ایسا ملک جہاں لڑکیوں کو جنسی غلام بنانے کے لیے انتہائی شرمناک طریقہ اپنایا جانا ہے جان کر آپ کو بھی یقین نہیں آئے گا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 06, 2017 | 21:11 شام

پیانگ یانگ(مانیٹرنگ ڈیسک) سالہا سال کی پابندیوں اور عالمی تنہائی کے باعث شمالی کوریا میں غربت کا راج ہے۔ ایسی رپورٹس میں منظرعام پر آ چکی ہیں کہ مبینہ طور پر وہاں کئی علاقوں میں لوگ گھاس اور درختوں کے پتے تک کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں، لیکن اب شمالی کورین حکومت کے اللے تللوں اور حکمران کم جونگ ان کی شاہ خرچیوں کی ایسی داستان سامنے آ گئی ہے کہ آپ سن کر دنگ رہ جائیں گے۔ قبل ازیں عالمی میڈیا کی رپورٹس میں یہ بات بھی آ چکی ہے کہ شمالی کوریا میں مختلف بہانوں سے سکولوں سے خوبصورت، کم عمر’کنواری‘ لڑکیوں کو منتخب کر کے ایک بینڈ میں شامل کیا جاتا ہے جہاں انہیں رقص و سنگیت کی تربیت دی جاتی ہے جو بعدازاں کم جونگ ان اور اس کے حواریوں کے لیے تفریح طبع کا سامان کرتی ہیں۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ کم جونگ ان نے گزشتہ سال 27لاکھ پاﺅنڈ (تقریباً 35کروڑ 30لاکھ روپے) کی خطیر رقم اس بینڈ کی دوشیزاﺅں کے زیرجاموں اور رات کو سونے کے لباس کی خریداری پر اڑا ڈالی ہے۔ 
 حکومت نے کم جونگ ان کے حکم پر ان لڑکیوں کے لیے مذکورہ ملبوسات کئی کھیپوں کی صورت میں چین سے درآمد کیے۔ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس بینڈ میں شامل لڑکیوں کو سکولوں میں جا کر خوبصورتی کے لحاظ سے منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ اتنی کم عمر ہوتی ہیں کہ ان میں سے بعض کی عمر 13سال تک یا اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ انہیں منتخب کرنے کے بعد ان کا میڈیکل ٹیسٹ کروایا جاتا ہے جس میں ان کا کنوارپن چیک کیا جاتا ہے۔ جو لڑکی کنواری نہ ہو اسے واپس بھیج دیا جاتا ہے اور کنواری لڑکیوں کو ایک طرح کا ’جنسی غلام‘ بنا لیا جاتا ہے۔ انہیں رقص وغیرہ کی تربیت دی جاتی ہے اور بعدازاں یہ حکمران طبقے کی شراب و شباب کی پارٹیوں کی زینت بنتی ہیں۔ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہو چکا ہے کہ شمالی کوریا کے والدین اپنی بیٹیوں کو اس طرح جنسی غلام بننے سے بچانے کے لیے خود ہی کسی طرح ان کے کنوار پن کا خاتمہ کر دیتے ہیں تاکہ وہ منتخب ہی نہ ہو سکیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا میں 20لاکھ سے زائد شہری فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان 20لاکھ لوگوں کو حکومت کی طرف سے روزانہ فی کس صرف 650گرام مکئی، چاول اور گوشت فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی آمدنی نہیں۔ان میں سے اکثریت حکومتی منصوبوں پر جبری مشقت پر بھی مامور ہیں، حتیٰ کہ چند روز قبل ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بچوں تک سے سرکاری تعمیراتی منصوبوں میں جبری مشقت کروائی جاتی ہے۔ ان بچوں کو فرار ہونے سے روکنے کے لیے زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی ان کر ساتھ تشدد کرنے سے گریذ نہیں کیا جاتا۔