2022 ,جنوری 17
زینب انصاری 6،7سالہ پاکستانی شہر قصور کی رہائشی بچی تھی جسے عمران علی نامی شخص نے اغوا کرکے جنسی زیادتی کا کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد اس کو قتل کر کے لاش کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ اس خبر کے پھیلنے کے بعد شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 14 دن بعد 23 جنوری کی شام کو وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف نے دیگر قانونی اداروں کے نمائندے کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں عمران علی ارشد نام کے زینب انصاری کے ایک پڑوسی کو بطور مجرم شناخت کر لینے کا اعلان کیا۔ اس کی گرفتاری ڈی این اے جانچ اور جھوٹ پکڑنے کی جانچ سے ممکن ہوئی۔ زینب انصاری کے ماں باپ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہوئے تھے۔ اس وجہ سے وہ اپنی خالہ کے یہاں رہ رہی تھی۔ 4 جنوری 2018ء کو جب وہ قرآن پڑھنے مدرسے کے لیے گھر سے روانہ ہوئی جو اس کے گھر کے قریب ہی تھا، وہ لاپتہ ہو گئی۔ اس کے خالو محمد عدنان نے قصور ضلعی پولیس دفتر میں شکایت درج کروائی۔ سی سی ٹی وی کی ویڈیو فوٹیج دیکھنے کے بعد زینب کے خاندان والوں کو پتہ چلا کہ وہ کسی نامعلوم داڑھی والے شخص کے ساتھ جا رہی تھی جو سفید کپڑوں اور صدری پہن کر اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ مزید پتہ چلا کہ وہ قصور کے پیر والا سڑک پر جا رہے تھے۔ اس ویڈیو کی تلاش میں خاندان کو ارباب مجاز سے کوئی مدد نہیں ملی، یہ ان کی ذاتی کوشش سے حاصل کی گئی تھی۔ 9 جنوری کو شہباز خان روڈ پر زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر پر پائی گئی۔ طبی معائنہ سے پتہ چلا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور اسے گلا کھونٹ کر مار دیا گیا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ وہ قتل سے پہلے جبری قید اور اذیتیں جھیل چکی ہے۔ اس کی نماز جنازہ طاہر القادری نے پڑھائی۔ قصور میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس میں ایک پولیس تھانے میں داخل ہونے پر دو افراد پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ چار پولیس اہلکار جنھوں نے مبینہ طور پر مظاہرین پر فائرنگ کی "ان کو گرفتار کر لیا گیا ۔" حکومتِ پنجاب نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جس نے 14 دن تک اس پر کام کیا۔ تفتیش کے دوران میں قصور میں 600 افراد کے ڈی این اے کی جانچ کی گئی۔ 23 جنوری 2018ء کو باقاعدہ وزیر اعلیٰ نے پریس کانفرنس کر کے اعلان کیا کہ ایک نوجوان عمران علی ارشد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جس کا ڈی این اے آٹھ قتل کی کئی بچیوں کی لاشوں و کپڑوں سے سو فیصد میل کھاتا ہے۔ اس ملزم سے ابتدا میں پولیس نے اس سے تفتیش کی گئی تھی اور چھوڑ دیا گیا تھا۔ تاہم اس کو دوسری مرتبہ چند روز قبل گرفتار کرنے کے لیے پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔ عمران علی کو لاہور کے قریب واقع شہر پاکپتن سے گرفتار کیا گیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ایک عہدیدار کے مطابق عمران کو اس کا ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ ابتدائی تفتیش کے بعد سے وہ زیرِ نگرانی تھا۔ گرفتاری کے بعد اس کے ڈی این اے کے نمونے لیے گئے جن کا موازنہ تفتیش کے دوران میں حاصل ہونے والے ممکنہ قاتل کے ڈی این اے سے میچ کیا گیا۔ عمران قصور شہر میں کورٹ روڈ کا رہائشی اور سات سالہ زینب انصاری کا محلے دار ہے۔ تفتیش کے دوران میں عمران نے تمام آٹھ بچیوں پر جنسی حملوں اور قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ملزم کے مطابق وہ اس فعل میں تنہا شامل تھا اور اس کا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ تفتیش کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 1150 افراد کا ڈی این اے ٹسٹی کیا۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق دنیا میں تیسری مرتبہ ایک ساتھ 1150 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیشی عمل کے دوران میں 20 مشتبہ افراد کے پولیس گرافک ٹیسٹ کرائے گئے۔ زینب قتل کیس کے ملزم کی شناخت کے 3 لاکھ تصاویر کا جائزہ لیا گیا۔ زینب کے قاتل تک پہنچنے کے لیے 6 ہزار موبائل فونز کال ٹریس کی گئیں، جب کہ ضلع بھر سے مردم شماری کی لسٹوں سے 60 ہزار افراد سے تفتیش ہوئی۔ موبائل فونز کی لوکیشن چیک کرنے کے لیے 3 جدید ترین آئی سی سی سی گاڑیاں 24 گھنٹے ضلع قصور میں رہیں۔ ڈھائی کلومیٹر کے دائرے میں 1200 خاندانوں کے افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔ • عمران نے 23 جون سال 2015 کو صدر قصور کے علاقے میں عاصمہ بی بی زیادتی کے بعد قتل کیا تھا۔ ملزم عمران کا ڈی این اے کمسن عاصمہ کے ساتھ میچ کر گیا۔ • 4 مئی 2016 کو زیادتی کے بعد قتل ہونے والی تہمینہ کے ساتھ ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا۔ • 8 جنوری 2017 کو زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کمسن بچی عائشہ آصف کے ساتھ بھی ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا۔ • 24 فروری 2017 کو قتل ہونے والی ننھی بچی ایمان فاطمہ کیس میں ملزم عمران کا ڈی این اے میچ کر گیا ۔ • 11 اپریل 2017 کو معصوم نور فاطمہ کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیس کا ڈی این اے بھی ملزم عمران کے ساتھ میچ کر گیا۔ • 8 جولائی 2017 کو ننھی لائبہ کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیس کا ڈی این اے بھی ملزم عمران کے ساتھ میچ کر گیا۔ • 12 نومبر 2017 کو معصوم کائنات بتول کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیس کا ڈی این بھی ملزم عمران کے ساتھ میچ کر گیا۔ • 4 جنوری 2018 کو زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیس کا ڈی این اے بھی ملزم عمران کے ساتھ میچ کر گیا۔ 10 فروری کو پولیس کی جانب سے ملزم کے خلاف چالان پیش کیا گیا اس دوران میں استغاثہ کی جانب سے پچاس سے زائد گواہان کی فہرست پیش کی گئی اور تیس سے زائد گواہان نے عدالت میں بیان قلم بند کروائے۔ تاہم استغاثہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے فرانزک سائینس پر مبنی شواہد مجرم کو سزا دلوانے میں بنیادی ثابت ہوئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 27-بی کو جب قانونِ شہادت آرڈیننس 1984 کے آرٹیکل 164 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو عدالت فرانزک شہادت یا دیگر جدید آلات کی مدد سے مہیا کی جانے والی شہادت کی بنیاد پر ملزم کو سزا دے سکتی ہے۔ فیصلے کی دستاویز میں نمبر 26 پر عدالت نے لکھا ہے کہ 'وہ استغاثہ کی جانب سے پیش کی جانے والی فرانزک شہادتوں کے اصلی ہونے یا ایسی شہادت کی سچائی پر مکمل طور پر مطمئن ہے۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق مقتولہ بچی کے جسم اور کپڑوں سے لیے جانے والے ڈی این اے کے نمونے مجرم عمران علی کے ڈی این اے کے نمونوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ عدالت نے مزید لکھا کہ موقعے کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا تاہم مضبوط سرکمسٹینشل ایویڈینس یا واقعاتی ثبوت ریکارڈ پر موجود ہے جس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ملزم عمران علی ہی نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔' اور یہ کہ استغاثہ نے ڈی این اے رپورٹ تشکیل دینے والوں کے ذریعے اس کو ثابت کیا۔ استغاثہ کے ایک وکیل نے بتایا کہ انھوں نے جو فرانزک ثبوت فراہم کیے ان میں ڈی این اے کے نمونوں کی میچنگ پر مبنی رپورٹ سب سے اہم تھی۔ اس کے علاوہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل ہونے والی فوٹیج میں نظر آنے والے مجرم عمران علی کے چہرے کی تصاویر کو اس قدر بہتر بنایا گیا کہ ان کا مجرم کے چہرے سے میچ ہونا ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے جو گواہان پیش کیے ان میں وہ لوگ شامل تھے جنھوں نے عدالت میں جمع کروائے جانے والے تمام تر ثبوتوں کی ذاتی طور پر تصدیق کی جس کے بعد ان پر جرح بھی کی گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ میڈیکل شہادت نے بھی استغاثہ کے مؤقف کی ہر اعتبار سے تائید کی۔ استغاثہ کے ایک وکیل نے بتایا کہ انھوں نے جو فرانزک ثبوت فراہم کیے ان میں ڈی این اے کے نمونوں کی میچنگ پر مبنی رپورٹ سب سے اہم تھی۔ اس کے علاوہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل ہونے والی فوٹیج میں نظر آنے والے مجرم عمران علی کے چہرے کی تصاویر کو اس قدر بہتر بنایا گیا کہ ان کا مجرم کے چہرے سے میچ ہونا ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ نے جو گواہان پیش کیے ان میں وہ لوگ شامل تھے جنھوں نے عدالت میں جمع کروائے جانے والے تمام تر ثبوتوں کی ذاتی طور پر تصدیق کی جس کے بعد ان پر جرح بھی کی گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ میڈیکل شہادت نے بھی استغاثہ کے مؤقف کی ہر اعتبار سے تائید کی۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجرم کے عمل سے علاقے میں خوف وہراس پھیلا اور نقصِ امن کے حالات پیدا ہوئے۔ اس وجہ سے ان پر استغاثہ کی طرف سے لگایا جانے والا دہشگردی کا الزام بھی ثابت ہوتا ہے۔ انھیں انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت بھی سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجرم کے عمل سے علاقے میں خوف وہراس پھیلا اور نقصِ امن کے حالات پیدا ہوئے۔ اس وجہ سے ان پر استغاثہ کی طرف سے لگایا جانے والا دہشگردی کا الزام بھی ثابت ہوتا ہے۔ انھیں انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت بھی سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت نے مجرم عمران علی کو چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی۔ اس پر اکتیس لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا جبکہ قتل کے مقدمے میں عدالت نے اسے زینب کے لواحقین کو دس لاکھ حرجانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ عمران علی نے سزا کے خلاف پہلے لاہور ہائی کورٹ میں اور بعد میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جو مسترد کر کے خارج کر دی گئی اور صدر مملکت پاکستان نے بھی رحم کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے بعد 12 اکتوبر 2018ء کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم کی سزائے موت کا حکم نامہ جاری کر دیا اور عمران کو 17 اکتوبر بروز بدھ کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔