2022 ,دسمبر 1
شہباز گل نے انکشاف کیا ہے کہ حراست کے دوران ان سے جنرل عاصم منیر کے بارے میں بھی سوال کئے جاتے تھے۔ انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ ارشد شریف نے اپنے قتل سے تین روز قبل فون پر کہا تھا کہ جنرل عاصم منیر یا ساحر شمشاد میں سے ایک آدمی چیف بنے گاتو ہمیں انصاف ملے گا۔شہباز گل کی بات اگر درست ہے تو پھر فوج کے اندرپائے جانے والے اختلافات کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں میں صداقت تھی۔
جنرل باجوہ کے طاقتور گروپ کو سینئر ترین جنرل پر بھی اعتماد اور اعتبار نہیں تھا۔ وہ جنرل عاصم منیر کو بھی عمران خان کا حامی سمجھتے تھے۔ عاصم منیر وہ شخص تھے جو ایم آئی کے ہیڈ تھے اور نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں جے ائی ٹی بنی تھی کمیٹی کے ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز جے آئی ٹی میں شامل تھے۔ بننے والی جی آئی ٹی میں انہوں نے ہی بریگیڈیئر کا۔مران کو تعینات کیا تھا۔ دوسرے افسر آئی ایس آئی سے آئے تھے۔ ان فوجی افسران نے نواز شریف کے خلاف جو ثبوت نکالے وہ ناقابلِ تردید ٹھہرے جو نواز شریف کو تاحیات نااہل اور دس سال قید کی سزا کرا گئے۔
جنرل عاصم منیر سے کیاتوقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ جنرل باجوہ کی باقیات کو گلے سے لگا لیں گے جو ان کے بھی پیچھے پڑی ہوئی تھیں؟؟؟۔ اس تناظر میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ ہونے والی ہے۔ جنرل عاصم منیر کلیدی پوسٹوں پر اپنے اعتماد کے افسر لائیں گے۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ کیا ہاتھ تو نہیں ہوگیا؟ اس بارے میں دو چار روز میں شواہد سامنے آجائیں گے۔جنرل عاصم منیر سے میرٹ اور غیر جانبداری سے کام کرنے کی توقع ہے۔ وہ سیاست سے دور رہیں تو اس کے لیے اور ملک و قوم کے لیے بہت ہی بہتر ہے مگر اس سے ن لیگ کی لٹیا ڈوب جائے گی۔ جو ہمارا جرنیل کا لاگ الاپے جا رہے ہیں۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ جنرل باجوہ اپنی لیگیسی ساتھ ہی لے گئے۔ ان کی باقیات منہ چھپا رہی ہیں۔ فوج میں کوئی ان کی پالیسیاں ٹو کرنے کے لیے کھینچنے کے لیے کسی طور بھی تیار نہیں ہے۔اعظم سواتی پر مقدمات در مقدمات درج ہوئے اور انکو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ان کا چار روزہ ریمانڈ دیا گیا جو ہفتے کو ختم ہونا تھا۔
آج جمعرات ہے ریمانڈ کے دوسرے روز ہی ایف آئی اے نے کہا کہ ہمیں اب ان کا ریمانڈ نہیں چاہیے اس سے واضح ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ کے ساتھ ہی مظالم ، بربریت اور جبر رخصت ہو گیا۔ امپورٹڈ حکومت سے بھی جلد نجات ملنے کی امید ہے۔مرکز میں جتھہ اتحادیوں کی حکومت سسک رہی ہے سہک رہی ہے اور اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے