باطن کا وضو اور حصول معرفتِ خداوند تعالیٰ

2020 ,فروری 5



حدیث پاک کا مفہوم ہے جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا اپنے نفس کی پہچان کیلئے کسی ایسے شخص کی مدد درکار ہوتی ہے جس کو الله تعالیٰ کی معرفت نصیب ہو چکی ہو اس کی مثال ایک آئینے کی طرح ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی مثال ایک آئینے کی طرح ہے جس میں آپ کو اپنا ہی حقیقی چہرہ نظر آتا ہے اچھا یا برا یعنی وہ آپ کو آپ کے نفس کی پہچان کروا دیتے ہیں انسانی آنکھ سب کچھ دیکھتی ہے مگر اپنے آپ کو بغیر آئینے کے نہیں دیکھ سکتی آئینہ آنکھ کو اس کی تمام خوبیاں و خامیاں خاموشی سے دکها دیتا ہے چونکہ آئینہ شفاف ہوتا ہے اور سچ بولتا ہے اس طرح انسان اپنی آنکھ کو آئینے میں ملاحظہ کر کے اس کی پہچان کر لیتا ہے اور اس کی خوبیوں اور خامیوں پر مطلع ہو کر اس کی درستگی کیلئے کسی معالج سے اس کا علاج کرواتا ہے اب آپ جتنا آئینے کے قریب جائیں گے اتنا زیادہ آپ کو بیماری کی پہچان ہو گی اور علاج اور پرہیز کرنے سے اتنا ہی جلد آپ کو شفائے کامل مل جائے گی بالکل اسی طرح جب آپ اولیاء اللہ کے پاس اپنی اصلاح کی طلب لے کر جاتے ہیں تو وہ اپنے پاک اور شفاف قلوب سے آپ کے قلب پہ نگاہ ڈال کر آپ کے قلب کی تمام بیماریوں سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں اور پهر خاموشی سے آپ کے ضمیر کو جگا کر علاج شروع کر دیتے ہیں چونکہ اولیاء اللہ کے قلوب الله کے نور سے پر ہوتے ہیں اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا مومن کی فراست سے ڈرو وہ الله کے نور سے دیکهتا ہے مزید فرمایا اولیاء اللہ وہ ہیں جنہیں دیکھنے سے خدا یاد آئے یعنی انسان کو اپنے گناہ یاد آئیں اور ندامت سے رونا نصیب ہو جونہی ان کی پاک صحبت میں پہلا آنسو کا قطرہ آپ کی آنکھ سے نکلا اسی لمحے آپ کی توبہ قبول ہو گئی اور اس خوشی میں اللہ کے حکم کے عین مطابق آسمانوں پہ چراغاں اور جشن منایا جاتا ہے آپ کو مُبارک ہو پاکی اور حصول معرفت کی ابتدا ہو گئ اولیاء اللہ کے پاس بیٹهنے سے آپ کے اندر بیکار ماضی اور سرزد جرم و خطا کی ویڈیو کیسٹ چل پڑے گی اور رونا بہت بہت بہت آئے گا سرزد گناہوں و خطاؤں پر بہت ذیادہ ندامت ہو گی نفس کی بے اعتدالیوں اور مکاریوں کی پہچان شروع ہو جائے گی جوں جوں گناہ یاد آئیں گے اس کے ساتھ ساتھ توبہ و معافی کا عمل بهی جاری و ساری ہو جائے گا گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوتے جائیں گے پرانی گناہوں والی ویڈیو مٹنا شروع ہو جائے گی نئی پیدائش کا عمل شروع ہو جائے گا توبہ کی قبولیت کے بعد آدمی ایک معصوم بچے کی طرح گناہوں سے پاک صاف ہو جائے گا حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اسی لیے تو فرمایا تها کہ

یک زماں صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

ایک لمحہ ولی کے پاس بیٹھنا سو سال کی بے ریا عبادت سے افضل ہے
اولیاء اللہ کے پاس جانے سے سب سے پہلے آپ کو چھوڑ کے بھاگنے والا شیطان مردود اور خبیث جنات ہیں چونکہ عارف کی مثال سورج کی طرح ہوتی ہے عارف کا سینہ نورخدا کا خزینہ ہوتا ہے اور اس نور کی کرنوں سے شیطان مردود کی شیطانی طاقتیں جل جاتی ہیں اور وہ بہت کمزور پڑ جاتا ہے اس لئے جب آپ عارف کی صحبت میں جانے کی کوشش کریں گے تو یہ مردود حتیٰ الوسع آپ کو وہاں جانے سے روکے گا لیکن اللہ کے فضل سے جب آپ نہیں رکیں گے تو یہ مجبوراً آپ کو چهوڑ کر بهاگ جائے گا کیونکہ وہاں اسے اپنی موت نظر آتی ہے ان ہی لوگوں کے بارے میں اس نے تسلیم کیا تها اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس مردود نے جب بنی آدم کو گمراہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ تیرے مخلصین بندوں پر میرا بس نہیں چلے گا اب آپ کے ساتھ باقی رہ جانے والی برائی نفس امارہ ہے جوکہ تادمِ مرگ آپ سے جدا نہیں ہو سکتا- عارف کامل کا پہلا شکار یہی نفس بنتا ہے جس کو اولیاء اللہبقابو کر کے اس کی دھلائی شروع کر دیتے ہیں اور اس کو بتدریج کمزور کر کے آپ کے تابع فرمان اور محکوم کر دیتے ہیں پہلے وہ آپ پہ سوار تها اب آپ اس پہ سواری کریں گے اور یہ طابع فرمان ہو کر نفس مطمئنہ بن جائے گا جو کہ آپ کا دوست اور مددگار ہو گا تمام انبیاء کرام علیہم السلام اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین صدیقین صالحین اور اولیاء کرام رحمت اللہ علیہم اجمعین کے پاک نفوس مطمئنہ ہی ہوتے ہیں اور انہی نفوسِ مطمئنہ کو اللہ تعالیٰ نے سورہ الفجر میں مخاطب فرمایا ہے جو ہر مومن کو بوقت وصال اللہ پاک کی طرف سے یہ بہت خوبصورت آواز میں ندا کی جاتی ہے جس سے روح وجد میں آ کر جھومتی ہوئی جسم سے جدا ہو کر اپنی اصل منزل کی طرف روانہ ہو جاتی ہے وہ ندا یہ ہے اے اطمینان والی جان نفس مطمئنہ یوں ہو اپنے رب کی طرف واپس کہ وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی میرے خاص بندوں میں داخل ہو اور میری جنت میں آ اولیاء اللہ قلوب کے دهوبی ہوتے ہیں جب آپ حق کی طلب اور اپنی اصلاح کی نیت سے ان کے پاس حاضر ہوں گے تو وہ آپ کے بیمار اور غافل دل کو اپنا کر اسے نفس کی قید سے رہائی دلائیں گے اور جوں جوں نفس کی شیطانی طاقتیں ختم کریں گے اسکے ساتھ ہی قلب سے تمام میل کچیل اور زنگ دور کر کے قلب کو تمام گندگیوں سے پاک کر دیں گے قلب میں جتنا کم زنگ اور گندگی ہو گی اتنا جلدی وہ پاک ہو جائے گا اگرچہ وہ فقط ایک نگاہ سے ہی نفس کو محکوم اور قلب کو بیدار کرنے کی قدرت رکھتے ہیں مگر وہ مریض کی قوت برداشت دیکھ کر ہی جلدی یا آہستہ آہستہ علاج کرتے ہیں جب نفس امارہ محکوم اور قلب پوری طرح پاک صاف اور بیدار ہو جاتا ہے تو اب وہ اس میں محمدی خوشبو لگاتے ہیں اور پهر اس میں وہی نور خدا جو مصطفی کریم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کے سینہ انور سے نکل کر ان کے سینوں میں آیا وہ آپ کے پاک قلوب میں داخل کرتے ہیں مبارک ہو اب آپ کا قلب عرش مولا بن گیا ہے لامکاں بن گیا ہے قلب سلیم بن گیا ہے اب آپ کی باطنی آنکھ کهل جاتی ہے اور علم نافع مبشرات احوال و الہام کا نزول شروع ہو جائے گا اب آپ کا قلب علم لدنی کی آماجگاہ بن جائے گا چودہ طبق اور لوح محفوظ کا عکس اس قلب بیدار میں منقش ہو جائے گا عالم ارواح سے شناسائی ہو جائے گی اب آپ بهی آگاہ راز ہو جائیں گے قدسیوں کی باتیں سن سکیں گے یہ آپ کا کمال نہیں بلکہ اس نور کا کمال ہے جو آپ کے سینے میں داخل ہو چکا ہے اور جس کے متعلق فرمایا گیا کہ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکهتا ہے اب لبوں کو سی لے اور ہر پل ہر آن وحدت کے جام پیتے رہو اولیاء اللہ کاملین آپ کو ورد وظیفوں اور چلوں مراقبات میں نہیں ڈالیں گے بلکہ ایک ہی سجدے میں تجھے حق سے ملا دیں گے یہی تو ڈیوٹی ہے ان کی اب مرد بن کر وحدت کے سمندر میں چھلانگ لگا دے اگر ادھر ڈوبے گا تو دوسرے کنارے سے ضرور نکلے گا اولیاءکرام سے غلیظ دنیا ہرگز طلب نہ کرنا گنج بخش سے وہ گنج طلب کر جو حضرت خواجۂ خواجگان معین الدین چشتی اجمیری رحمت اللہ علیہ کو ملا جو حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو ملا جو حضرت امام واصف باصفا رحمت اللہ علیہ کو عطا ہوا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی وراثت یہ گنج ہیں یہ خزانے ہیں اگر دنیا اتنی ہی اچھی ہوتی تو مقربین کے پاس سب سے کثیر ہوتی اپنی سب سے پیاری چیز اس کی راہ میں قربان کر اور اس کے قریب ہو جا وہ چیز چاہے تیری اناء ہی کیوں نہ ہو حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اولیاء اللہ اپنے وقت کے اسرافیل ہوتے ہیں اسرافیل جب صور پهونکتے ہیں تو مردہ جسدوں کو زندہ کرتے ہیں اور اولیاء اللہ جب نگاہ کرتے ہیں تو مردہ قلوب کو زندہ کر دیتے ہیں وہ نگاہ جو مٹی کو کیمیا بنا دیتی ہے کب ہو گا کہ وہ نگاہ مُجھ پر بھی پڑ جائے اللہ تعالٰی کے دوستوں کا بولنا دراصل اللہ تعالٰی ہی کا بولنا ہوتا ہے زبان و حلق تو بندے کی ہوتی ہے لیکن اس پر کلام اللہ تعالٰی خود فرماتے ہیں

متعلقہ خبریں