چند روز قبل سعودی عرب میں ایک شہزادے کا سرکیوں قلم کر دیا گیا ؟اصل کہانی سامنے آگئی
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اکتوبر 20, 2016 | 17:25 شام

لاہور(شیر سلطان ملک)13دسمبر 2012 کوعیش وعشرت اورنازونعم میں پلا ایک عرب شہزادہ اپنے دوستوں کے ساتھ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کے شمال میں واقع سیاحتی مقام "ثمامہ" کی طرف گاڑی میں سفر کررہا تھا ۔ان کی گاڑی کے ساتھ دوستوں کی دو اور گاڑیاں بھی تھیں ۔ایک گاڑی میں شہزادے ترکی بن سعود کا دوست عادل المحمیدتھا۔ثمامہ کے سیاحتی مقام پر ارب شہزادے اور اسکے دوستوں کا ایک اسلحہ ڈیلر سے جھگڑا ہو گیا ۔ اچانک زبردست فائرنگ شروع ہوجاتی ہے۔نوجوان شہزادے نے بھی اپنی پسٹ
ل سے اندھا دھند فائرنگ کی،جس کے نتیجے میں ایک گولی شہزادے کے دوست عادل المحمید کوجا لگی ،جو بعد میں عادل کے پیچھے کھڑے شہزادے کے دوسرے دوست عبدالرحمن التمیمی کو بھی لگی۔نتیجتا شہزادے کا دوست عادل موقع پر جاں بحق ہوگیا اوردوسرا دوست بری طرح زخمی ہوگیا۔ اس دوران جب شہزادے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا دوست عادل اس کی گولی سے ماراگیا تو وہ سخت صدمے سے دوچار ہوتاہے۔ اور خود فون کر کے پولیس کو موقع پر بلاتا ہے ۔ پولیس موقع پر پہنچتی ہے اور تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ شہزادہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا۔معاملہ عدالت میں جاتا ہے۔جہاں کئی سماعتوں کے بعد جرم ثابت ہونے پر شہزادے کو عادل المحمید نامی شخص کے قتل کے جرم میں قصاصاًسزائے موت سنا دی جاتی ہے ۔
شہزادے کے اقرباء اور شاہی خاندان کے افراد کی طرف سے مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی پیشکش کی جاتی ہے۔شہزادے کی جان بچانے کے لیے ہر طرح کی کوششیں اور منتیں کی جاتی ہیں،یہاں تک کہ ریاض کے گورنر امیر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز بھی مقتول کے لواحقین کی منت سماجت کرتے ہیں،لیکن مقتول کے والد قتل کا بدلہ صرف قتل چاہتے ہیں ۔بالآخر 18اکتوبر 2016 ء کو کہانی ختم ہونے لگتی ہے۔18 اکتوبر شہزادے کی زندگی کا آخری دن ہوتاہے۔آج کے دن شہزادے قصاص کے طور پر شہزادے کی گردن اڑائی جانی ہے عینی شاہد ڈاکٹر محمد المصلوخی کے مطابق تہجد کے وقت شہزادے کو جیل سے نکالا جاتاہے۔شہزادہ تہجد کی نماز اداکرتا ہے ،پھر فجر کی نماز تک قرآن کی تلاوت میں مصروف رہتا ہے ۔صبح سات بجے جیلر دوبارہ شہزادے کو لے جاتے ہیں۔شہزادہ اپنی ہاتھ سے کوئی وصیت نہیں لکھتا،بلکہ کسی دوسرے شخص کے ذریعے اپنی وصیت قلمبند کرواتا ہے ۔دن گیا رہ بجے شہزادے کو غسل کراکر قصاص والے میدان کی طرف لےجایا جاتاہے۔جہاں شاہی خاندان کےسینکڑوں معزز لوگ اوردیگر حکومتی شخصیات شہزادے کی سفارش کے لیے اربوں ریال دینے کے لیے تیار کھڑےتھے۔دوسری طرف مقتول عادل کے والد اور لواحقین بھی آج انصاف کے نافذ ہونے کے منتظر تھے۔یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوجاتاہے ،شہزادے سمیت تمام لوگ ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں،نماز کے بعد ریاض کے گورنر امیر فیصل بذات خود شہزادے کی سفارش کے لیے مقتول عادل کے والد کے پاس جاتے ہیں،مگر مقتول کے والد گورنر کی درخواست کو ٹھکرادیتے ہیں اور شریعت کا مطالبہ قصاص برقرار رکھتے ہیں۔شام 4 بج کر 13 منٹ پر جلاد میدان میں آتا ہے اور مقتول عادل کے والد کے سامنے اللہ کے حکم (قصاص) کو نافذکردیتے ہیں،اس دوران مجمعے میں شہزادے کے والد کی زوردار چیخ سنائی دیتی ہے اور پھرمجمعے پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔
شاہی خاندان کا شہزادہ ترکی بن سعودوقت کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا بھتیجا تھا،جس کے عزیز واقارب نہ صرف حکومتی عہدے دار ہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود انصاف کی راہ میں نہ کوئی بادشاہ رکاوٹ بنتا ہے،نہ ان کی دولت انصاف کا راستہ روکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے پرامن ملکوں میں سے ہے ایک ہے،جہاں قتل وغارت گری،چوری ڈکیتی،کرپشن اوررشوت ایسے جرائم کا تصور تک نہیں ہے۔ایک عام آدمی وقت کے بادشاہ کو عدالت میں کھڑا کرسکتاہے۔
شہزادے کے اقرباء اور شاہی خاندان کے افراد کی طرف سے مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی پیشکش کی جاتی ہے۔شہزادے کی جان بچانے کے لیے ہر طرح کی کوششیں اور منتیں کی جاتی ہیں،یہاں تک کہ ریاض کے گورنر امیر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز بھی مقتول کے لواحقین کی منت سماجت کرتے ہیں،لیکن مقتول کے والد قتل کا بدلہ صرف قتل چاہتے ہیں ۔بالآخر 18اکتوبر 2016 ء کو کہانی ختم ہونے لگتی ہے۔18 اکتوبر شہزادے کی زندگی کا آخری دن ہوتاہے۔آج کے دن شہزادے قصاص کے طور پر شہزادے کی گردن اڑائی جانی ہے عینی شاہد ڈاکٹر محمد المصلوخی کے مطابق تہجد کے وقت شہزادے کو جیل سے نکالا جاتاہے۔شہزادہ تہجد کی نماز اداکرتا ہے ،پھر فجر کی نماز تک قرآن کی تلاوت میں مصروف رہتا ہے ۔صبح سات بجے جیلر دوبارہ شہزادے کو لے جاتے ہیں۔شہزادہ اپنی ہاتھ سے کوئی وصیت نہیں لکھتا،بلکہ کسی دوسرے شخص کے ذریعے اپنی وصیت قلمبند کرواتا ہے ۔دن گیا رہ بجے شہزادے کو غسل کراکر قصاص والے میدان کی طرف لےجایا جاتاہے۔جہاں شاہی خاندان کےسینکڑوں معزز لوگ اوردیگر حکومتی شخصیات شہزادے کی سفارش کے لیے اربوں ریال دینے کے لیے تیار کھڑےتھے۔دوسری طرف مقتول عادل کے والد اور لواحقین بھی آج انصاف کے نافذ ہونے کے منتظر تھے۔یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوجاتاہے ،شہزادے سمیت تمام لوگ ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں،نماز کے بعد ریاض کے گورنر امیر فیصل بذات خود شہزادے کی سفارش کے لیے مقتول عادل کے والد کے پاس جاتے ہیں،مگر مقتول کے والد گورنر کی درخواست کو ٹھکرادیتے ہیں اور شریعت کا مطالبہ قصاص برقرار رکھتے ہیں۔شام 4 بج کر 13 منٹ پر جلاد میدان میں آتا ہے اور مقتول عادل کے والد کے سامنے اللہ کے حکم (قصاص) کو نافذکردیتے ہیں،اس دوران مجمعے میں شہزادے کے والد کی زوردار چیخ سنائی دیتی ہے اور پھرمجمعے پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔
شاہی خاندان کا شہزادہ ترکی بن سعودوقت کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا بھتیجا تھا،جس کے عزیز واقارب نہ صرف حکومتی عہدے دار ہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود انصاف کی راہ میں نہ کوئی بادشاہ رکاوٹ بنتا ہے،نہ ان کی دولت انصاف کا راستہ روکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے پرامن ملکوں میں سے ہے ایک ہے،جہاں قتل وغارت گری،چوری ڈکیتی،کرپشن اوررشوت ایسے جرائم کا تصور تک نہیں ہے۔ایک عام آدمی وقت کے بادشاہ کو عدالت میں کھڑا کرسکتاہے۔