2022 ,ستمبر 15
پاکستانی میڈیامیں سابق امریکی سفارت کار رابن رافیل کی سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملا قات کی خبر شائع اور نشر ہوتی ہے۔اس خبر کو لے کر پی ٹی آئی کے حریف تنقید کے پل باندھ دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے، ایک طرف عمران خان امریکہ سے آزادی کی بات کرتے ہیں دوسری طرف ان کے امریکہ کے ساتھ رابطے بھی ہیں۔ کچھ دن گزرتے ہیں یہ خبر بھی میڈیا کی زینت بنی تھی کہ عمران خان نے ڈونلڈ لو سے معافی مانگ لی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے بھی اس خبر کو اچھالا گیا تھا۔ مقصد عمران خان اور ان کی پارٹی کے عوام میں امیج کو گہنانااور دھندلاناہوسکتا ہے۔ معافی والی خبر کوبے پَرکی کہا جائے تو ایسی اُڑانے کی کسی پارٹی کی طرف سے کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ فواد چودھری کی طرف سے کہا گیا ہے کہ رابن رافیل کی عمران خان سے ملاقات کا مجھے آئیڈیا نہیں ہے تاہم عمراں خان نے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ عمران خان کی حالیہ ملاقات کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ رابن رافیل کون ہیں اور ماضی میں کن تنازعات سے ان کا نام جوڑا گیا؟ ’طویل قامت، سنہرے بال اور نیلی آنکھوں والی پُراعتماد امریکی سفارت کار۔‘یہ وہ الفاظ ہیں جو رابن رافیل کے بارے میں لکھے گئے ایک مضمون میں واشنگٹن پوسٹ اخبار میں استعمال کیے گئے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق رابن رافیل نے واشنگٹن یونیورسٹی سے تاریخ اور معاشیات میں بی اے کیا جس کے بعد انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ اور میری لینڈ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کیا۔واشنگٹن پوسٹ اخبار کے آرٹیکل کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران ان کی دوستی فرینک ایلر سے ہوئی جو بعد میں امریکہ کے صدر بننے والے بل کلنٹن کے بھی دوست تھے۔انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ٹیچر ایران سے کیا جہاں وہ تہران کے ایک کالج میں تاریخ پڑھاتی تھیں۔ یہاں ان کی ملاقات آرنلڈ لیوس رافیل سے ہوئی جو امریکی سفارت خانے میں پولیٹیکل افسر تھے۔ امریکی حکومت کے لیے رابن نے 1973 میں کام کرنا شروع کیا جب وہ سی آئی سے میں بطور اکنامک تجزیہ کار شامل ہوئیں۔دو سال بعد، 1975 میں وہ پہلی بار پاکستان آئیں جہاں اسلام آباد میں امریکی ایجنسی یو ایس ایڈ کے ساتھ بطور معاشی تجزیہ کار وابستہ ہوئیں۔اس دوران آرنلڈ لیوس رافیل بھی اسلام آباد تعینات ہوئے اور دونوں نے شادی کر لی۔ آرنلڈ رافیل 1987 میں اسلام آباد میں امریکی سفیر بھی تعینات ہوئے۔ آرنلڈ وہی امریکی سفیر ہیں جو 1988 میں فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے ساتھ اس جہاز پر سوار تھے جو تباہ ہو گیا تھا۔ تاہم اس وقت تک ان کی رابن سے علیحدگی ہو چکی تھی۔ اسلام آباد میں پوسٹنگ کے بعد رابن امریکی محکمہ خارجہ کا حصہ بن گئیں۔ 1978 میں امریکہ واپسی کے بعد انھوں نے اسرائیل ڈیسک کے علاوہ، بطور سٹاف ایڈ برائے اسسٹنٹ سیکریٹری جنوبی ایشیا اور پھر بطور سپیشل اسسٹنٹ برائے انڈر سیکریٹری سیاسی امور کام کیا۔ 1984 میں رابن رافیل کو لندن کے امریکی سفارت خانے بھیج دیا گیا جہاں سے وہ مشرق وسطیٰ، جنوبی اور مشرقی ایشیا سمیت افریقہ پر کام کرتی تھیں۔ 1991 سے 1993 تک انھوں نے دہلی میں امریکی سفارت خانے میں کام کیا جس کے بعد ان کو کلنٹن انتظامیہ میں اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی ایشیائی اُمور تعینات کر دیا گیا جس پر وہ چار سال یعنی 1997 تک کام کرتی رہیں۔ 1997 میں رابن رافیل تیونس میں امریکہ کی سفیر تعینات ہوئیں۔رابن رافیل کواُردو زبان پر عبور حاصل ہے۔ رابن رافیل 30 سالہ سفارتکاری سے 2005 میں ریٹائر ہو گئی تھیں لیکن اوباما انتظامیہ میں پاکستان اور افغانستان کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہولبروک کے ساتھ ان کو کام کرنے کی دعوت دی گئی۔ 2009 میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے انھیں کنٹریکٹر کی حیثیت سے نوکری دی تھی۔ رابن رافیل کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں ملازمت دینے پر کئی لوگوں نے تشویش ظاہر کی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ دفترِ خارجہ میں 30 سال نوکری کرنے کے فوری بعد انھوں نے کیسیڈی اینڈ ایسوسی ایٹس نامی فرم میں شمولیت اختیار کی جو پاکستان کے لیے لابنگ کرتی ہے۔ 2013 میں پاکستان سے تعلق اُن کے لیے ایک مشکل کی وجہ بنا جب امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے واشنگٹن میں رابن رافیل کے گھر کی تلاشی لی جبکہ امریکی محکمہ خارجہ میں ان کے دفتر کا بھی معائنہ کیا۔سفارتی حلقوں میں اہم مقام رکھنے والی رافیل کو انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا اور محکمہ خارجہ نے ان کے نوکری کے معاہدے کی تجدید نہیں کی۔رافیل کے خلاف تحقیقات کاؤنٹر انٹیلیجنس یا جاسوسی کرنے سے متعلق تھی جس میں عام طور پر بیرونی ممالک کے لیے جاسوسی کرنا شامل ہوتا ہے۔ امریکہ میں وفاقی سطح پر ہونے والی کاؤنٹر انٹیلیجنس کی تحقیقات بہت خفیہ طریقے سے کی جاتی ہیں۔ رافیل کی سکیورٹی کلیئرنس اکتوبر ہی میں واپس لے لی گئی تھی۔ ایف بی آئی کو شک تھا کہ رابن رافیل پاکستانی حکومت کے لیے جاسوسی کرتی رہی ہیں۔ تاہم جلد ہی جاسوسی کے الزامات کا کوئی ثبوت نہ ملنے کے بعد ایف بی آئی نے اس کیس کو خفیہ دستاویزات اپنے گھر رکھنے کے الزام تک محدود کر دیا۔ طویل تفتیش کے بعد یہ کیس 2014 میں بِنا کسی مقدمے کے اندراج کے ختم کر دیا گیا جس کے بعد رابن رافیل کے وکیل کی جانب سے بیان دیا گیا کہ سارا واقعہ ایک غلط فہمی کی بنیاد پر شروع ہوا اور رابن رافیل پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ رابن رافیل کے پاکستانی حکام سے قریبی مراسم رہے اور اسی وجہ سے ان کو انڈیا میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ان کا تجربہ انڈیا میں ذاتی طور پر بھی کچھ اچھا نہیں رہا تھا۔ ایک شوقین گھڑ سوار، رابن رافیل، دلی میں 1991 میں ایک بار گھوڑے سے گر گئی تھیں جس کے بعد گھوڑے نے لات مار کر ان کی ناک توڑ دی اور ان کو کئی ہفتے ہسپتال میں گزارنا پڑے۔ 1990 کی دہائی میں جب رابن رافیل اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی ایشیائی امور تھیں تو اس وقت انھوں نے انڈیا کی جانب سے کشمیر پر دعوے پر سوال اٹھایا تھا جو بعد میں لیک ہو گیا۔اس پر جہاں پاکستان میں ان کو سراہا گیا، وہیں انڈیا میں اس معاملے پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایک اخبار نے ان کے خلاف تنقیدی آرٹیکل میں ان کو ’دہشت گردوں کی دیوی‘ قرار دیا۔ ڈونلڈ لوکا پاکستان میں تذکرہ بلکہ شہرہ اس خط کے بعد ہواجس میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم کو کامیاب کرانے پر زور دیا گیا تھا۔ دوسری صورت میں ”پتھر کے دور والی“ دھمکی تھی۔ عمران خان نے اسی خط کی بنیاد پر ایسا بیانیہ بنایا کہ ان کی مقبولیت کا گراف پستی سے عروج پر چلا گیا۔ عمران خان نے اس امریکی عہدیدار سے معافی مانگی یا نہیں اس کا فیصلہ یوں ہوجاتا ہے کہ عمران آج بھی اپنے انٹرویوز میں اس بھد اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ان کی رابن سے ملاقات ہوئی ہے اس تنقید برائے تنقید سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کیا اس خاتون کی اپنے ملک اورانتظامیہ میں ایسی ساکھ اور اثر ہے کہ وہ عمران خان کے لیے کچھ کر سکیں جبکہ وہ جاسوسی کے الزام کا سامنا کرنے کے بعداپنے اداروں کا اعتماد کھو چکی ہیں۔