گزارہ نہیں ہوتا

2020 ,فروری 8



گائوں سے دور ڈھاری کا مکین اللہ دتہ کہہ رہا تھا، یااللہ تیرا شکر تونے مجھے اتنا رزق دیا ہے۔ڈھاری تک سڑک ہے نہ بجلی،گیس تو وہم گماں بھی نہیں۔شکر کررہا تھامونجی اور گندم کٹائی کی مزدوری سے بیس بیس من اناج گھرآگیا۔تیس ہزار کاعید پر بکرا بِک گیا تھا۔اس سے پوچھا تیرا گزارہ کیسے ہوتا ہے۔اس نے کہا: اللہ کا لاکھ لاکھ شکر‘ کوئی کمی نہیں۔ اسکی ضروریات محدود ہیں لہٰذا کچھ بھی کم نظر نہیں آتا۔ایک ہم ہیں ہمارا گزارہ نہیں ہوتا، ہما شما کیا ‘بڑے بڑوں کا نہیں ہوتا۔

سنگاپور کے صدرکی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر ماہانہ ہے۔اپالوآلٹو نیٹ ورک کے سی ای او بھارتی انجینئر نکیش اروڑہ اورایپل کے سی ای او ٹم کک کی ماہانہ آمدن ایک ایک کروڑ ڈالر سے کچھ اوپر ہے۔روپے میں جانچنا اور ماپنا ہے تو150 سے ضرب دے لیں۔سو سے بڑا ڈالر کا نوٹ نہیں ہے۔بر سبیل تذکرہ دنیا میں سب سے بڑا کرنسی نوٹ زمبابوے کا 100کھرب ڈالریعنی سو ٹریلین کا تھا اس کی مالیت پاکستان کے ایک سو روپے کے برابر تھی۔ اب اس ملک نے اپنی کرنسی ہی ختم کردی ہے۔

پاکستان میں سرکاری عہدیداروں میں محتسب اعلیٰ کا ماہانہ معاوضہ 14 لاکھ بتایا گیا ہے۔آج یہی کسی سرکاری عہدیدار کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ ہے،مگرماضی میں ’’ لُٹ‘‘ پڑی تھی اسی سے معیشت کی دِلی لُٹ گئی ۔ایک ایم ڈی پی ایس او ہواکرتے تھے،انکی صافی ماہانہ تنخواہ 37لاکھ روپے تھی۔مراعات ملا کر پچاس لاکھ وصول کرتے تھے۔جسٹس ثاقب نثارکے سامنے یہ تفصیلات اور ایم ڈی آئے تو چیف جسٹس سٹپٹا گئے تھے۔اتنے میں بھی اُس ایم ڈی کا گزارہ ہوتا بھی ہوگایا نہیں۔خود جناب ثاقب نثار بھی دس لاکھ روپے پنشن میں گزارہ کر پارہے ہونگے؟

پرائیویٹ سیکٹر میں ہمارے ہاں بھی بڑی بڑی تنخواہیں ہیں۔ ٹی وی اینکرز کے پُر کشش معاوضے ہیں،کئی 80 لاکھ تک بھی لیتے ہیں، ’’ھَل مِن مزید‘‘کیلئے چینل بدلی بھی جاری رہتی ہے کیونکہ گزارہ نہیں ہوتا۔دروغ بر گردن دوست سرفراز راجا:وینا ملک کی ایک چینل میں تنخواہ چالیس لاکھ تھی دوسرے چینل میں ایک کروڑ پر چلی گئیں۔ ایسے لوگ چینلز کومہنگے نہیں پڑتے کیونکہ اشتہارات کی مد میں ساری کسر نکل جاتی ہے۔وینا شاید اب شوبزسے دور چلی گئی ہیں مگرعمران خان کے مخالفوں پر پاک فضائیہ کے ابھی نندن اور’’ کبھی نندن‘‘ پر جھپٹنے کے انداز میں جھپٹتی ہیں۔ٹویٹر پر تنقیدکاروں پر تیر اورتبرے برساتی ہیں۔ان کا گزارہ اب بھی ہوتاہی ہوگا۔

کم از کم تنخواہ کی کوئی حد نہیں، پاکستان بھارت میںکئی لوگ سانس اور جسم کا ربط، بے ضبط ہونے سے بچانے کیلئے محض ایک وقت کی روٹی کے معاوضے پرمل جاتے ہیں۔ یہ بھی نہ کریں تو گزارہ نہیں ہوتا۔پاکستان میں تنخواہوں میں اضافے کیلئے نجی اور سرکاری اداروں کے ملازمین کبھی پُرامن احتجاج اور کبھی پُرجلال مظاہرے کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں ،اساتذہ نرسوں کے تنخواہوں میںاضافے کے مطالبات کے حق میں کئی حلقے آواز بلند کرتے ہیں۔ پولیس سمیت سکیورٹی فورسز کو احتجاج تو کیا، مطالبے کا بھی حق حاصل نہیں۔

عوامی نمائندے بھی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی بات کرتے ہیں۔ عوامی نمائندوں میں ضلع ناظم سے نیچے تک لیبر ،لیڈی اور کسان کونسلر شامل ہیں۔ ضلع ناظم کے عہدے کی دلکشی پر کئی ایم این اے حضرات مستعفی ہو کرسرخرو ہوئے۔ لیبر لیڈی کسان ممبر کی تنخواہ ہی نہیں ہے۔ ان کا گزارہ؟

بہت سے قومی اسمبلی ، سینٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کا مروجہ مراعات میں گزارہ نہیں ہوتا۔انکی طرف سے گزارے لائق معاوضے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی انکی مراعات کی بات ہوتی ہے تولَٹھ اور سنگ وخشت اُٹھائے ہجوم سامنے آجاتا ہے۔ہرکسی کو اپنا حق مانگنے کی آزادی ہے مگر ان کو نہیں!اگر مانگیں تو سخت سوالات بلکہ اور اشتعال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اینکر لال بھبوکا ہوجاتے ہیں۔ سینٹ میں عوامی نمائندوں کی مراعات کیلئے جو بل پیش کیا گیا اس میں کہا گیا: سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کی تنخواہ 2 لاکھ25 ہزار سے بڑھا کر سپریم کورٹ کے جج کی بنیادی تنخواہ 8 لاکھ،79 ہزار ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 1 لاکھ 85 ہزار سے بڑھا کر 8 لاکھ 29 ہزار روپے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی بنیادی تنخواہ کے برابر اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ 1 لاکھ 50 ہزار روپے سے 3 لاکھ روپے مقرر کردی جائے۔

اس بل پر شدید تنقید ہوئی جو سینٹ کی اکثریت کی توجہ حاصل نہ کرسکا۔ اسے 16کے مقابلے میں 29ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔ عوامی سطح پر اور میڈیا میں تو مراعات میں اضافے کی آرزو کرنے والوں خبر لی جانے لگی ۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان جنہوںبل پاس ہونے پر مستفید ہونا تھا وہ بھی گوشمالی کرنے لگے۔’’یہ بھلا حالات ہیں تنخواہوں میں اضافے کے،معیشت سسک رہی ہے،انسانیت بلک رہی ہے ان کو اضافے کی پڑی ہے۔‘‘ایسا کہنے والوں کی بلے بلے ہوگئی۔مطالبہ کرنیوالے شرمندہ شرمندہ کہہ رہے ہونگے…ع

اپنے بھی خفا مجھ سے بے گانے بھی ناخوش

قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کی طرف سے جیسے ہی تنخواہوں میں اضافے کی بات کی جاتی ہے توان پر یلغار سی کیوں ہونے لگتی ہے۔ اسکی وجہ ان فاضل ارکان کے بارے میں امیر کبیر ہونے جائز و ناجائز جائیدادیں بنانے کا بجایا بے جا عمومی تصورو تاثر ہے۔وسیع القلبی سے تمام برائیاں انکے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں …ع

ہر داغ ہے دامن پہ ’مع‘ داغِ ندامت

مگر سارے کے سارے جس طرح پارسا نہیں ہیں اسی طرح وسائل کا اجاڑا کرنے والے بھی نہیں ہیں۔ اثاثے چھپانے والے ہیں موجودتو سفید پوش بھی لا موجود نہیں گوانکی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے۔

سفید پوش ارکان کی دادرسی کی ضرورت ہے مگر جس کی وہ توقع کرتے ہیں وہ عبث ہے۔ انکی تنخواہوں میں سرکاری ملازمین کی طرح بجٹ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ جو واقعی بے وسیلہ ہیں،جن کا ’’اُکّاای‘‘ گزارہ نہیں ہوتاانکی ڈیمانڈ کے مطابق تنخواہ مقرر کر دی جائے۔ ایسے حقدار کم ہی ہونگے۔ہمارے ہاں چونکہ مبالغہ سکہ رائج الوقت ہے اگرہر کوئی قطار میں کھڑا ہوجائے تو بیت المال کی طرف رجوع کرنے کا کہا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹرین کی طرف سے ایک زیادتی ضرور کی گئی ہے۔ آپ ججوں کے برابر تنخواہیں کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا عوامی نمائندگان کی بھی کوئی تعلیم ہونی چاہئے؟ جج کی ابتدائی تعلیم پیشہ ورانہ تعلیم اور تجربہ بھی پیش نظر رہے۔ قانون سازوں کی قانون کے حوالے سے تو کوئی تعلیم مقررہو۔

سینیٹ میں مراعات کے اضافے کیخلاف دھواں دار تقریریں ہوئیں۔ تنخواہوں میں کمی کا اعتراف کرتے ہوئے ان میں اضافے کی ضرورت سے اتفاق ضرور کیا گیا مگر سرِدست اضافے کی مخالفت معاشی حالات کی زبوں حالی کے باعث کی گئی۔ گویا معیشت مضبوط ہوتی تو اضافے میں حرج نہ ہوتا۔ معیشت کیوںزبوں حال ہے؟ وسائل کو لوٹا گیاجو غربت کسمپرسی، پسماندگی ،درماندگی کا سبب بنا۔ کبھی ہم چین کو قرضہ دیتے، ملائشیا‘ جرمنی اور سنگاپور کی مدد کرتے تھے۔ پاکستان نے جس طرح ٹیک آف کیا تھا وہ جاری رہتا تو پاکستان ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا۔ بطورِ ریاست پاکستان نے ترقی نہیں کی کیونکہ جن کا بس چلا انہوں نے خیرہی نہیں کی۔یہ کون لوگ ہیں ؟وہ خود نہیں انکے اثاثے بولتے ہیں۔ ٹی ٹیز کی قطار، محلات کی بھرمار اندرون بیرون ممالک دولت جائیدادوں کے انبارییلو بلیو اکاؤنٹس کا طومار اوپر سے ’ ہم سے کون پوچھ سکتا ہے‘ کی سوچ کا خمار مگر جب ہاتھ پڑا تو نکلے کوئی بیمار، سے بیمار!

پاکستان کی ترقی کا سفر جاری رہتا تو ادنیٰ و اعلیٰ عوامی نمائندوں سمیت سرکاری و غیر سرکاری ملازموں کی تنخواہیں اتنی ہی ہوتیں جتنی برطانیہ ، امریکہ میں پاکستانی ہنر مندوں کی ہیں۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا،پاکستان ترقی کے آسماں کو چھو سکتا ہے۔ہر شہری خوشحال ہوسکتا ہے۔مہنگائی ناک رگڑتی نظر آئیگی۔عوامی نمائندوں کی مراعات تو سنگاپور کے صدر جتنی ہوسکتی ہیں بشرطیکہ احتساب کڑا اور بے لاگ ہو ۔ پارلیمان میں جن لوگوں نے تنخواہوں میں اضافے کی بات کی ان سمیت بہت سے فاضل ارکان خم ٹھونک کرکرپٹ لیڈروں کی حمایت کرتے ہیں ۔ انکی پارسائی کی قسم کھاتے ہیں۔ ’میرا چور چودھری تیراچورچمار‘ کا رویہ کارفرما ہے۔ اسطرح تو روپے کی حالت زمبابوین ڈالر جیسی ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بہرحال احتساب کیلئے پرعزم ہیں۔ ان پر طرح طر ح کے دبائو ہیں مگر ابھی تک پایۂ استقلال میں لرزش نہیں آئی۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں انکی طرف سے سنایا جانیوالا شعر انکے کرپٹ مافیا کیخلاف کسی بھی حد تک جانے کے ارادے کا عکاس ہے۔

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے

میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

متعلقہ خبریں