2017 ,جون 13
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)اہل مشرق کبھی اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ان کے ہاں خواتین کی عزت کی جاتی ہے اور ان کی عفت کو بے حد مقدس جانا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اب ہمارے حالات ایسے نہیں رہے کہ ہم یہ دعویٰ کر سکیں۔ خواتین کے ساتھ سربازار وہ سب کچھ ہورہا ہے جسے دیکھنا تو درکنار تصورکرنا بھی باعث شرم ہے۔ ایک ایسا ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا واقعہ لاہور کے ایک پوش علاقے ڈیفنس میں دن دیہاڑے ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ پیش آیا، لیکن کسی کو آگے بڑھ کر اس کی مدد کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اقراءآصف نامی لڑکی نے اپنے ساتھ پیش آنے والا بھیانک واقعہ کچھ یوں بیان کیا ہے:میں اپنی ممانی کے ساتھ ڈی ایچ اے بلاک گئی تھی۔ جب ہم لوگ ٹیکسی سے اتررہے تھے تو ایک نوجوان میری جانب لپکا اورمجھے اپنی گاڑی کی جانب گھسیٹنا شروع کردیا۔ وہ مجھ پر حملہ آور ہورہا تھا اور بدزبانی کررہا تھا۔ میں اور میری ممانی مدد کیلئے چیخ رہی تھیں لیکن کسی نے آگے بڑھ کر ہماری مدد کرنے کی ہمت نہ کی۔ بالآخر ایک بینک کا سکیورٹی گارڈ ہماری جانب بڑھا جسے آتا دیکھ کر وہ نوجوان مجھے چھوڑ کر اپنی گاڑی کی جانب بڑھا لیکن اس نے جانے سے پہلے میری کمر پر کسی تیز دھار چیز کے ساتھ وار کیا۔ اس کے بعد وہ آرام سے اپنی گاڑی میں بیٹھا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔خواتین کے خلاف جب بھی کوئی جرم سامنے آتا ہے تو عام طور پر انہیں ہی مورد الزام ٹھہرادیا جاتا ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے حجاب پہن رکھا تھا اور باحیاءلباس کے ساتھ خود کو پوری طرح ڈھانپا ہوا تھا پھر بھی میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ اور یہ رات کی تاریکی میں نہیں ہوا بلکہ دن کی روشنی میں درجنوں لوگوں کے سامنے ہوا۔ مجھے اس بات پر ہمیشہ افسوس رہے گا کہ سرعام ایک لڑکی کے ساتھ ہونے والے ظلم کو وہاں موجود درجنوں لوگ دیکھتے رہے لیکن کسی نے آگے بڑھ کر مدد کرنے کی کوشش تک نہیں کی۔جب میں نے اس واقعہ کی پولیس کو رپورٹ کرنے کیلئے سی سی ٹی وی ویڈیو حاصل کرنے کی کوشش کی تو مجھے بتایا گیا کہ وقوعہ کے آس پاس کی جگہ پر سی سی ٹی وی کیمرے کام نہیں کررہے تھے۔ بینک کچھ فاصلے پر تھا اس لئے ان کے پاس سی سی ٹی وی ویڈیو ریکارڈ نہیں ہوئی تھی۔ مجھ پر حملہ کرنے والے شخص کی گاڑی کا نمبر کسی نے نوٹ کیا بھی تو بتانے کی زحمت نہیں کی کیونکہ کوئی بھی اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ رہی سہی کسر اس پولیس اہلکار نے پوری کردی جو میری شکایت سن کر بولا ”آپ کی عصمت دری کی کوشش ہوئی ہے، عصمت دری ہوئی تو نہیں نا؟“