سپیکر کی رولنگ پر رولا

2022 ,اپریل 10



جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 15جون 1993ء کو سپریم کورٹ نے اوپر تلے تیس بتیس روز کیس کی سماعت کر کے میاں نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تھی۔ صدر اسحق خان نے 58ٹوبی کے تحت بیڈ گورننس اور کرپشن کے الزامات لگا کر اسمبلیاں توڑیں تو مسلم لیگ نے لاہور ہائیکورٹ میں کیس دائر کیا۔ پانچ رکنی بنچ یہ کیس سن رہا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے کیس اسے بھجوانے کی ہدایت آگئی۔یہ اس وجہ سے ہوا کہ رات کو سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں برق رفتاری سے چلا۔ فیصلہ مدعی پارٹی کے حق میں آیا۔ حکومت بحال ہو گئی مگر میاں نواز شریف سے سنبھالی نہ گئی۔ تین اپریل 2022ء کو عدم اعتماد کی تحریک مسترد ہونے اورعمران خان کی طرف سے اسمبلی توڑنے کا معاملہ سپریم کورٹ لے جایا گیا۔”سپیکر کی رولنگ عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی“۔اس کے سب سے بڑے دعویدار اور حامی پیپلز پارٹی کے صفِ اول کے لیڈر جناب رضا ربانی رہے ہیں مگر وہ کورٹ میں آج اس کے بر عکس دلائل دے رہے تھے۔اِدھر(11 جماعتوں پر مشتمل) اپوزیشن جو عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان سے نجات حاصل کر کے اقتدار میں آنے کا موڈ بنائے ہوئے تھی۔ عمران خان کے سرپرائز پر”گیارہوں“ شانے چِت پڑی تھی۔یہ لوگ معاملہ عدالت لے گئے اور نہ صرف فوری بلکہ اپنے حق میں فیصلے پر زور دیتے ہوئے مہم چلا رہے ہیں۔ان کی سوشل اور میڈیا مہم سوا نیزے پر ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں برق رفتاری سے بھی یہ کیس چلے تو تیس بتیس روز تو لے گامگر یہ کیس اتنا طول پکڑتا نظر نہیں آتا۔ عدلیہ کئی معاملات کی گہرائی میں جانے سے بھی گریز کرے گی۔ ان سطور کی اشاعت تک شایدفیصلہ آبھی گیا ہو۔ویسے جمعہ کو آنیوالے فیصلے ایک فریق پر سدا سے بھاری پڑتے رہے ہیں وزیر اعظم عمران خان یہ اسٹیبلش کرنے میں یا کم از کم سپیکر کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ تحریک عدم اعتماد کے پس پردہ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کا خط اور دھمکیاں ہیں۔ سپیکر نے حکومتی پارٹی کے موقف سے متفق ہو کر رولنگ دے دی۔آئین کے تحت سپیکر کی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔سپریم کورٹ میں یہی کیس ہے۔سارا سپیکر کی رولنگ پر رولا ہے۔ قارئین! 2اپریل کو میں نے وی لاگ میں کہاکہ سپیکر عدم اعتماد کی قرار داد کو امریکی خط کے تناظر میں غیر قانونی قرار دے کر مسترد کر سکتے ہیں جس پر عمران خان پر اسمبلی توڑنے کی قدغن ختم ہو جائے گی تو وہ اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔ ایک عام سیاست کے طالب علم کے ذہن میں بات آ سکتی ہے تو ان لوگوں کو یہ خیال کیوں نہ آیا جن کا اوڑھنا بچھونا ہی سیاست ہے۔جو خود کو سیاست کا گورو سمجھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پر زور مطالبے پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کا موقف وہی ہے جو سیکورٹی کمیٹی کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے۔ خط کے حوالے سے آصف زرداری کہتے ہیں کہ معاملہ عدم اعتماد کا نہیں ملکی سلامتی کا بن گیاہے۔ادھر بلاول نے کہا ہے کہ ادارے بتائیں 197 ارکان غدار ہیں۔ یہ ادارو ں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو لوگ امریکہ سے رابطے میں رہے حکومت گرانے میں اس کا آلہئ کاربنے،ان کو کیا کہا جائے؟ جبکہ نادانستگی میں امریکہ کے لیے استعمال ہونے والے یقینا ”معصوم عن الجرم“ ہیں۔ پاک فوج کے خلاف بیانیہ ترتیب دینے والے اس کے گُن گانے لگے۔ وجہ فوج کی طرف سے ان کے بیانے سے اتفاق نہیں بلکہ ان کے ایجنڈے اور پروگرام پر مہر بلب ہونا ہے۔ کہا گیا نیوٹرل ہیں جبکہ حکومت نے کہا فوج ہمارے ساتھ ہے تو تردید آگئی۔حکومت کے ساتھ اگر فوج نہیں تو پھردوسرے فریق کے ساتھ ہے۔ اس فریق نے میڈیا میں یہ بھرپور تأثربھی دیا۔اب وہ فریق فوج سے مداخلت کے مطالبات بھی کررہا ہے۔ فوج ایک حد تک کردار ادا کرسکتی ہے لیکن کسی مہم جوئی کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس سیٹھ وقار نے مارشل لا کے راستے بند کر دیئے ہیں۔ اپوزیشن نے اپنے بیانیے کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ عمران خان مسلسل پاک فوج کی مضبوطی کی بات کر رہے ہیں۔جس سے شاید ان کے ورکرز زیاد اتفاق نہیں کرتے ان کا بہر حال یہ بڑا پن ضرور ہے کہ فوج کے خلاف اپوزیشن کی طرح زبان درازی نہیں کی گئی۔اُدھر اپوزیشن پرانی ڈگر پر لوٹتی نظر آرہی ہے۔مولانا نے کچھ نام بتانے کی دھمکی دی ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ حق میں نہ آیا تو فوج اور عدلیہ بُری طرح نشانے پر ہونگے۔سوشل میڈیا پر فیصلے میں ”تاخیر“پر ججوں کو جن القابات سے نوازا جارہا ہے اسے ٹریلر سمجھ لیا جائے۔ پاکستان کی سیاست میں سب ممکن ہے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پی سکتے ہیں جان کے دشمن جگری یار بن سکتے ہیں۔چودھری برادران کے درمیان ہوا بھی حائل نہیں ہو سکتی تھی اب یہ خاندان بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔شر سے خیر کاجنم ہوسکتا ہے۔وقتی طور پر شکست نظر آنے والے فیصلے وقت گزرنے کیساتھ فتحِ مبین بھی بن جاتے ہیں۔ ایک امکان عمران خان کے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا بھی موجود ہے۔ اسے برائیوں کی جڑ کہیں یا اچھائیوں کا گڑھ معاملہ لوٹا کریسی اور ضمیر فروشی سے شروع ہوا۔اس حوالے سے صدارتی ریفرنس بھی عدالت میں دائر ہے۔تین اپریل کے اقدام پر شام سے پہلے فیصلے کے شدت سے طلبگار ریفرنس پر قیامت تک کا التوا چاہتے ہیں۔بلاول ان کے والد زرداری صاحب سمیت بہت سوں کا کہنا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ بلاول تو مزید کہتے ہیں کہ بغاوت میں تیس سیکنڈ لگے تدارک میں بھی اتنا ہی وقت لگنا چاہئے۔یہ بھی ان کی فراخ دلی ہے ورنہ تو ایک سیکنڈ میں تدارک کا بھی مطالبہ کر سکتے تھے جمہوریت کا درخشندہ چہرہ اس طرح بھی سامنے آیا کہ ایاز صادق نے تین اپریل کو قومی اسمبلی میں سپیکر کی کرسی سنبھال کر اجلاس کا انعقاد کیا۔کوئی رولنگ بھی دی تقریریں اور ووٹنگ کرا لی۔ 195 ارکان کی حمایت کا دعویٰ کیا گیا۔6 اپریل کو لاہور میں حمزہ شہباز کو ایک ہوٹل میں وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کی مشق ہوئی۔مریم نوازکی طرف سے کہا گیا۔”یہ علامتی نہیں آئینی اجلاس ہے۔“یہ سب جمہوریت کا جنازہ ہے یا جمہوریت کی سہرہ بندی یا جمہوریت کا کوئی نیا روشن چہرہ ہے۔ان اجلاسوں سے تحریک انصاف کے ممبران کی بہر حال پہچان ہوگئی جو فلور کراسنگ کرچکے ہیں۔مرکز میں معزز ارکان کی 25 کروڑ میں خریداری کی بات کی جاتی ہے۔پنجاب میں ایک فاضل رکن کی قیمت تین کروڑروپے کیساتھ ایک لینڈ کروزر اور ایک پلاٹ لگانے کی باتیں ہورہی ہیں۔یہ سب افواہ ہو تو بھی کچھ نہ کچھ تو ہے کہ ارکان درجنوں کی تعداد میں وفاداریاں بدل رہے ہیں۔فلورکراسنگ کا ”بی“ نہ مارا گیا تو جمہوریت کا چہرہ داغدار رہے گا۔

متعلقہ خبریں