آپ اسلامی اتحاد سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے امیدوار تھے، جو آپ کو نہ مل سکا۔کیوں؟وجہ حیران کن

ایکسپریس کو دئے گئے انٹر ویو میں ایس ایم ظفر سے سوال کیا گیا کی 1990ء میں آپ اسلامی اتحاد سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے امیدوار تھے، جو آپ کو نہ مل سکا۔ غلام مصطفی جتوئی نے آپ کو کہا کہ اچھا ہی ہوا کہ ٹکٹ نہیں ملا، ورنہ آپ کے کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہو جاتے۔ ہمارے ہاں سیاست میں کرپشن اور پیسے کا چلن کب عام ہوا؟ آپ ایوب کابینہ کا حصہ رہے، کیا اس وقت بھی یہی حالات تھے؟
ایس ایم ظفر نے جواب میں کہا: مجھے یہ بات صرف جتوئی صاحب نے نہیں کہی تھی کہ آپ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے کیوں کہ آپ کے پاس اتنی دولت نہیں ہے۔ جب نواز شریف صاحب کے دوسرے دور حکومت میں ان پر توہین عدالت کا کیس چلا، میں ان کا وکیل تھا۔ بعدازاں سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کی وجہ سے توہین عدالت کی کاروائی شروع ہوئی، تب بھی میں ان کا وکیل تھا۔ جب ہم کامیابی کے قریب پہنچ گئے اور بالاخر وہ اس مقدمے میں بری ہو گئے، تو اس وقت یہ سوچ پیدا ہوئی کہ مجھے الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے گا لیکن مجھے شہباز شریف نے کہا، ”آپ کے پاس علم تو ہے دولت نہیں ہے، الیکشن لڑنا آسان کام نہیں۔“ یہ بات تو شروع ہو گئی تھی بہت پہلے سے کہ الیکشن پہ لوگوں نے خرچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن عمومی کرپشن ایوب صاحب کے زمانے میں بڑی کم تھی۔ ایک آدھ ہی کوئی کرپشن کی بات سننے میں آتی تھی۔ ایک انڈسٹری کے سیکرٹری صاحب تھے ان کے متعلق بات آئی کہ ان کی بیٹی کی شادی پر بڑے تحفے آئے اور انہوں نے وہ سارے تحفے اپنے پاس رکھ لیے۔ اس قسم کی کرپشن کی باتیں تو آتی تھیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس دور تک کرپشن سیاست میں نہیں پہنچی تھی۔ اب تو سیاست تجارت ہو گئی ہے۔ اب الیکشن لڑتے ہیں تاکہ جتنا الیکشن پہ خرچ ہوا ہے وہ پورا کر لیا جائے۔