خزیمہ نصیر کے نقش قدم پر چلنے والے درجنوں پاکستانی نوجوان سربیا میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہوگئے
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 19, 2016 | 09:33 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک ) غربت بیروزگاری خراب سماجی حالات اور چند دیگر مسائل سے عاجز آکر کچھ لوگ مہاجرت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ لیکن انکا یہ انتخاب اس وقت انکی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جاتا ہے جب اس مقصد کے لیے غیر قانونی طریقہ سے دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ایسا ہی کچھ سربیا کے دارلحکومت بلغراد میں ان درجنوں پاکستانی اور افغان مہاجرین نوجوانوں کے ساتھ ہوا جو یورپی ممالک میں سیاسی پ
سربيا کے دارالحکومت بلغراد کو کروشيا کے دارالحکومت زغرب سے ملانے والی شاہراہ پر گشت کرنے والے پوليس اہلکاروں نے گنجائش سے زيادہ لدی ہوئی اس وين کو ديکھا، جس ميں سے دھواں نکل رہا تھا۔ گاڑی کا ڈرائيور موقع سے فرار ہوچکا تھا ۔ گاڑی پر سوار افراد ميں سے 42 کو طبی امداد فراہم کی گئی کيونکہ دھوئيں ميں سانس لينے اور سرد موسم کے سبب ان کی طبيعت بگڑ گئی تھی۔
کروشيا کی ايمرجنسی ميڈيکل کيئر کے محکمے کے سربراہ نے بتايا کہ وين کے سامان رکھنے والے حصے ميں گھنٹوں گزارنے کی وجہ سے چند تارکين وطن بے ہوش ہو گئے تھے تاہم ان ميں سی کسی کی بھی جان کو خطرہ نہيں تھا۔ ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ جس وقت گاڑی کو روکا گيا، اگر اس سے کچھ دير بعد ايسا کيا جاتا تو ممکن ہے کہ چند مسافروں کی حالت تشويش ناک ہوتی۔ امکان ظاہر کيا جا رہا ہے کہ تارکين وطن سربيا سے کروشيا ميں داخل ہوئے تھے اور ان کی حتمی منزل مغربی يورپی ممالک آسٹريا يا جرمنی تھے۔گزشتہ برس يورپ ميں ايک ملين سے زائد تارکين وطن کی آمد کے بعد اس سال يہاں پہنچنے والے مہاجرين کی تعداد ميں خاطر خواہ کمی تو رونما ہوئی ہے ليکن انسانوں کے اسمگلر اب بھی سرگرم ہيں۔