کے پنجے سے بچایا جائے لیکن سرہف کی اصل خطرہ جھانسی میں نظر آ رہا تھا۔ برطانوی فوجیں آگے بڑھیں تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ راستے کے درخت بھی کاٹ کر گرا دئیے گئے تھے۔ تاکہ انگریز سپاہیوں کو سایہ بھی نہ ملے۔ ادھر سے رانی جھانسی نے للکارا۔
”خبردار ! اس سرزمین پر پاﺅں بھی نہ رکھنا۔“ رانی نے جو فنون سپہ گری، میں طاق تھی۔ خود اپنی فوجوں کی قیادت کی۔ سرہف روز کا بیان ہے کہ مخالف فوجوں میں ”عورتوں کو بھی دیکھا گیا جو توپ خانوں میں کام کر رہی تھیں اور اسلحہ ڈھو رہی تھیں۔“ سرفروشی اور جانبازی کا یہ جذبہ، کہ عورتیں بھی میدان جنگ میں نکل آئیں۔ کسی معمولی قیادت کے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جھانسی کی لڑائی صرف قلعہ میں بند ہو کر نہیں لڑی گئی بلکہ گلی کوچوں میں بھی گھمسان کا رن پڑا۔ انگریزسپاہیوں پر صرف گولہ باری نہیں ہوئی۔ ان پر پتھر اور لکڑیاں تک پھینکی گئیں۔ 23مارچ کو رات گئے، طبل جنگ پر چوٹ پڑی جنگ دوسرے دن بھی جاری رہی۔ انگریز فوجیں جھانسی کے قلعہ پر ساٹھ ساٹھ پونڈ کے گولے برسا رہی تھیں۔ جو رات میں چھوٹی گیند کی طرح نظر آتے تھے اور دن کی روشنی میں نظر بھی نہ آتے تھے۔ مجاہدوں کے توپ خانے غلام غوث خاں کے ہاتھوں ساری انگریزی فوج پر بھاری تھے۔ کتنی ہی بارنشیب و فراز آئے، کبھی ایک کا پلہ بھاری رہا۔ کبھی دوسرے کا۔ انگریزی فوجیں جدید ترین اسلحہ اور حکمت عملی سے لیس تھیں لیکن جھانسی کی لڑائی نے یہ ثابت کر دیا کہ حریت کا جذبہ دنیا کا سب سے کارگر اسلحہ ہے۔ یہ معرکہ نو دن تک جاری رہا، کہ جھانسی کی مدد کو تانتیا بھی پہنچ گیا۔ اسے کالپی میں رانی جھانسی کا خط ملا تھا اس کے پاس 22ہزار جوانوں کی فوج تھی لیکن دریائے بنتوا کے کنارے تانتیا کو شکست ہوئی۔ پندرہ سو انقلابی مارے گئے اور تانتیا کی توپیں انگریزوں کے ہاتھ لگیں۔ لیکن رانی کی قیادت میں انقلابیوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری۔ کئی انگریز جنرل قلعہ کی دیوار چڑھنے کی کوشش میں کھیت رہے۔ اور انگریزی فوجوں کو ایک بار تو پسپا ہونا پڑا لیکن عین اس مرحلے پر چند لوگوں کی غداری سے قلعہ کے صدر دروازے پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ رانی جھانسی نے اپنی سرزمین کو شعلوں میں لپٹا ہوا دیکھا اور چند جوانوں کو ساتھ لے کر دشمنوں کی تلواروں اور سنگینوں کے درمیان کود پڑی۔ بڑا کشت و خون ہوا۔ دشمن فوجوں نے شہر کو تہس نہس کر کے جو بھی ہاتھ آیا، ہلاک کر دیا۔ بہادر سردار خدا بخش اور غلام غوث شہید ہو گئے۔ رات گئے، رانی جھانسی بچے کھچے سپاہیوں کو ہمراہ لے کر شہر سے نکلی اور انگریز دربانوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر صاف نکل گئی۔ وہ کالپی میں انقلابیوں کو جمع کرنے کے لیے جا رہی تھی۔ جھانسی کے تخت کا متبنیٰ اس کی پیٹھ پر تھا اور کمر میں مجاہدوں کا زیور وہی ایک تلوار تھی۔ ساری رات اور تمام دن کی مسافت 110میل طے کر کے وہ نصف شب کو کالپی پہنچی۔ راستے میں اس نے بوکر کے فوجی دستے کو شکست دی تھی۔ کالپی میں رانی جھانسی اور شری راﺅ صاحب پیشوا نے نیا مورچہ قائم کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔
ادھر جھانسی کو تاراج کر کے سرولیم روز نے مزید پیش قدمی کے لیے فوج کی کمان بریگیڈئیر وہٹ لاک کے حوالے کر دی تھی۔ وہٹ لاک نے باندا کے نواب کو شکست دے کر راﺅ صاحب کردی کی جانب رخ کیا تھا۔ یہاں بھی لوٹ مار کر کے وہ مہوبہ پہنچا۔ دوسری طرف کالپی میں پیشوا کی فوجوں، رانی جھانسی کے سپاہیوں، تانتیا توپی، نواب باندا، راجہ شاہ گڑھ اور راجہ بانا پور نے مورچہ جما رکھا تھا، لیکن انگریز فوجیں اگر ڈسپلن اور فوجی حکمت عملی سے مسلح تھی تو ان کے پاس نہ وہ ڈسپلن تھی نہ اتحاد عمل کا یکساں جذبہ، کالپی سے چالیس میل دور کنچ گاﺅں میں انقلابی فوجیں اور سرہف روز کی فوجوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ یہاں انقلابیوں کی ذہانت کی داد دینی ہو گی جنھوں نے سختی سے حکم نافذ کر دیا تھا کہ سرد آب و ہوا کے عادی انگریزوں کو مارنے کا اچھا حربہ یہ ہے کہ لڑائی ہمیشہ دن میں دس بجے کے بعد شروع کی جائے۔ لیکن انقلابیوں کو پسپائی ہوئی اور وہ کالپی واپس ہوئے۔ اس موقع پر ان میں بددلی اور نفاق پھیل رہا تھا لیکن رانی جھانسی نے سب کی ڈھارس بندھائی معمولی اختلافات دور کئے اور جب لڑائی چھڑی تو ایسا معلوم ہوا کہ رانی جھانسی جنگ کے میدان میں ہر مورچے پر موجود ہے۔ جہاں بھی دشمن کا پلہ بھاری نظر آتا۔ رانی وہیں موجود ہوتی۔ لیکن یہاں سے بھی انقلابیوں کے پاﺅں اکھڑ گئے۔ نواب باندہ، رانی جھانسی اور دوسرے سربراہ یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور گوپال پور پہنچے۔ ان کے پاس اب نہ فوجیں تھیں نہ قلعہ رہا تھا اور نہ اسلحہ۔ تانتیا نے یہاں بھی ان کا ساتھ دیا۔ اس نے گوالیار کو فتح کر لیا۔ یہاں تمام انقلابیوں نے پھر مورچہ لگایا۔ یہی وہ تاریخی جنگ ہوئی جس میں رانی جھانسی انگریزوں کے مقابلے میں تلوار سونت کر مجاہدانہ لڑتی ہوئی جاں بحق ہوئی۔ انگریزی فوجوں نے جنوبی ہند کو فتح تو کر لیا لیکن حریت کا وہ شعلہ، جو بندیل کھنڈ کی پہاڑیوں پر بلند ہوا تھا، کبھی نہ بجھ سکا۔