شہنشاہ اکبر ِاعظم کے نورتن

2017 ,نومبر 17



لاہور(عارف جمیل):" نورتن" کا لُغت میں مطلب موتی ،ہیرا،یاقوت وغیرہ ہے لیکن بکرماجیت اور اکبر ِاعظم کے نورتن اُن 9قابل آدمیوں کی کونسل (موتیوں کی لڑی) کہلاتی ہے جنہوں نے اپنے اپنے دور کے آقائوں کیلئے سلطنت کی وسعت کے ساتھ آئینی ،علمی ،عملی،ادبی وغیرہ جیسی خدمات بھی انجام دیں اور تاریخ میں اپنی الگ ہی شناخت چھوڑ گئے۔ بکرماجیت 375ء تا 413ء گپت خاندان کا تیسرا جنگجو راجہ تھا جس نے ہندوستان میں فتوحات کے ساتھ آریہ تہذیب و تمدن اور علم و ادب کو ازسر ِنو زندہ کیا تھا۔اسکے نورتن میں مشہور ِزمانہ شاعر و ڈرامہ نگار "کالی داس" کانام تو سب جانتے ہیں ۔ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 14سال کی عمر میںاپنے والد بادشاہ ہمایوں کے انتقال کے بعد حکومت سنبھالی جس میں سب سے اہم کردار اُنکے اتالیق بیرم خان کا تھا۔اُنھوں نے اپنی سرپرستی میں انتہائی وفاداری کے ساتھ اُنھیں ہندوستان کے تخت پر بٹھایا اور پھر ہندوستان کے شورش زدہ علاقوں میں سازشوں کا سد ِباب کیا۔اسطرح بادشاہ اکبر نے 1556ء تا1605ء تک تقریباً پچاس سال ہندستان پر حکومت بھی کی اور اس دوران اپنی سلطنت کو وسعت دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس دوران شہنشاہ اکبر ِاعظم کے اہم درباریوں میں وہ "نورتن"بھی شامل تھے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا اور اُن سب کی زندگی کے چند اہم پہلو ہی اُنکی وہ پہچان بنے جسکی وجہ سے آج بھی اُنکا ذکر مختلف شعبوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ 1) راجا بیربل: اکبر اعظم کے نورتنوں میں سے ایک برہمن ہندو ۔نام مہیش داس ،ذات بھاٹ ۔ابتدا میں نہایت غریب اور پریشان حال تھے۔اکبر کی تخت نشینی پر دربار میں حاضر ہوئے اور اپنی لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی کی وجہ سے بادشاہ کا قُرب حاصل کر لیا۔اکبر اُنھیں صاحب ِدانشور کہا کرتے تھے ۔ سنسکرت کے عالم تھے۔ بیربل مہم یوسف زئی (سوات و باجوڑ)کی لڑائی میں مارے گئے اور لاش نہ مل سکی ۔اس پر بادشاہ اکبر کو اتنا صدمہ ہوا کہ اُنھوں نے دو دن کھانا نہیں کھا یا ۔ 2) ابوالفیض فیضی : دربار اکبری کے رتن،شیخ مبارک کے بیٹے ، ابوالفضل کے بڑے بھائی ،بلند خیال شاعر اور شگفتہ مزاج عالم تھے۔ قرآن مجید کی تفسیر سواطع الالہام تحریر کی۔ جس میں نقطے والا کوئی حرف نہیں لکھا۔بارھویں صدی کے ثمر قند کے نظامی گنجوی کی مشہور ِزمانہ خمسہ ء نظامی (پانچ مثنویوں) کے جواب میں مثنویاں لکھ ڈالیں۔ہندوئوں کی اہم کتاب مہا بھارت کا ترجمہ فارسی میں کیا۔اپنے علم و حکمت کی وجہ سے شہزادوںکے اتالیق بھی رہے۔ دمہ کی بیماری میں 52سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ 3) ابو الفضل: 1572ء میں اپنے بڑے بھائی فیضی کے ساتھ دربار ِاکبری میں باریاب ہوئے اور 1600ء میں منصب ِچار ہزاری پر فائز ہوئے۔اپنے وقت کے علامہ اور بلند پایہ مصنف تھے۔علامی تخلص تھااور آزاد خیال فلسفی ہونے کی وجہ سے علماء اُنھیں دہریہ سمجھتے تھے۔اسی لئے اکبر کے "دین الٰہی" کے اجراء کا سبب اُنہی کو گردانا جاتا ہے۔"اکبر نامہ" اور" آئین اکبری" اہم تصانیف اور خطوط کا مجموعہـ" مکتوبِ علامی "فارسی ادب کا شکار سمجھا جاتا ہے۔شہزادہ سلیم (جہانگیر)کا خیال تھا کہ ابو الفضل اُسکے بیٹے خسرو کو ولی عہد بنانا چاہتے ہیں لہذااُنکے اشارے پر راجہ نر سنگھ دیو نے 53سالہ ابو الفضل کو اُس وقت قتل کر دیا جب وہ دکن سے لوٹ رہے تھے۔اعلیٰ ترین خوبی یہ تھی کہ کمال کے واقعہ نویس تھے۔ 4) تان سین: دربارِاکبری کے ایک ایسے اہم نورتن تھے جنکا نام آج بھی ہندوستان کے موسیقار ِاعظم کی حیثیت میں ہر ایک کی زبان پر ہے۔برصغیر ِکی کلاسکی موسیقی اُنکے راگوں پر ہی زندہ ہے۔ لہذا اُنکے بعد آنے والے اُستادوں نے راگ ودیا میں تبدیلی نہیں کی۔"دھرپت راگ" کو موجودہ فنی شکل تان سین نے ہی دی تھی۔درباری کانٹرا ،میاں کی ملہار اور میاں کا سا رنگ جیسے راگ بھی اُنہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ وفات پر شنہنشاہ اکبر نے بھی شرکت کی۔ 5) عبدالرحیم:آپ بیرم خان کے فرزند تھے اور لاہور میں پیدا ہوئے۔والد کے قتل کے بعد جب ابھی اُنکی عمر 5سال تھی تو بادشاہ اکبر نے اُنھیں اپنے پاس بُلا لیا اور شہزادوں کے ساتھ پرورش کی۔ 20سال کی عمر میں شہزادہ سلیم (جہانگیر)کا اتالیق بنایا گیا۔ نہایت حسین تھا۔ مختلف معرکوں میں سپاہیانہ جوہر دکھائے اور کئی بغاوتوں کو ناکام کیا۔بہادر سپاہی ،عالم فاضل اور عربی،فارسی،ترکی ،سنسکرت کے ماہر تھے۔ ہندی میں شعر کہتے تھے۔ان سب خوبیوں کی وجہ سے اہم نورتن رہے۔ اُنکی وفات بادشاہ جہانگیر کے دور میں ہوئی۔ 6) راجہ مان سنگھ: برہمن ہندو تھے۔اُنکی وفاداری اور ملنساری اکبر بادشاہ کے دل پر نقش ہو گئی۔اُنکی رفاقت نے بادشاہ کو اپنائیت اور محبت سکھائی۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اُنکی وجہ سے اکبر بادشاہ کو ہندوستان میں پذیرائی حاصل ہوئی اور تیموری خاندان کی بنیاد بھی مضبوط ہوئی۔بہادری اور جوانمردی میں اپنی مثال آپ تھے لہذا سپہ سالار بھی مقرر ہو ئے۔اُنکی بہن کی شادی جہانگیر سے ہوئی اور پھر جہانگیر کے بیٹے خسرو کے اتالیق بھی مقرر ہوئے۔ 7) مُلا دوپیازہ: اصل نام ابوالحسن اور پیدائش طائف نزد مکہ مکرمہ (عرب) کی تھی۔والد سوتیلی ماں سے اختلاف کی بنا پر گھر چھوڑ گئے تو اُنکی تلاش میں قافلہ در قافلہ سفر کرتے ہوئے ایران پہنچ گئے۔وہاں سے مغل فوج میں تعلق کی بناپرہندوستان آگئے اور ایک مسجد میں قیام کر لیا۔اپنی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی سے شہر میں شہرت ہوئی تو ایک دعوت پر مدعو ہونے پر کھانا بہت پسند آیا ۔کھانے کا نام پوچھا تو جواب ملا کہ" دوپیازہ پلائو"۔اُنھوں نے کہا کہ آئندہ کسی بھی دعوت میں شرکت پر اس کھانے کی تمنا ہو گی۔بس وہاں سے ہی اس نام سے مشہور ہوگئے ۔60برس کی عمر میں بیماری کی وجہ سے انتقال ہوا۔ 8) راجہ ٹو ڈرمل : ذات میں کھتری ہندواور دربار ِاکبری میں مقام 22صوبوں کا دیوانِ کُل اور وزیر باتدبیر تھے۔بیوہ ماں کی دُعائوں سے اعلیٰ رُتبہ پایا۔سپاہ گیری اور سرداری کے جوہر نے بھی اُنکی اہمیت اُجاگرکی ۔پابندی ِآئین احکام میں کسی کو رعایت نہیں دیتے تھے لہذا اُن پر سخت مزاجی کا الزام تھا۔انتہائی قابل،معاملہ فہم اور دانشمند کہلائے۔بڑھاپے میں بیماری کی وجہ سے وفات پائی۔ 9) مرزا عزیز کوکلتاش : آپ کی والدہ نے اکبر کو دودھ پلایا تھا لہذا وہ اکبر بادشاہ کے رضاعی بھائی کہلائے اور اس وجہ سے اُنکا حترام بھی بہت تھا۔خان اعظم کا خطاب بھی حاصل ہوا۔ بادشاہ ہر وقت اُنھیں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور ہاتھی پر سواری کے وقت اُنھیں خواصی پربٹھاتے تھے۔ ایک طرف سخاوت و شجاعت کی وجہ سے درباری پسند کرتے تھے تو دوسری طرف غصے و سخت مزاج کی وجہ سے چند اچھے انسان اُن سے نالاں بھی تھے۔ طبیعت میں زمانہ سازی بالکل نہ تھی۔ سپاہی کمال کے تھے ۔علمی وعملی صلاحیتوں میں عالمانہ مقام تھا۔فارسی کے ماہر تھے۔طبعی موت پائی۔

متعلقہ خبریں