دعا کی قبولیت کے خاص اوقات

2019 ,اکتوبر 21



دعا کی قبولیت کیلئے متعدد اوقات اور جگہیں ہیں، جن میں سے ہم کچھ بیان کرتے ہیں:

1- لیلۃ القدر :
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت فرمایا   جب انہوں نے کہا:  "مجھے بتلائیں کہ اگر مجھے کسی رات کے بارے میں علم ہو جائے کہ وہ لیلۃ القدر کی ہی رات ہے ، تو اس میں میں کیا کہوں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہو: (اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ)[یا اللہ! بیشک تو ہی معاف کرنے والا ہے، اور معافی پسند بھی کرتا ہے، لہذا مجھے معاف کر دے]

2- رات کے  آخری  حصے میں :
یعنی سحری کے وقت دعا کرنا، اس وقت  اللہ تعالی آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے، یہ اللہ سبحانہ وتعالی کا   اپنے بندوں پر فضل و کرم ہےکہ   انکی ضروریات اور تکالیف  دور کرنے کیلئے نزول فرماتا ہے، اور صدا لگاتا ہے: "کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اسکی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھے سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگے، تو اسے بخش دوں" بخاری: (1145)

3- فرض نمازوں کے بعد:
ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: "کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟" آپ نے فرمایا: (رات کے آخری حصے میں، اور فرض نمازوں کے آخر میں)" ترمذی: (3499)، اس حدیث کو البانی نے "صحیح ترمذی" میں حسن قرار دیا ہے۔
دعا کیلیے متعدد شرائط ہیں:

1- صرف اللہ تعالی سے دعا مانگے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرمایا تھا: (تم جب بھی مانگو تو اللہ تعالی سے مانگو اور جب بھی مدد چاہو تو صرف اللہ تعالی سے مدد چاہو) ترمذی (2516)نے اسے روایت کیا ہے،  اور البانی نے اسے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے۔

حقیقت میں یہ حدیث اس آیت کی ترجمان ہے:
( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُو مَعَ اللَّهِ أَحَداً )
ترجمہ: اور بے شک مساجد اللہ کیلیے ہیں اس لیے اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔[الجن:18]

یہ شرط بہت ہی عظیم اور اہم ترین شرط ہے، اس کے بغیر دعا قبول ہی نہیں ہوتی اور اس کے بغیر کوئی عمل بھی اللہ تعالی کے ہاں پیش نہیں کیا جاتا، کچھ لوگ ہیں  جو مردوں سے مانگتے ہیں، انہیں اپنے اور اللہ تعالی کے درمیان وسیلہ بناتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ  یہ نیک لوگ انہیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں گے، انہیں اللہ تعالی کے سامنے سفارشی بناتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالی کے ہاں ان کا کوئی مقام نہیں ، اس لیے نیک لوگوں کو اللہ تعالی کے ہاں وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ تعالی کی بجائے انہی سے دعائیں کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ )
ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو میں قریب ہی ہوں، جب بھی مجھے کوئی دعا کرنے والا پکارتا ہے اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔[البقرة:186]

متعلقہ خبریں