رولنگ سے رولنگ تک

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 05, 2022 | 18:36 شام

 سپریم کورٹ کے5رکنی بینچ کی طرف سے7اپریل 2022ء کو قاسم سوری کی اُس رولنگ کو کالعدم قرار دیاگیا، جس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتمادکو امریکی خط کی بنا پرغیر قانونی قراردیاگیا تھا اُس خط کو تحریک انصاف کی قیادت سازش قرار دیتی تھی،یہ خط قومی سلامتی کی کمیٹی میں رکھا گیا۔ اس کمیٹی میں مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود تھے۔  اجلاس میں امریکی خط کوپاکستان میں مداخلت قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے جس بنچ ن

ے کیس سنا اس کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے۔بنچ کے ارکان میں جسٹس اعجازالا حسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل تھے۔ سات اپریل کو فیصلہ آیا9 کو اجلاس میں عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا حکم دیا گیا تھا۔ اس روز آدھی رات تک حکومت  لیت ولعل  سے کام لیتی رہی، عدلیہ کو ایکشن آتے دیکھ کر ووٹنگ ہو گئی عمران خان وزارت عظمیٰ سے فارغ، پی ڈی ایم اتحاد اقتدار میں آ گیا۔ اس کے چند روز بعد پنجاب میں بھی تبدیلی آ گئی وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی انہوں نے اس پر ووٹنگ سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا۔ نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہونا تھا۔ حمزہ شہباز اتحادی پارٹیوں کے، پرویز الٰہی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے امیدوار کے طور پرسامنے آئے پی ٹی آئی کے25ارکان نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا،کچھ ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔حمزہ شہباز جیت گئے جس پر متحارب فریق عدالت چلا گیا۔ 

ایک فیصلہ 17مئی کو سپریم کورٹ کے اسی مذکورہ بنچ نے دیا تھاجس نے قاسم سوری کی رولنگ کو رول آؤٹ کیا تھا۔یہ صدارتی ریفرنس پر فیصلہ تھا صدارتی ریفرنس مین صدر عارف علوی کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 63کی تشریح کرنے کی استدعا کی گئی کہ: ڈیفیکشن کلاز کی خلاف ورزی کرنے والے ارکان کا ووٹ شمار ہو سکتا ہے یا نہیں اور ان کی سزا کیا ہو گی؟۔ فاضل بنچ نے فیصلہ دیا کہ فلور کراسنگ کرنے والے ارکان کا ووٹ گِنا نہیں جائے گا اس فیصلے کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے منحرف25ارکان کو ڈی سیٹ کر دیاان میں سے پانچ خصوصی نشستوں پر منتخب ہوئے تھے ان کی جگہ ایک قانونی چارہ جوئی  کے بعد نئے ارکان آگئے جبکہ17جولائی کو 20 سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوا اس میں پی ٹی آئی کو15اور مسلم لیگ ن کو4سیٹیں ملیں ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا جس نے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا۔

22جولائی کوپرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کے مابین مقابلہ ہوا، حمزہ کو179پرویز الٰہی کو186ووٹ ملے، ڈپٹی سپیکر دوست مزاری اجلاس کی صدارت کر رہے تھے،پرویز الٰہی کے ووٹوں میں ان کے اپنے ووٹ سمیت ق لیگ کے 10ووٹ شامل تھے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے دوست مزاری نے کہا کہ میرے پاس مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چودھری شجاعت کا خط ہے جس میں انہوں نے  اپنے ارکان سے کہا کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں ان لوگوں نے پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ دیا ہے جن کو میں مسترد کرتا ہوں۔اس موقع پر سابق وزیر قانون راجہ بشارت نے بتایا کہ یہ اختیار پارٹی سربراہ کا نہیں پارلیمانی پارٹی کا ہے۔

پی ٹی آئی چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ لاہور سپریم کورٹ رجسٹری پہنچ گئی۔ وہاں آدھی رات کو  ان کی درخواست وصول کر لی گئی۔اگلے روز تین رکنی بنچ نے کیس سنا اور چوتھے روز ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو  کالعدم قرار دے دیا۔

 یہ مختصر کہانی ہے ایک ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے دوسرے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ تک کی مگر یہ کہانی اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ یہ اپنے اندر کئی نشیب و فراز،غبار، نفرتوں اور پیچیدگیوں کی کوکھ لئے ہوئے ہے۔ مرکز میں اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے۔ ان سب کی طرف سے یک زبان ہو کر اس کیس میں فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا ورنہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ۔پھرمنگل کو بائیکاٹ کر دیا گیا۔اس کیساتھ ہی فیصلہ دینے والے والے ججوں پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔عدلیہ کے اختیارات کم کرنے بحث  چل نکلی۔27 جولائی کو وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ"الگ برتاؤ نہیں،فیصلہ حق پر کرنا ہوگا۔" اس اجلاس میں عدالتی اصلاحات کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قرارداد بھی منظور کرلی گئی۔میں ذاتی طور  ایسی بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر اصلاحات کا حامی ہوں۔

مجیب الرحمٰن  شامی صاحب نے ایک ٹی وی ٹاک میں خوبصورت بات کی اور عدلیہ پر چڑھائی کرنیوالوں کو صائب مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے۔''آپ فیصلے  سے اختلاف کرسکتے ہیں اس پر تنقید کرسکتے ہیں مگرعدالتوں کیخلاف مزاحمت نہیں ہوتی" 

پنجاب میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق حکومت بدل گئی۔سپریم کورٹ نے یہ سوال بار بار پوچھا گیا کہ ہمارا وہ فیصلہ بتایا جائے جس کا حوالہ ڈپٹی سپیکر نے دے کر 10ووٹ مسترد کئے۔بحث یہ ہوتی رہی کہ پارٹی سربراہ کیوں ہدایت نہیں دے سکتا۔ پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے مابین ایسے اختلافات کم کم پیدا ہوتے ہیں کہ وہ دوانتہاؤں پر چلے جائیں ق لیگ میں یہ بہر حال ہوگیا ہے کیا یہ اقتدار کے لالچ کے باعث ہوا ہے؟ خاندانی اختلافات کے باعث ہوا ہے؟؟ یا یہ سیاسی رویوں میں تغیرکا شاخسانہ ہے؟؟؟۔ ق لیگ کی قیادت لااُبالی نہیں، پختہ کاراور میچور ہے چوہدری شجاعت  وزیراعظم رہے پرویز الٰہی وزیراعلیٰ رہے ڈپٹی وزیراعظم رہے،وہ بھی آصف زرداری کی پارٹی کی حکومت کے دوران۔سیاست کتنی بے مروت ہے کہ ایک خاندان کو دو پاٹ کر دیا۔یہ وہ سیاست ہے مخالفت پر اتریں تو ذاتیات سے دشمنی تک جا کر آسمان میں چھید کر دیں۔دوسرا رُخ اختیار کریں تومفاہمت کی معراج تک پہنچ جائیں۔اس کی شکل پی ڈی ایم کی صورت میں نظر آرہی ہے۔مزید براں اس کی ق لیگ کا 2013ء کے بعد بننے والی پی پی پی کی حکومت کیساتھ اتحاد بھی ایک مثال ہے رزاق جھرنا نے چودھری ظہور الٰہی کو قتل کیا اور اعتراف جرم کر کے سزائے موت پائی،پیپلز پارٹی اس کی برسی اہتمام سے مناتی ہے اور پھر چودھری ظہور الٰہی نے جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم بھی یادگار کے طور پر حاصل کر لیا تھا جس سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکم نامے پر دستخط کئے گئے تھے۔ سیاست دان سچ کہتے ہیں سیاست  میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا، سیاست کا ایک ہی رُخ اور پینترا نہیں ہوتا۔