پانچ (5) ماہ کی حاملہ خاتون نے وصمت دری کا ایسا خوفناک واقعہ سنا دیا کہ جان کر ہر مسلمان کا خون کھول اُٹھے

نئی دلی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی ریاست گجرات میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو صرف مسلمانوں کا قتل عام ہی نہیں ہوا بلکہ ہزاروں مسلمان لڑکیوں اور خواتین کی عصمت دری بھی کی گئی۔ مسلمانوں کے ساتھ جو ہوا اسے سمجھنے کے لئے بلقیس بانو کی لرزہ خیز داستان کافی ہے، جن کی عمر اس وقت 19سال تھی اور وہ پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھیں۔ یہ 2002ءکا ذکر ہے کہ جب ان کے خاندان کے 14افراد کو بے دردی سے قتل کردیا گیا جن میں ان کی دو سالہ بیٹی بھی شامل تھیں، جبکہ خود انہیں درجنوں درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔
ا ن کی ابتلاءکا آغاز اس وقت ہوا جب ان کے گھر کے 17 افراد ہنگاموں سے بچنے کیلئے ایک ٹرک میں سوار ہوکر فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ اس ٹرک کو تقریباً35 بلوائیوں نے روکا اور اس پر حملہ کردیا۔ بلقیس کا کہنا ہے کہ انہیں تقریباً تین گھنٹے بعد ہوش آیا تو وہ برہنہ تھیں اور ان کے خاندان کے افراد کی کٹی ہوئی لاشیں ان کے اردگرد پڑی تھیں۔ ان کی ننھی بچی کا سر بھی کچل دیا گیا تھا۔ درندوں نے اجتماعی زیادتی کے بعد انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے جسم پر کپڑا لپیٹ کر اپنے پیاروں کی خون میں لت پت لاشوں میں سے نکلیں اور قریبی پہاڑوں میں آباد ایک قبیلے کے لوگوں نے انہیں پناہ دی۔بلقیس ان ہزاروں مسلمان لڑکیوںمیں سے ایک ہیں جنہیں گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ ان ہزاروں لڑکیوں میں سے کسی ایک کو بھی انصاف نہیں ملا۔ بلقیس وہ واحد مثال ہیں جو قانونی کاروائی کرنے میں کامیاب رہیں اور جن کے کیس میں ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ا گرچہ وہ اَن پڑھ تھیں لیکن انہوں نے تھانے کا رُخ کیا اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش کی۔ پولیس نے اسے دھتکارنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ قانونی کارروائی پر بضد رہیں۔ جب پولیس نے مقدمہ درج نہ کیا تو وہ عدالت کے پاس گئی لیکن وہاں سے بھی واپس بھیج دیا گیا۔ بالآخر وہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے پاس گئیں اور اس کمیشن کے ذریعے براہ راست سپریم کورٹ کو درخواست دی، تب کہیں جاکر بھارتی سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کو تحقیقات کا حکم دیا گیا۔چار سال تک اس کیس میں تحقیقات ہوتی رہیں جس کے نتیجے میں 19افراد کے خلاف الزامات عائد کئے گئے، جن میں چھ پولیس اہلکار اور ایک سرکاری ڈاکٹر بھی شامل تھا۔ جنوری 2008ءمیں 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ پولیس اہلکاروں اور سرکاری ڈاکٹر کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے پر سزا سنائی گئی ہے۔ بلقیس کے خاندان کو قتل کرنے والے 11افرا دکو سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل کی گئی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے، جبکہ کیس میں مداخلت کرنے کے الزام میں سات مزید افراد کو بھی سزا سنائی گئی ہے۔ اور انہیں اس گناہ کے لیے عدالت بھی کھنچا جائے گا۔