پاکستان: کریم ٹیکسی کی خواتین ڈرائیورز
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع دسمبر 07, 2016 | 18:31 شام
لاہور(مانیٹرنگ)پاکستان میں کریم ٹیکسی سروس نے خواتین ٹیکسی ڈرائیورز کو متعارف کروایا ہے۔ قدامت پرست پاکستانی معاشرے میں یہ ایک انوکھی مثال ہے جہاں خواتین مجموعی افرادی قوت کا محض بائیس فیصد حصہ ہیں۔
کریم ٹیکسی سروس کے اپنے حریف ادارے اوبر ٹیکسی کی نسبت مشرقِ وسطی ، شمالی افریقہ اور پاکستان میں زیادہ بڑے مارکیٹ شیئرز ہیں۔ اب یہ ایک نئے آئیڈیے کے ساتھ میدان میں آئی ہے جس کے مطابق خواتین ٹیکسی ڈرائیورز کو متعارف کرایا جائے گا جو مرد اور خواتین دونوں طرح کے گاہگوں کو خدمات مہیا کر یں گی۔
فی الحال یہ سروس پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں مہیا کی جارہی ہے۔ پاکستان میں ’کریم‘ کے جنرل مینیجر احمد عثمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم خواتین کو اپنی آمدنی میں اضافےکے وہی مواقع دینا چاہتے ہیں جو یہاں مردوں کو حاصل ہیں۔‘‘ عثمان نے بتایا کہ اب تک سات خواتین ڈرائیورز عملے میں شامل ہو چکی ہیں لیکن ملازمت کے لیے درخواستیں ابھی لی جا رہی ہیں اور ُان کو امید ہے کہ مزید خواتین اپنی دلچسپی ظاہر کریں گی۔‘‘
تیس سالہ زہرا علی نے ایک دوست سے ’کریم‘ کے بارے میں سنا تھا اور اُنہیں لگا کہ یہ روزگار کمانے کا ایک با عزت ذریعہ ہو سکتا ہے۔ زہرہ علی کے شوہر کا دو سال قبل انتقال ہو گیا تھا اور تب سے وہ اپنے دو بچوں کی اکیلے ہی کفالت کر رہی ہیں۔
اب تک سات خواتین ڈرائیورز عملے میں شامل ہو چکی ہیں
علی کے پاس بس اِتنے ہی پیسے تھے کہ وہ ایک کار خرید سکیں اور ڈرائیونگ لائسنس بنا سکیں۔ زہرا علی نے جب چند ماہ پہلے ’کریم‘ میں نوکری کے لیے درخواست دی تو اُسے بتایا گیا کہ وہاں خواتین کے لیے کوئی اسامی نہیں ہے تاہم جلد ہی اُنہیں فون کر کے نوکری کی خوشخبری سنا دی گئی۔
زہرا علی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر بات کرتے ہوئے کہا، ’’واحد کام جو میں جانتی تھی وہ ڈرائیونگ ہے۔ اب میں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور زندگی فراہم کر سکوں گی۔‘‘
عثمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں خواتین کسٹمرز کی طرف سے خصوصی طور پر محفوظ ٹیکسیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ چھیالیس سالہ خاتون ڈرائیور آسیہ عبدالعزیز سے جب پوچھا گیا کہ اُنہوں نے ملازمت کے لیے ’کریم‘ کا انتخاب کیوں کیا تو اُن کا کہنا تھا، ’’ کراچی جیسے شہر میں جہاں کوئی کام بھی بغیر سکیورٹی کے کرنا ممکن نہیں، جب ایک ادارہ محفوظ ٹیکسی فراہم کرے تو قدرتی طور پر یہ خواتین کے لیے اہم ہے۔‘‘