کرونا نیچر اور ۔۔۔ تلور

2020 ,مئی 21



کالی سیاہ شب اپنی زلف کھول رہی تھی، ہو کا عالم تھا۔ ایسے میں کالی بلی نظر آئی۔ ایسی سیاہ بلی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ہارر سٹوریز میں کالی بلی کو خبیث روح سمجھا جاتا ہے۔ میں نے اس بلی کی دو تین تصویریں اور ایک ویڈیو بنالی۔ 22سیکنڈ کی ویڈیو کو چلا کر دیکھاتو بلی کی آنکھیں گاڑی کی فل ہیڈ لائٹ کی طرح چمک رہی تھیں، جس سے اس بلی کے خبیث روح ہونے کے شبہ کو مزید تقویت ملی۔
یہ لاک ڈاﺅن کے شروع دنوںمیں سے ایک شام کا ذکر ہے۔ شہر کی بڑی سیرگاہیں بھی بند کر دی گئی تھیں۔ میں نے شام کو واک کا سلسلہ جاری رکھا، اس کیلئے رہائشی علاقے میں ایک چھوٹی سی پارک کام آئی۔ رمضان میںبھی واک کرتاہوں، جس کا اختتام افطاری سے چند منٹ قبل ہو جاتا ہے۔ جس روز کا ذکر کر رہا ہوں، ان دنوں مغرب سوا چھ بجے ہو جاتی تھی۔ یہ واقعہ کوئی ساڑھے سات پونے آٹھ بجے کا ہے۔ پارک میں سناٹا تھا، میرے سوا کوئی بھی نہیں تھا۔ یہ شام پراسراراور خوف کے سائے کرونا سے لاک ڈاﺅن کے باعث بھی لئے ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا میں اندھیر گھپ میں جنگل میں چل رہا ہوں۔ پارک کی لائٹیں بھی آف تھیں۔ اس دوران ٹٹیری (Lapwing) کی تیز آوازوں نے ماحول کو مزید پراسرار بنا دیا۔ اس جانور کے بارے میں کہا جاتا ہے،یہ پاﺅں آسمان کی طرف کرکے سوتا ہے، اس کی دانست میں آسمان سوتے میں گر پڑے تو اس کے پاﺅں اسے تھام لیں۔ ٹٹیری دیہات کے اوپر بھی کبھی محوپرواز نظر نہیں آئی۔ دور کھیتوںمیں انڈے دیتی ہے۔ اس کا درخت پر گھونسلہ نہیں ہوتا، شاید یہ سادھو سنت فقیر Nestless پرندہ ہے۔ یہ نہ صرف اس رات بے چینی سے چیختی سنائی دی بلکہ یہ رات کو گھروں کے اوپر بھی کہرام مچاتی ہے۔ رات گئے اور صبح سویرے بھی اس کی آواز سے فضا میں ایک ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی وارننگ دے رہی ہوتی ہے یا خوشی کا اظہارکرہی ہوتی ہے ۔ وہ جانتی ہے یا پھر قدرت کو پتہ ہوگا اور پھر یہ ایک ہی نہیں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں ہنگامہ آرائی کرتی ہیں۔ 
حیران کن امراس جانور کا شہری آبادیوں میں آنا ہے۔ ان کو کرونا کے باعث لاک ڈاﺅن سے قبل دیکھا اور سنا نہیں گیاتھا، شاید جانور فطرت کے زیادہ قریب آگئے ہیں جس 22 سیکنڈ کی ویڈیو کی بات کی، اس میں بھی ٹٹیری کی ٹیں ٹیں سنائی دیتی ہے۔ انہی دنوں ڈاکٹر بابراعوان کے اسلام آباد سے یو ٹیوب چینل پر گفتگو کے دوران بھی پس منظر میںٹٹیری کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے ٹٹیری کے اسی طرح آبادیوں کا رخ کرنے سے متعلق احباب سے بات بھی کی۔ اسلم خان صاحب کالم نگار(چوپال) نے بتایا ، کرونا ایک وباءضرور ہے مگر اس نے فطرت کے رنگوں کواصل شکل و صورت میں اجاگر کردیا ہے۔ زندگی نیچر کی طرف لوٹ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں ان کے گھر سے تین گھر دور ہزاروں آسٹریلین طوطے پالے گئے ہیں جن کی کسی کو خبر نہیں تھی۔ اب وہ اودھم مچائے رکھتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ وینس کے شفاف پانیوں میں مچھلیاں اُچھلتی کودتی نظر آتی ہیں ان کو آلودگی نیچر اور شہر سے دور لے گئی تھی۔
ایک حیران کن انکشاف تلور کے حوالے سے بھی سامنے آیا۔ تلور ایک مہاجر پرندہ ہے جووسطی ایشیاسے وہاں سخت سردی کے موسم میں ایران افغانستان اور پاکستان کا رخ کرتا ہے، اس کیلئے ان علاقوں کا سردیوں میں موسم موافق ہے۔ وسطی ایشیا کی سردی میں تو شاید یہ سروائیو کر جائے مگر خوراک کو برف ڈھانپ لیتی ہے۔ تلور ہمارے علاقوں کی گرمی کی آمداور اپنے آبائی علاقوںمیں موسم معتدل ہونے پرلوٹ جاتا ہے۔ گرمیوںمیں پاکستان کے صحراو¿ں میں ایک بھی تلور موجود نہیں ہوتا۔ناگ ویلی کرچی بلوچستان میں معتدل موسم کے باعث سال بھر بھی تلور بسیرا کرتا ہے۔ اس سال چولستان میں گرمیوں کے آغاز میں بھی تلور موجود رہا۔ابو ظہبی کے حکمران پاکستان میںتلور کاشکار کرنے آتے ہیں۔ وہ اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ تلور کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ تلور کی نسل کی کم یابی کی رپورٹس میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ شکاریوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ عرب شہزادوں کے خلاف ان کے شوق پر کم ہوتی تلور کی نسل کے باعث نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ یکطرفہ پراپیگنڈا ایک پلاننگ کے تحت ہوتاہے جس کے پس منظر میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ عرب حکمران تلور کاشکار کرنے کے ساتھ اس کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ سال میں وہ کتنے تلور شکار کرسکتے ہیں؟ اس کی حکومت پاکستان کی طرف سے ایک حد مقرر ہے اور پھرتلور کا شکار آسان بھی نہیں ہے۔ یہ غول کی صورت میں نہیں نکلتے، اِکا دُکا نظر آجائے تو بندوق سے نہیں عرب شیخ باز کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔ صحرا میں اوپر تلور اڑ رہا ہوتا ہے، باز اس کا تعاقب کرتا ہے، نیچے شکاری جیپوںمیں جا رہے ہوتے ہیں۔ باز تلور کوپے در پے حملے کرکے زمین پر گرا دیتا ہے تو شکاری اسے اُٹھاتا اور شکار و شوق کا مرحلہ پایہ¿ تکمیل کو پہنچ جاتا۔ اس کے گوشت میں ازحد لذت اور طاقت کی ہوشربا کہانیوں کی حیثیت زیب داستاں سے زیادہ نہیں۔ جن ممالک میں تلور پایا جاتا ہے وہاں سے شہزادوں تک پہنچانا چنداں مشکل نہیں اگر اس کو خوراک کے طورپر استعمال کرنا ہو تو ان کو یہ وہیں دستیاب ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے شکار کئے تلور کو بھی شاید ہی کھاتے ہوں۔ شیوخ کو تلور کی کم ہوتی نسل کا ادراک ہے، اسی لئے انہوں نے ابو ظہبی میںکی بریڈنگ اور افزائش کے انتظامات کر رکھے ہیں۔جہاں سے افزائش کے بعد پاکستان اور کئی ممالک میں لے جا کر فضا میں چھوڑے جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ ریلیز ابوظہبی کی آرگنائزیشن، انٹرنیشنل فنڈ فار ہوبارا کنزرویشنIFHCاور پاکستان کی این جی او ہوبارا فاﺅنڈیشن کے تعاون سے ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہوبارا فاﺅنڈیشن کے ہیڈ بریگیڈیئر (ر) مختار احمد ہیں۔ اب تک تین لاکھ سے زائد تلور مختلف ممالک اور مختلف اوقات میں ریلیز کئے جا چکے ہیں۔ مارچ 2017ءمیں بہاولپور اور رحیم یار خان میں 500تلور چھوڑے گئے۔ ان کی نوائے وقت میں کوریج کا مجھے اعزاز حاصل ہے۔ریلیز کا یہ سلسلہ پاکستان میں ہر سال ہوتا ہے۔
ابوظہبی میں ہزاروں تلوروں کی سالانہ پیدائش اور افزائش ہوتی ہے۔ ابوظہبی کے حکمران نہ صرف تلور کے تحفظ کیلئے انتظامات کرتے ہیں پاکستان میں اربوں روپے کے فلاحی منصوبے جاری ہیں، ان میں بیسیوں ہسپتال اور تعلیمی ادارے شامل ہیں۔کالے ہرن کی ناپید ہوتی نسل کے تحفظ اور افزائش کے بھی انتظامات کئے گئے ہیں۔لال سہانرا سے متصل صحرا میں ہوبارا ریسرچ سنٹر کے ساتھ وسیع وعریض قطع پر کالے ہرن اور چنکارہ کو قدرتی ماحول فراہم کیا گیا ہے ،تاکہ انکی افزائش ہو،یہ سب ہم لاہور سے گئے صحافیوں نے بھی ملاحظہ کیا۔رحیم یار خان میں تو اسی مقصد کیلئے ساڑھے چار ہزار ایکڑ مختص ہیں۔ یہ بہرحال ایک طویل بحث ہے، جس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ تلور کے شکار کے بارے میں لغو اور بے بنیاد پراپیگنڈے کا توڑ نہ ہونے کے باعث ملک کی ایلیٹ کلاس بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ عمران خان تلور کے غیرملکیوں کے شکار کے سخت مخالف رہے ہیں۔ اصل صورتحال سامنے آنے پر اب خود دعوتِ شکار دیتے ہیں۔
اس سال حیران کن طورپر گرمیوں میں سارے تلوروں نے چولستان سے کوچ نہیں کیا، ان کی چولستان موجودگی برقرار رہی۔ ایسا صدیوں قبل تو شاید ہوا ہو‘ حالیہ دہائیوں میں نہیں ہوا۔ جن ہوبارا کو ریلیز کیا جاتا ہے، ان میں سے 10 فیصد کے جسموں میں انٹینا فٹ کر دیئے جاتے ہیں۔ ان کی سیٹلائٹ کے ذریعے مانیٹرنگ ہوتی ہے۔ یہ سارے کے سارے تلور ہر سال سردیوں کی"چھٹیاں" گزار کر موسم گرم ہونے پروسطی ایشیاچلے جاتے ہیں۔ رواں برس پہلی مرتبہ گرمیوں میں درجن بھر تلور کی چولستان میں موجودگی سامنے آئی۔ یہ درجن بھر ان 10 فیصد میں سے ہیں جن میں انٹینا فٹ تھے۔ ہوبارا فاﺅنڈیشن انتظامیہ نے جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ یہ تلور جہاں موجود ہیں اور ان میں سے کئی نے انڈے دیئے جن کو خود مادہ تلور نے سیا‘ ان سے جنم لینے والے بچوں کی تعداد درجن کے قریب ہے۔ اس طرح ایک مائیگریٹری پرندہ مقامی ہو رہا ہے۔ ہوبارا فاﺅنڈیشن نے ایک ایک مرحلے کی نہ صرف مانیٹرنگ کی بلکہ غیرمحسوس طریقے سے ویڈیو بھی بنائی۔ شاید کرونا کی ناجوازیوں میں سے یہ بھی ایک اعجاز ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ایسے اعجاز سے زیادہ انسانی بقاءکی فکر ہے۔ اللہ کرونا وباءسے انسانیت کو نجات عطاءفرمائے(آمین)۔

 

متعلقہ خبریں