2018 ,دسمبر 21
لندن (ویب ڈیسک) اپنے شوق کو کاروبار بنانا اور پھر اس میں ترقی کی منازل طے کرنا ، ایسا چند خوش قسمت ہی کر سکتے ہیں ، دبئی میں مقیم ایک عراقی نژاد خاتون ہدیٰ قطان بھی ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے خوبصورتی اور خوبصورت نظر آنے کے طریقوں کو اپنا
کاروبار بنایااور آج ان کا شمار دنیا کی چند سب سے زیادہ کامیاب خواتین میں ہوتا ہے ۔ 10 سال قبل ہدیٰ قطان نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے انکی زندگی بدل کر رکھ دی ۔ ہدیٰ اب اپنا میک اپ کا کاروبار ’ہدیٰ بیوٹی‘ کے نام سے چلا رہی ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق انکے اس کاروبار حسن کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زائد ہے۔ عراقی نژاد امریکی ہدیٰ نے دبئی میں دو سال فنانس کے شعبے میں ملازمت کی اور پھر اچانک کچھ چھوڑ کر میک اپ آرٹسٹ بننے اور اپنا ذاتی بیوٹی بلاگ شروع کرنے کے لیے لاس اینجلس جانے کا ارادہ کر لیا ۔ہدیٰ نے بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ میں بیوٹی کی صنعت سے تعلق رکھتی بھی ہوں، مجھے ہمیشہ اس سے محبت رہی ہے،لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ انکا تعلق کبھی اس شعبے سے نہیں رہا جس میں میں آ گھسی ہوں ۔ میرے والدین مجھے ڈاکٹر یا وکیل بنانا چاہتے تھے لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کچھ ایسا کرنا چاہیے جو ایک اچھا کاروبار ہو ۔ ہدیٰ قطان نے 2013 میں مصنوعی پلکوں کا کاروبار شروع کیا اور سوشل میڈیا پر بلاگنگ بھی شروع کردی ، ان کے
گاہک اور فالوورز بڑھتے گئے مگر انکے کاروبار میں شاندار اضافہ اس وقت ہوا جب انکی بہن مونا نے انکے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا ، مونا قطان اس وقت ہدیٰ بیوٹی کی گلوبل پریذیڈنٹ ہیں ۔ مونا کہتی ہیں مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے تھے کہ ہم ہدیٰ کی پلکیں کہاں سے خرید سکتے ہیں؟ اور میرا ہمیشہ سے ہی ہدیٰ کی بنائی پلکوں کو مشرق وسطی کا رنگ دے کر میک اپ کی دنیا پر اپنی مہر لگانے کا منصوبہ تھا۔‘ہدیٰ بیوٹی بہت تیزی کے ساتھ پھیل چکا ہے، اور اس وقت اس پر موجود مصنوعات کی تعداد 140 ہے جن کی فروخت سے سالانہ دو سو ملین ڈالر آتے ہیں۔ لیکن ہدیٰ قطان کہتی ہیں کہ ان کا مشن منافع نہیں بلکہ وہ اپنا پیغام دنیا میں پھیلانا چاہتی ہیں ۔حال ہی میں انہیں چند مصنوعات کی برانڈ ایمبیسیڈر بننے کے لیے 10 ملین ڈالر کی پیشکش ہوئی جسے انہوں نے ذرا بھی سوچے بغیر ٹھکرا دیا ۔ لیکن آخر میں ہدیٰ قطان بڑے کام کی بات کہہ گئیں وہ یہ کہ اب حسن اور خوبصورتی اور اس سے منسلک کاروبار بہت زیادہ سیاسی ہو چکے ہیں اور لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ اتنی سیاسی کیوں ہو گئی ہے اور اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو اس کی وجہ مجبوری ہے