2019 ,اکتوبر 30
زمانہ جاہلیت میں جزیرۃ العرب میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر حقوق نہ تھے، عورت کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اسکو معاشرے میں زندہ بھی رہنے کاحق تک نہ تھا، معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام ناپسندیدہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی، اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت صرف مردوں کے لئے تھی۔ حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کارچیزیں عورتوں کو دیتے، زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اس طرزِ عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے:
’’اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو (بچہ) ان چوپایوں کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مَردوں کے لئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام کردیا گیا ہے، اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا (پیدا) ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہوتے ہیں، عنقریب وہ انہیں ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بیشک وہ بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے‘‘۔ (سور ۃ الانعام، 6: 139)
اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ زمانہ جہالت میں عورتوں اور مردوں کے درمیان چیزوں کی تقسیم اور لین دین کے معاملات میں نہ صرف تفریق کی جاتی بلکہ عورت کو مرد کے مقابلے میں نسبتاً کمتر سمجھا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ عورت کی حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا جاتا تھا۔ اس لئے وہ لوگ لڑکی کے پیدا ہونے پر غصہ میں ہوتے اور انہیں زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں ان قوموں کے اس طرزِ عمل کی عکاسی یوں کی گئی ہے:
’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃ النحل، 16 ،58، 59)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دورِ جاہلیت کی اس غلط رسم کو بیان فرمایا ہے اور اسکی مذمت کی ہے۔ اسی طرح اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا بھی جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔ مگر عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت کرکے دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا اور عورت کو وہ بلند مقام عطا کیا جس کی وہ مستحق تھی۔
دین اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ
اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتا ہے، لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سینکڑوں قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی، الغرض یونانی تہذیب سے لے کر روم، فارس، ہندوستان، یہودی اور عیسائی تہذیب نے عورت کو معاشرے میں کمتر درجہ دے رکھا تھا، انہوں نے دنیا میں برائی اور موت کی ذمہ دار اور اصل وجہ عورت کو قرار دیا، حتیٰ کہ انگلینڈ کے آٹھویں بادشاہ (Henry-8) کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ اس نے اپنے دور میں پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کیا تھاکہ عورت اپنی مقدس کتاب انجیل کی تلاوت تک نہیں کرسکتی کیونکہ وہ ناپاک تصور کی جاتی تھی۔جدید تہذیب بھی عورت کو وہ حیثیت نہ دے سکی جس کی وہ مستحق تھی۔ارتقائے تہذیب نے عورت و مرد کے درمیان فاصلوں کو اتنا بڑھا دیا کہ عورت کی حیثیت کو اور زیادہ پست کردیا۔ علاوہ ازیں مذہب اور خصوصاً بڑی بڑی تہذیبوں نے صنفِ نازک کو ناپاک بتا کر اس کا رتبہ اور بھی کم کردیا۔ مگر اسلامی تہذیب نے عورت کو عظیم مقام دیا، بلکہ کائنات کا اہم ترین جز قرار دیا۔
عصر حاضر کی جدید علمی تہذیب نے اسے ایک اٹل حقیقت تسلیم کر لیا ہے، لیکن جہاں عورت کا وجود مرد کی زندگی کے نشو و ارتقاء میں ایک حسین اور مؤثر محرک تھا، وہاں مردوں نے عورت کو ہمیشہ اپنی عیش کوشی اور عشرت پرستی کا ادنیٰ حربہ اور ذریعہ تصور کیا اور یوں معاشرے میں اس کی حیثیت ایک زر خرید کنیز کی سی بن کر رہ گئی، اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تہذیب کی تباہی ایسے حالات میں ہوئی جب عورت اپنی صحیح حیثیت کھو بیٹھی اور مرد کے ہاتھوں میں آلہ کار بن گئی، اسلام کی آمد عورت کے لئے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں، اور عورت کو وہ حیثیت عطا کی جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھا ہے۔ اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک عمل کا اجر دونوں کے لئے برابر قرار پایا ہے، کہ جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی، اس کو پاکیزہ زندگی اور جنت میں داخلے کی خوش خبری ملے گی، ارشاد ربانی ہے:
’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے‘‘۔ (النحل، 16: 97)
اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور پاکیزہ زندگی دنیا و آخرت میں عطا کئے جانے کی خوشخبری کو عمل صالحہ کے ساتھ مشروط کیا، جس طرح دوسرے مقام پر عملِ صالحہ کو جنت کے داخلے اور رزقِ کثیر کے ساتھ مشروط کیا، ارشاد فرمایا:
جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا۔ (سورۃ المومن، 40: 40)
اسی طرح ارشاد باری ہے:
’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقینا میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت‘‘۔ (آل عمران، 3: 195)
اس طرح دین اسلام نے مرد و عورت کو برابر کا مقام عطا فرمایا بلکہ عورت کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی بھی قدیم اور جدید تہذیب نے نہیں دیا۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا، اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت میں حقدار ٹھہرایا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا میں عورت کے تمام روپ اور کردار کو اپنی زبانِ مبارک سے بیان فرمایا: اب جس دور میں عورت ہو، جس مقام پر ہو اور اپنی حیثیت کا اندازہ کرنا چاہے تو وہ ان کرداروں کو دیکھ کر اپنی حیثیت کو پہچان سکتی ہے۔