2017 ,جون 9
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)محبت انسان کی فطرت کا حصہ ہے اور زندگی گزارنے کے لئے شریک سفر کی تلاش بھی ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے لیکن بعض اوقات انسان سے بڑی بھول ہوجاتی ہے اور وہ کسی کی ہوس کو محبت سمجھ بیٹھتا ہے۔ نوعمری میں تو اس غلطی کا احتمال اور بھی زیادہ ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ روایت پسند مشرقی معاشروں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے مادر پدر آزاد اختلاط کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اس کے باوجود بعض اوقات بھول ہو جاتی ہے، انسان احتیاط کا دامن چھوڑ بیٹھتا ہے اور پھر ایسا دردناک انجام اس کا مقدر بن جاتا ہے کہ جس کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ ایک ایسی ہی عبرتناک داستان ایک نوجوان لڑکی نے کچھ یوں بیان کی ہے:
میرا نام نیلم ہے۔ جب میں 16 سال کی تھی تو ایک ٹیوشن سنٹر میں فرحان نامی لڑکے سے میری ملاقات ہوئی جس کی عمر 19 سال تھی۔ وہ بہت ہینڈسم اور لڑکیوں میں بہت مقبول تھا، لیکن میں چونکہ ایک ذہین طالبہ تھی اور ہر وقت اپنی پڑھائی پر توجہ رکھتی تھی لہٰذا کبھی اس میں دلچسپی نہیں لیتی تھی۔ میرے عدم دلچسپی سے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ وہ میرے پیچھے پڑگیا تھا۔ جب بھی میں ٹیوشن سنٹر سے گھر واپس جاتی تھی تو وہ میرا تعاقب کرتا تھا۔ میں نے اس سے جان چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ایک روز جب میں گھر واپس جارہی تھی تو فرحان کا دوست معظم میرے پاس رکا اور بتایا کہ فرحان میری محبت میں دیونہ ہوچکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ دن رات میرا ذکر کرتا ہے اور میرے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ معظم نے درخواست کی کہ میں ایک بار اس سے بات ضرور کرلوں۔
اگرچہ میں اس کیلئے تیار نہ تھی لیکن پھر سوچا کہ شاید ایک بار ملاقات کرکے میں اسے سمجھا سکوں گی۔ بالآخر کافی سوچ بچار کے بعد میں نے فرحان سے ملاقات پر رضامندی ظاہر کردی۔ وہ مجھے ایک فلیٹ میں لے کر گیا لیکن وہاں کا ماحول مجھے کافی پریشان کن محسوس ہوا۔ فرحان نے میرے ساتھ پیار بھری باتیں شروع کردیں اور پہلی بار مجھے بھی محسوس ہوا کہ جیسے میرے دل میں بھی اس کیلئے جگہ تھی۔
پھر پیار بھری باتوں کے ساتھ اس نے مجھے چھونا بھی شروع کردیا۔ میں اس پر بہت پریشان ہوئی اور اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن اگلے ہی لمحے وہ میرے ساتھ لپٹ گیا۔ میری مزاحمت کے باوجود اس نے مجھے بے لباس کر دیا اور پھر میری آہوں اور سسکیوں کے درمیان مجھے بے آبرو کرتا رہا۔
میرے لئے یہ واقعہ انتہائی وحشت ناک تھا۔ میں ٹوٹے ہوئے دل اور زخمی روح کے ساتھ گھر واپس آئی اور خاموشی سے اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئی۔ میں نے وہ رات روتے ہوئے گزاری لیکن اپنی بدقسمتی کا ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اب مجھے یہ خوف بھی لاحق تھا کہ کہیں میں حاملہ نہ ہوجاﺅں۔ میں خوف کے مارے اپنی والدہ سے اس معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتی تھی لہٰذا مجھے اب مدد کیلئے فرحان ہی نظر آرہا تھا۔
میں نے فرحان سے رابطہ کیا اور اس نے بتایا کہ وہ ایک نرس کو جانتا ہے جس سے معائنہ کروایا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصے بعد اس نے میرا معائنہ کروایا تو پتہ چلا کہ میں حاملہ ہوچکی تھی۔ یہ خبرہم دونوں کیلئے انتہائی خوفزدہ کر دینے والی تھی۔ نرس نے کہا کہ وہ دو ماہ بعد اسقاط حمل کا آپریشن کرسکتی ہے۔ اگرچہ میں بہت خوفزدہ تھی لیکن اب اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آرہا تھا۔میں نے اسقاط حمل کروادیا لیکن اس دوران کسی پیچیدگی کی وجہ سے میرا بہت سا خون ضائع ہوا اور میری حالت غیر ہوگئی۔ بالآخر مجھے یہ معاملہ اپنی والدہ کو بتانا پڑا، لیکن ان کا ردعمل اتنا خوفناک تھا کہ جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے میرا تمام سامان اکٹھا کیا اور اسے گھر سے باہر پھینک دیا۔ مجھے باہر نکال کر انہوں نے گھر کا دروازہ بند کر لیا تھا۔ میں نے بہت فریاد کی لیکن انہوں نے مجھے وہاں سے ہمیشہ کے لئے چلے جانے کو کہا۔
اب ایک بار پھر میرے لئے فرحان کی مدد مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ مجھے واپس اپنے فلیٹ پر لے گیا۔ میرے لئے اب ایک ہی راستہ تھا کہ فرحان سے شادی کرلوں لیکن اس کے گھر والے مجھ سے نفرت کرتے تھے۔ صرف اس کی دادی اماں تھیں جن کے دل میں میرے لئے نرم گوشہ تھا۔ بالآخر ان کی کوششوں سے ہماری شادی ہوگئی۔
فرحان کے گھر میں میری زندگی انتہائی تکلیف دہ تھی کیونکہ ہر کوئی مجھ سے نفرت کرتا تھا۔ ایک روز تو اس کے والد اور بھائی نے مجھ پر سخت تشدد کیا اور میرے کپڑے پھاڑ کر گھر سے باہر بھی نکال دیا۔ اس موقع پر ہمسایوں نے مجھے پناہ دی۔ میری تکالیف کا سلسلہ یونہی جاری تھا کہ کچھ عرصے بعد میری قسمت نے ساتھ دیا اور میں ایک یونیورسٹی میں د اخلہ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ میرا تعلیمی ریکارڈ ہمیشہ شاندار رہا تھا اور ایک بار پھر میں نے بہترین تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ شروع کردیا تھا۔ اس دوران میرے ہاں ایک بیٹی نے بھی جنم لیا۔یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے سکالرشپ مل گیا اور میں ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے چلی گئی۔ میری تعلیم نے میرے لئے دنیا میں سب سے بڑے سہارے کا کام کیا اور اب میں ایک آزاد اور خود مختار عورت کے طور پر زندگی گزاررہی ہوں۔ اگرچہ میں اپنی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے ایک بار پھر باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوگئی ہوںلیکن نادانی میں اٹھائے گئے ایک قدم نے مجھے جو زخم لگائے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہوسکیں گے