2020 ,مئی 6
رات خاصی بیت چکی تھی، میں ایک شادی کی تقریب سے لوٹ رہا تھا، مجھے رات کی شادیوں سے بڑی چڑ تھی، اس لئے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں جانے سے گریز کرتا تھا۔ آج بھی میرا شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کا موڈ نہیں تھا لیکن ابا جان کی طبیعت اچانک خراب ہو جانے سے مجھے جانا پڑ گیا۔
شادی ہمارے قریبی رشتہ داروں میں تھی۔ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ میں سائیکل کے پیڈل پرتیز تیز پاو¿ں مار رہا تھا۔ ہمارے گھر سے ذرا پہلے راستے میں قبرستان آتا تھا۔ قبرستان آتے ہی مجھے خوف سا آنے لگا تھا۔ بچپن ہی سے نہ جانے کیوں مجھے قبرستان کے قریب سے گزرنے پر خوف طاری ہوجاتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اندھیرے میں کوئی آسیب مجھے گھور گھور کر دیکھ رہا ہے، میں تیزی سے دوڑ لگا کر قبرستان سے دور ہوتا چلا جاتا تھا۔ بچپن کا خوف آج بھی مجھ پر غالب تھا۔ میں اٹھارہ سال کا ہو چکا تھا۔ مجبوری یہ تھی کہ گھر جانے کے لئے راستہ یہ ہی تھا اس کا متبادل کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ میرے دوست بھی میری اس بزدلی سے واقف تھے اور اس معاملے میں میرا مذاق بھی اڑاتے تھے، میں خاموشی سے ان کا مذاق برداشت کر جاتا لیکن اپنے خوف پر کبھی قابو نہیں پا سکا تھا۔ گورکنوں کے چھوٹے چھوٹے بچے اکثر رات کے وقت قبرستان میں ایسے گھومتے پھرتے رہتے تھے جیسے وہ قبرستان میں نہیں کسی پارک میں گھوم رہے ہوں۔
قبرستان کے آتے ہی میرے ذہن پر خوف طاری ہوگیا۔ سائیکل چلاتے ہوئے میں نے ایک نظر قبرستان پر ڈالی قبرستان میں کسی بزرگ کا مزار بنا ہوا تھا جہاں ایک بلب روشن تھا۔
بلب کی روشنی میں قریب کی چیزیں صاف دکھائی دے رہی تھیں، مزار سے چند قدم دور نصیر کھڑا دکھائی دیا نصیر کو دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا کہ وہ اس وقت قبرستان میں کیا کررہا ہے۔ حالانکہ اس کا گھر قبرستان سے بہت دور تھا، ایک لمحے کومیراخوف جاتا رہا اور میں ایک درخت کے پاس سائیکل کھڑی کر کے اس کی جانب لپکا۔
''نصیر'' میں نے زور سے آواز لگائی۔
سناٹے میں میری آواز بہت تیز گونجی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری آواز سن کر میری طرف لپکے گا۔ لیکن اس نے مخالف سمت میں دوڑ لگا دی۔ میں بھی تیزی سے اس کی طرف لپکا مجھے قبروں کو پھلانگتا دیکھ کر وہ بھی اور تیز ہو گیا تھا پھر اچانک وہ غائب ہوگیا۔ میں نے اس کو بہت تلاش کیا لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کدھر گیا، اسے یوں غائب ہوتا دیکھ کر مجھ پرخوف طاری ہوگیا۔
سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نصیر کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ وہ قبرستان سے کیسے غائب ہوگیا، میرے بدن سے پسینے چھوٹ پڑے میرے علاوہ اس وقت قبرستان میں کوئی نہیں تھا۔ اس لئے زیادہ خوف طاری تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی نظر نہ آنے والی مخلوق میری بے بسی پر دانت نکالے قہقہے لگارہی ہے، اچانک جیسے میرے بدن میں طاقت سی بھر گئی ہو۔ میں تیزی سے قبروں کو پھلانگتا ہوا دوڑ پڑا اور سائیکل کے پاس پہنچ کر میرا بھاگنا بند ہوا سائیکل پر بیٹھتے ہی میں نے پیڈل پر بدحواسی کے عالم میں پاو¿ں مارنا شروع کر دیئے اور چند لمحوں میں میں قبرستان سے دور نکل گیا اور گھر آ کر ہی دم لیا۔
رات میں کئی بار میری آنکھ کھلی اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا لیکن آنکھ کھلنے پر احساس ہوتا کہ چند لمحوں پہلے میں نے ڈرا دینے والا جو منظر دیکھا وہ خواب تھا۔ اس بات سے دل کو سکون ملتا اور میں دوبارہ سو جاتا خواب میں جو منظر مجھے آرہا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ میں قبرستان میں جارہا ہوں اور اچانک میرے سامنے نصیر آ جاتا ہے۔ میں ابھی اس سے بات کرنے ہی والا تھا کہ کوئی سیاہ لباس میں ملبوس مخلوق اچانک وارد ہوتی ہے اور نصیر کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ میں چیخنا چاہتا ہوں لیکن میری آواز حلق میں پھنس کر رہ جاتی ہے اور بے اختیار میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
صبح کالج میں میری ملاقات نصیر سے ہونے پر میں نے قبرستان میں اس کی موجودگی اور غائب ہونے سے متعلق بات پوچھی تو وہ ہنس کر میری طرف دیکھنے لگا۔
''میں رات میں قبرستان جا کر کیا کروں گا۔ تمہیں ضرور وہم ہوا ہے۔''
''مجھے وہم نہیں ہوا میں نے اپنی آنکھوں سے تمہیں قبرستان میں دیکھا تھا۔ اور میں جب تمہارے پیچھے بھاگا تو تم غائب ہوگئے۔'' میں نے اسے بتایا۔
''میرا تمہیں ایک قیمتی اور مفید مشورہ ہے کہ آئندہ کبھی قبرستان کے اندر اس طرح مت چلے جانا۔ قبرستان میں آسیب ہوتا ہے جو رات میں لوگوں کو تنگ کرتا ہے۔ وہ انسان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے روپ میں نظر آتا ہے ان کے پاس جانے والے شخص پر وہ آسیب حملہ کردیتا ہے۔ یا اس کے جسم میں داخل ہوکر اسے اور اس کے گھر والوں کو پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔'' نصیر نے کہا۔
''ہاں ہاں نصیرسچ کہہ رہا ہے۔“ فرحان بیچ میں بول پڑا۔
"'' ہمارے پڑوسی مرزا ندیم کی لڑکی پر آسیب آ گیا تھا۔ آسیب کے باعث اس نے گھر میں توڑ پھوڑ مچا دی۔ کبھی کسی کو اٹھا کر دیوار پردے مارتی تھی۔ سب گھر والے پریشان ہوگئے
تھے کہ اتنی کزور اور نازک لڑکی میں اتنی طاقت کہاں سے آ گئی ہے جو وہ اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ اپنے سے بھاری، بھاری سامان اور انسانوں کو اس طرح پھینک رہی ہے جیسے کوئی کھلونا پھینک رہی ہو۔‘
''ممکن ہے آیا ہو۔'' میں نے کہا۔
میں ان سے اس وقت کہہ بھی سکتا تھا۔ نصیر کو میں نے خاصے فاصلے سے دیکھا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میرا وہم ہو، وہاں کوئی بھی نہ ہو۔ نصیر کا رات کے ساڑھے بارہ بجے قبرستان میں کیا کام ہوسکتا تھا۔
اس واقعہ کو گزرے دو ماہ ہو چکے تھے اور میں بھی اس واقعہ کو بھولتا جا رہا تھا اس دن سے میں محسوس کر رہا تھا کہ نصیر کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ وہ سوکھتا جارہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑتے جارہے تھے اس کے جسم سے گوشت کم اور ہڈیوں کا ابھار زیادہ دکھائی دینے لگا تھا۔
مجھے اس کی صحت گرنے پرسخت تشویش تھی میں نے کئی بار اس کو مشورہ دیا کہ وہ کسی اچھے ڈاکڑکو دکھائے۔ وہ میری بات کو ہنس کر ٹال کر ہاں، ہاں، ہوں کر کے رہ جاتاتھا۔۔
ایک رات میں سائیکل پرقبرستان کے قریب سے گزر رہا تھا۔ میں رات میں گھر سے باہر زیادہ دیر نہیں رہتا۔ اس دن اتفاق سے اپنے دوست غلام محی الدین کے گھر گیا۔
اس کے گھر والے کسی شادی کی تقریب میں گئے ہوئے تھے۔
غلام محی الدین نے ڈی۔وی۔ڈی پر میرے پسندیدہ گانے لگادیئے۔ میں اور غلامی الدین گانے سننے میں اتنے مگن ہوئے کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور میں اس وقت بری طرح چونکا جب میری نظر گھڑی پر پڑی رات کے بارہ بج چکے تھے۔
میں بدحواسی میں تیزی سے صوفے سے اٹھا اور غلام محی الدین سے اجازت لے کر گھر کوچل دیا۔ قبرستان آتے ہی میری سائیکل اچانک ایک جھٹکے سے فضا میں اچھلی اور میں دھڑام سے سڑک پر گر پڑا سائیکل کے نیچے ایک بڑاسا پتھر آ گیا تھا جو میں دیکھ نہیں پایا۔
اور سائیکل سمیت سڑک پرگر پڑا۔ میں جیسے ہی سڑک سے اٹھا اچانک مجھے ایسا لگا کہ کوئی شخص قبرستان سے باہر آیا ہے۔ میں اس کو دیکھ کر بری طرح چونکا۔
. وہ شخص کوئی اور نہیں نصیرہی تھا۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کی آنکھیں آگ کا شعلہ لگ رہی تھیں، آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود وہ ایسے چل رہا تھا کہ جیسے نیند میں چل رہا ہو۔
''نصیر۔۔۔۔۔۔ نصیر ٹھہرو میری بات سنو۔'' میں نے بے ساختہ اسے پکارا مگر نصیر چلتا ہوا میرے پاس سے گزر کر اس طرح جانے لگا جیسے اس نے میری آواز سنی ہی نہ ہو۔ میں نے اس کا کاندھا پکڑ کر اس کو جھٹکا دیا وہ ایسے چونکا جیسے میں نے اسے نیند سے بیدار کردیا۔ وہ غصے سے گھور کر مجھے دیکھنے لگا۔
نصیر ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔ میں تمہارا دوست ہوں۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
زندگی چاہتا ہے توفوراً میری نظروں سے دور ہو جا ورنہ ابھی اور اسی وقت تجھے ختم کردوں گا۔“ نصیر نے عجیب نظروں سے اور غصے بھرے لہجے میں کہا۔
اس کی آواز مجھے بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کوئی بہت ہی بھاری بھرکم شخص بول رہا ہے۔ اس کی آواز سے بے اختیار مجھ پر کپکپی سی طاری ہوگئی تھی۔ میں نے یہ بمشکل کانپتے ہاتھوں سے سائیکل کو پکڑا اور سوار ہو کر تیز رفتاری سے سائیکل کو بھگاتا ہوا آگے کو بڑھ گیا۔
پھر میں نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ اس وقت میں بہت خوفزدہ تھا اور جلد سے جلد گھر جانا چاہتا تھا۔
وہ رات میری آنکھوں میں کٹی۔ رات بھر میں سکون کی نیند نہ سو سکا تھا۔ بار بار آنکھ کھل جاتی تھی۔ نیند سے بیدار ہونے پر مجھے اپنا جسم گرم گرم لگ رہا تھا۔ اور درد بھی کر رہا تھا۔
تمہیں تو سخت بخار ہے‘امی جان نے میرے بستر سے اٹھنے پر میرے ماتھے پر ہاتھ لگایا۔
تم آرام کرو آج کالج جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“
میں مشکل سے بستر سے اٹھا اور ہاتھ منہ دھو کر چائے اور پائے سے ناشتہ کیا۔ بخار کی گولی گھر میں موجود تھی۔ کھانے سے دوپہر تک بخار کا زور ٹوٹ گیا اور میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا البتہ بخارسے منہ کا ذائقہ کڑوا ہوگیا تھا۔
میں دو دن تک کالج نہیں جاسکا۔ تیسرے دن کالج جانے پر پتا چلا کہ نصیربھی دو دن سے نہیں آرہا ہے۔ میں اس رات کے واقعہ سے ویسے بھی خوف زدہ تھا۔ اس لئے میں نے نصیر کے بارے میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا کہ میں نے نصیر کو کس حالت میں قبرستان سے نکلتے دیکھا تھا۔
اس واقعہ کو دو ماہ گزر گئے تھے لیکن نصیرکالج نہیں آیا اور نہ ہی میری ہمت ہوئی کہ اس سے ملاقات کرنے گھر جاو¿ں اور پوچھوں کہ وہ کالج کیوں نہیں آرہا ہے؟
ایک دن سرراہ نصیر کے چھوٹے بھائی نثارسے ملاقات ہوگئی۔ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔
کیوں بھئی نثار۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا بھائی کالج نہیں آرہا ہے خیریت تو ہے؟
نصیر بھائی کی دو ماہ سے طبیعت خراب ہے وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے ہیں۔
دوائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے مولوی نظام سے روحانی علاج بھی کرارہے ہیں لیکن طبیعت سنبھلنے میں نہیں آ رہی ہے۔ ''لیکن مجھے اور۔۔۔۔۔ کسی دوست کو بھی اس کی بیماری کا پتہ ہی نہیں چلا۔'' میں نے حیرت سے کہا۔ پھر میں ڈرتے ہوئے نثار کے ساتھ ان کے گھر گیا نصیر کو دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا واقعی وہ ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گیا تھا۔ نصیر تم نے اپنی کیا حالت بنالی ہے؟ میں نے نثار کے کمرے سے جانے پر پوچھا۔ ''یہ سب میرے اعمال کی سزا ہے۔ میں بہت برا ہوں، میراانجام اس سے برا ہونا چاہئے تھا۔'' نصیر پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔ ''نص?رصبر کرو، اللہ تعالی سب بہتر کرے گا، تم ضرور صحت یاب ہو جاو¿ گے۔'' میں نے اس کوتسلی دی۔ ''نہیں میں ٹھیک نہیں ہوسکتا تم مجھے جھوٹی تسلیاں مت دو، جس نے مجھے اس حال پر پہنچایا ہے۔ اس نے مجھ سے صاف کہہ دیا ہے کہ میں چند روز سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکوں گا۔'' '' نصیر تم کس طرح کی باتیں کر رہے ہو۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔'' میں نے کہا۔ ''تم سننا چاہتے ہونا تو سنو! شاید تمہیں یہ سب سنا کر میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے۔'' نصیر نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ " تم مجھ سے کہتے تھے نا شریف اچھا لڑکا نہیں تھا تمہارے منع کرنے کے باوجود میں اس سے ملاقات کرتا تھا۔ ایک رات وہ مجھے قبرستان لے گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ مجھے کیوں قبرستان لے آیا ہے۔ رات کی تاریکی میں دور تک کوئی انسان نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک تازہ قبرکا ایک حصہ کھود کرو? اندر چلا گیا۔ اسے قبر میں گھسے ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے تخت تشویش ہوئی کہ دیکھوں وہ کیا کر رہا ہے۔؟ قبر کے اندر اس نے چھوٹی سی ٹارچ جلا رکھی تھی ہلکی روشنی سے قبر کے اندر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ قبر میں ایک نوجوان لڑکی کی برہنہ لاش پڑی تھی لڑکی کے کفن کوشریف نے پوٹلی بنا کر ایک طرف رکھ دیا تھا اور اب وہ لڑکی کی لاش کے اوپر جھکا ہوا تھا اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے جھرجھری سی آ گئی کہ شریف اتنی گری ہوئی حرکت بھی کر سکتا ہے میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن میرے پاو¿ں جیسے من من بھر کے ہو گئے تھے کہ میرے لئے پاو¿ں اٹھانا مشکل ہوگئے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ قبر سے باہرنکل آیا اور مجھے مجبور کرنے لگا کہ میں بھی وہی شرمناک حرکت کروں جو وہ قبر کے اندر لاش کے ساتھ کر کے آ چکا ہے۔ میرے انکار پر اس نے جیب سے پستول نکال لیا اور دھمکی دی کہ میں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کیا تو مجھے جان سے ماردےگا۔ زندگی کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ اپنی زندگی کو بچانے کی خاطر میں قبر کے اندر اتر گیا اور قبر میں وی حرکت کر بیٹھا جسے میں چند لمحے پہلے بہت برا سمجھ رہا تھا۔ شریف نے قبر سے کفن نکال کر قبر کو دوبارہ سے پہلے جیسی حالت میں کردیا۔ اس کام سے فارغ ہوکر شریف مجھے قبرستان سے باہر لے آیا اور دھمکی دی کہ یہ بات میں کسی کونہیں بتاو¿ں ورنہ سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ میں کسی کو یہ بات نہیں بتاو¿ں گا۔ میں کئی دن تک شریف سے نہیں ملا مجھے شریف پرشدید غصہ تھا۔ اس رات اس نے کوئی اچھی حرکت نہیں کی تھی۔ پھر ایک دن خود بخود میرے پاو¿ں شریف کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔ شریف مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور رات ہوجانے پر قبرستان لے گیا۔ میں اس کے پیچھے ایسے چل پڑا جیسے اس کا غلام ہوں اور وہ میرا آقا ہے۔ اس رات شریف نے وہی رات والی حرکت کی اور قبر سے باہر آ گیا۔ میں اس کے اشارے کا منتظر تھا۔ اشار? پاتے ہی میں قبر میں اتر گیا اور اپنے شیطانی عمل میں مصروف ہوگیا۔ اب ہم دونوں کی دوستی اور مضبوط ہو چکی تھی ہم ایک دوسرے کے راز دار بن گئے تھے۔ میرا حوصلہ بڑھ گیا تھا کہ جس رات شریف قبرستان نہیں جاتا میں اکیلا ہی چلا جاتا۔ قبرسے جوکفن لاتا وہ ایک کفن بیچنے والے کو سستے داموں فروخت کردیتا۔ ایک رات شریف کو دوسرے شہر جانا پڑ گیا۔ میں اکیلا ہی قبرستان چلا گیا اور ایک تازہ قبرکھود کر اندر اترا۔ عورت کا کفن اتار کر میں جیسے ہی اس کی جانب بڑھا۔ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی اور اس کے منہ سے لمبے لمبے دانت باہرنکل آئے، میں گھبرا کر باہر نکلنے لگا لیکن اس عورت نے میرا پاو¿ں پکڑ کراندر کھینچ لیا۔ میں نے بہت کوشش کی قبر سے باہرنکل جاو¿ں لیکن اس عورت نے مجھے اتنی سختی سے پکڑ لیا کہ میں خود کو چھڑا نا سکا اور بے بس ہوکر رہ گیا۔ ”''جاتا کہاں ہے شیطان۔'' وہ عورت قہقہ لگا کر بولی۔ .مم . مجھے معاف کردو۔'' میں نے التجا کی۔'' ”میں تجھے نہیں چھوڑسکتی۔ تو میری حد میں آ گیا ہے۔ تیری جان تو اب مرکرہی چھوٹ سکتی ہے۔ وہ بولی۔ ''خدا کے لئے مجھے جانے دو، میں پھرکبھی ادھر کا رخ نہیں کروں گا“ یہ کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ تیرے دادا کا نام وکیل احمد ہی ہے نا“؟ ”اں، ہاں۔۔۔۔۔۔ لیکن انہیں کیسے جانتی ہو؟ میں نے چونک کر پوچھا۔ ''بہت پرانا قصہ ہے میں تیرے دادا کے گھر نوکری کرتی تھی۔ ایک دن گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے تیرے دادا اور ان کے چند دوست گھر میں شراب میں دھت بیٹھے تھے۔ مجھے گھرمیں داخل ہوتا دیکھ کر تیرا دادا مجھ پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑا۔ وہ مجھے نوچتا کھسوٹتا رہا۔ میری سانسیں اکھڑنے لگیں تو اسے ہوش آیا لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔ مرتے مرتے میں نے دل میں عہد کیا تھا کہ جب تک وکیل احمد اور اس کے گھر کے فرد سے اپنا انتقام نہ لے لوں اس وقت تک میری روح کو قرار نہیں آئے گا، تو جب قبر میں اترا تھا میری روح خوش ہوگئی کہ میری مراد بر آنے والی ہے۔'' وہ عورت بولی۔ ''لیکن یہ قبرتازہ ہے، پھر تم اس میں کیسے آگئیں۔'' میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ”روحوں کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ قبر بہت پرانی ہے صرف تیری نظر کا دھوکہ تھا، میرے جسم پر جو کفن تھا وہ بھی تیری نظر کا دھوکا تھا۔“ کہتے ہوئے اس نے مجھے اپنی بانہوں میں دبوچ لیا۔ میں بے بس پرندے کی طرح پھڑپھڑا کر رہ گیا تھا۔ پھر مجھے کچھ ہوش نہیں رہا۔ ہوش آ نے پر میں اس قبر میں اکیلا پڑا تھا۔ عورت غائب تھی۔ میں قبر سے نکل کر تیزی سے گھر بھاگا۔ دوسری رات نا چاہتے ہوئے بھی میرے قدم خود بخود قبرستان کی طرف اٹھنے لگے اور قبرستان پہنچ کر میں قبر کے اندر اتر گیا قبر میں وہ عورت موجود تھی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور میں بے ہوش ہوگیا۔ ہوش آنے پردوبارہ گھر آ گیا یہ سلسلہ روز ہونے لگا میں اب جسمانی طور پر کمزوری محسوس کرنے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ میں ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گیا۔''“ تم یہ بات اپنے والد کو نا سہی کسی دوست کو بتا سکتے تھے تا کہ اس کا بروقت علاج ہو جاتا۔'' میں نے کہا۔ ''میں اپنا جرم اور یہ بات بتانا چاہتا تھا لیکن میں جب بھی یہ بات کسی کو بتانا چاہتا تھا تو کھائی نہ دینے والے ہاتھ میرے گلے کو دبانا شروع کردیتے تھے۔ میری سانسیں رکنا شروع ہوجاتی تھی۔ میرے خاموش ہوجانے پر گلے پر ہاتھوں کا دباو¿ کم ہوجاتا پھر میں نے بہتر یہی جانا کہ یہ بات کسی کو نہ بتاو¿ں اور خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دوں۔'' نصیر نے بتایا۔ ''کیا وہ عورت درست کہ رہی تھی تمہارے دادا جان نے ایسی کوئی حرکت کی تھی۔؟'' میں نے پوچھا۔ '' ہاں میرے دادا جان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت عیاش تھے۔ نہ جانے کتنی عورتیں ان کی ہوس کا شکار ہوکر قبرستان کی زینت بن چکی تھیں، پیسہ ان کے پاس بہت تھا۔ پولیس رشوت لے کر کیس کو دوسرا رنگ دے کردبا دیتی۔ تم حیران ہورہے ہو کہ میں نے تمہیں پوری تفصیل بتادی اور میرے گلے کو وہ ہاتھ نہیں دبا رہا۔'' نصیر نے کہا۔ '' ہاں میں ابھی تم سے یہی کہنے والا تھا۔'' میں نے کہا۔ . '' میں اس قدر کمزور ہو چکا ہوں کہ خود سے چل بھی نہیں سکتا۔ مجھے کوئی پکڑ کر اٹھاتا ہے تو اٹھ پاتا ہوں۔ وہ قبر والی عورت خود یہاں آتی رہتی ہے لیکن کسی کونظرنہیں آتی۔ دو دن پہلے ہی اس عورت نے مجھے بتایا تھا کہ تیرا دوست عمیر تیرے پاس آئے گا تو اسے اپنا راز بتا دینا تا کہ دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ بشیراں نے اپنا انتقام لے لیا ہے۔'' نصیر نے ہانپتے ہوئے کہا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے نصیر بہت طویل سفر کر کے آیا ہو اور تھکن سے ہانپ رہا ہو۔ '' نصیرتم ہمت نہ ہارو انشائ الل? تم ضرور صحت یاب ہوجاو¿ گے۔'' میں نے اسے دلاسا دیا۔ '' عمیر تم مجھے جھوٹے دلاسے مت دو، جو مولوی صاحب مجھ پر دم کرنے آتے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ میرے گھر والوں نے روحانی علاج کرانے میں بہت دیر کر دی ہے وہ کوشش کررہے ہیں لیکن طبیعت بہتر ہونے کی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ وہ عورت بھی کہہ رہی ہے کہ میں ایک ہفتے سے زیادہ نہ جی سکوں گا۔“ یہ کہتے ہوئے نصیر کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ میں نے رومال سے اس کے آنسو پونچھے اور اسے حوصلہ اور دلاسہ دے کر چلا آیا۔ میں اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ نصیر سے ملاقات کے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ نصیر کے انتقال کی خبر مجھے مل گئی۔ بشیراں نے اپنا انتقام لے لیا تھا۔ اور نصیر کو بھی اپنے گھناو¿نے فعل کی سزا مل چکی تھی۔ بقول بشیراں کے ایسے انتقام لینے پر اس کی روح کو سکون آجائے گا۔ ممکن ہے ایسا ہوجائے ایسا ہونے پر نصیر کے خاندان کے لوگ اب محفوظ ہوجائیں گے۔ اگر بشیراں کی روح کو چین نہ آیا تو پھر اس کے خاندان کے مزید لوگ بشیراں کے انتقام کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔