پھانسی سے چند لمحے پہلے صدام حسین کا ایسا اقدام جس نے سیکیورٹی پر معمور امریکی فوجیوں کو بھی خوفزدہ کردیا تھا

2017 ,دسمبر 3



اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی فوجی جو عراق کے سابق صدر صدام حسین کی پھانسی کی کارروائی کی نگرانی پر مامور تھے نے صدام حسین کے بارے میں نئی تفصیلات بتائی ہیں، تفصیلات کے مطابق عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ مذکورہ فوجی نے بتایا کہ صدام حسین اپنی زندگی کے آخری لمحات میں انتہائی سکون میں اور خوش تھے اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ موجود تھی،امریکی فوجی نے کہا کہ سابق عراقی صدر صدام حسین نے اپنی پسند کا ناشتہ منگوایا اور ناشتے کے بعد وضو کرکے نمازِ فجر پڑھی اس کے بعد صدام حسین پھانسی کے فیصلے پرعملدرآمد کے انتظار میں اپنے بستر پر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے، امریکی فوجی نے بتایا کہ امریکی فوجی اہلکار صدام حسین کی مسکراہٹ سے بہت زیادہ خوف زدہ تھے اور موت کا سامنا کرتے ہوئے صدام حسین کے انتہائی سکون کے سبب ان فوجیوں یقین کی حد تک شک تھا کہ عنقریب کوئی بم دھماکا ہو جائے گا، اس فوجی نے یہ کہاکہ صدام نے ایک پہرے دار سے بڑا گرم کوٹ طلب کیا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے لوگوں کے سامنے جائیں اور ان کے عوام یہ گمان کر لیں کہ ان کا سابق صدر موت سے خوفزدہ ہے، فوجی کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابق عراقی صدر صدام حسین پھانسی سے قبل مسلسل مسکراتے رہے اور وہ کلمہ شہادت پڑھ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔عراق کے سابق صدر صدام حسین کی سکیورٹی پر مامور 12 امریکی فوجی ان کی زندگی کے بہترین دوست تو نہ تھے تاہم وہ ان کے آخری ایام میں بہترین ساتھی رہے۔

یہ 551 ملٹری پولیس کمپنیوں سے منتخب ہوئے تھے اور انھیں ‘سپر 12‘ کہا جاتا ہے۔ ان محافظوں میں سے ایک ول بارڈنورپر تھے جنھوں نے ‘دی پرزنر اِن ہز پیلس’  کتاب لکھی۔ جس میں انھوں نے صدام حسین کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں لکھا۔ بارڈنورپر کا کہنا ہے کہ جب صدام حسین کو پھانسی دینے والے اہلکاروں کے سپرد کیا جا رہا تھا تو ان کے تمام محافظوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اپنے ایک ساتھی ایڈم فوگرسن کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب کے مصنف ول بارڈنور نے لکھا کہ ہم نے صدام کو کبھی بھی نفسیاتی مریض اور قاتل کے طور پر نہیں دیکھا ہم اسے گرینڈ فادر کے طور پر دیکھتے تھے۔ عراق کے سابق صدر صدام کو اپنے 148 مخالفین کے قتل کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ صدام اپنے آخری دنوں میں امریکی گلوکار میرے جے بلیزرڈ کے گانے سنا کرتے تھے۔ وہ اپنی قیمتی ایکسرسائز بائیک جسے وہ ‘پونی’ کہتے تھے پر بھی بیٹھا کرتے تھے۔ وہ میٹھا کھانے کے بہت شوقین تھے اور ہر وقت انھیں مفرد کھانے کا دل کرتا تھا۔ بارڈنورپر کہتے ہیں کہ آخری ایام میں صدام کا دوسروں کے ساتھ رویہ بہت نرم تھا اور انھوں نے یہ تاثر نہیں چھوڑا کہ وہ بہت ظالم حکمران تھے۔

متعلقہ خبریں