2019 ,اکتوبر 7
یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب برطانوی ہند میں میری تعیناتی بطور پولیس انسپکٹر ہوئی۔ نینی تال‘ آسام اور ڈیرہ دون کے جنگلاتی قصبوں اور دیہات میں گزارے ہوئے ملازمت کے چھیالیس سال میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ آج بھی میں ان بیتے دنوں کو یاد کروں تو میرے خون کی گردش یکدم تیز ہو جاتی ہے۔اس زمانے میں وہاں شیر‘ چیتے‘ لگڑبھگے‘ ریچھ‘ سانبھر اور دیگر چھوٹے بڑے خطرناک جانور بکثرت تھے۔ اگر کوئی درندہ آدم خور بن جاتا تو حکومت شکاریوں کی باقاعدہ جماعتیں بنا کر اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کرتی۔ جب بھی میرے علاقے میں کوئی آدم خور نمودار ہوا‘ تو حکومت کی طرف سے باقاعدہ احکامات ملنے پر مجھے خود اس کے خلاف برسرپیکار ہونا پڑا۔ ایسا ہی ایک آدم خور چیتا بنگلور کے علاقے میں نمودار ہوا تھا۔
وہ دن میں کبھی نہیں بھلا پائوں گا۔شام کی خاموشی میں گائوں سے ذرا دور کسی عورت کی بڑی ہی بھیانک چیخیں بلند ہوئیں جس کے چند ہی ثانیوں بعد کسی درندے کی دبی دبی غراہٹیں سنائی دیں اور پھر فضا میں موت کا سا سکوت طاری ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میرے دفتر کے پاس سے کوئی دوڑتا ہوا گزر گیا۔ وہ چلاتا جا رہا تھا ’’وہ عورت کو اٹھا لے گیا… مر گئی بیچاری…‘‘
گائوں پر گہری خاموشی چھا چکی تھی۔ میں گزشتہ واقعات کی روشنی میں تصور کر سکتا تھا کہ ہندوئوں کے گھروں میں اس وقت کیا عالم ہے۔ مائوں نے اپنے جگر گوشوں کو سینوں سے لگا لیا ہو گا۔ گھروں کے دروازے اچھی طرح بند کر دیے گئے ہوں گے۔میں جانتا تھا کہ کل صبح جنگل کے کسی نیم تاریک گوشے سے اس بدنصیب عورت کے کچھ جسمانی اعضا بکھرے ملیں گے۔
وہ ایک چیتا تھا جسے انسانی خون پینے اور گوشت کھانے کی لت پڑ گئی تھی۔ ایک ماہ کے دوران وہ موذی بنگلور اور گرد و نواح کے دیہات میں چھبیس افراد کو شکار بنا چکا تھا۔ اگر شیر ہوتا تو اسے اب تک ڈھیر کر لیا جاتا مگر یہ چیتا نہایت چالاک اور تیزرفتار درندہ تھا۔ وہ پانچ سات انچ گھاس میں بھی اپنے آپ کو چھپا لیتا اور زمین کے ساتھ اس طرح ٹانگیں پھیلا کر چپک جاتاہے کہ نظر ہی نہیں آتا۔ اس کے لیے درختوں پر چڑھنا بھی دشوار نہیں۔ جنگل میں گھومتے لوگ جھاڑیوں پر نظر رکھ کر چلتے مگر چیتا کسی درخت سے چھلانگ لگا کر بے خبر انسان کو شکار بنا ڈالتا ۔ اس لیے جنگل میں چیتے کی تلاش بڑی خطرناک اور جان لیوا مہم ثابت ہوتی۔
جس چیتے نے بنگلور کے گردونواح میں کہرام برپا کیا‘ وہ اس قدر دلیر ہو چکا تھا کہ دن کے وقت بھی جھونپڑیوں میں گھس کر عورتوں یا بچوں کو اٹھا لے جاتا۔ لوگوں کے شور شرابے کا اس پر مطلق اثر نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے شکار کو اطمینان سے گھسیٹ کر جنگل کے گھنے حصوں میں گھس جاتا اور اس طرح چٹ کرتا کہ بعد میں اس بدنصیب کی فقط ہڈیاں ہی ملا کرتی تھیں۔
اس کا پہلا شکار ایک نوجوان گڈریا تھا۔ وہ روزمرہ کے مطابق بھیڑ بکریاں چرانے جنگل میں گیا۔ دوپہر کے وقت بھیڑیں اور بکریاں خوفزدہ انداز میں دوڑتی ہوئی گائوں واپس آ گئیں مگر گدڑیا ان کے ساتھ نہ تھا۔ گائوں کے کئی لوگ برچھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہو کر اس کی تلاش میں نکلے۔ اس زمانے میں آتشیں اسلحہ اتنا عام نہ تھا۔ دور دراز کے دیہات میں تو بندوق یا رائفل صرف سرکاری اہلکاروں کے پاس ہوتی یا پھر ڈاکوئوں کے پاس۔ گڈریے کی تلاش میں نکلنے والوں کو بہت جلد اس کاایک بازو‘ ایک ادھ کھائی ہوئی ٹانگ اور ادھڑی ہوئی کھوپڑی مل گئی۔ پیٹ کی آلائشیں اور دیگر اعضا اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے۔
میں اس علاقے کا پولیس انسپکٹر تھا۔ جس جنگل میں یہ حادثہ ہوا وہ میرے تھانے کی حدود میں واقع تھا۔گڈریے کے مرنے کی اطلاع ملتے ہی میں دو کھوجیوں کو ساتھ لے کر حادثے کی جگہ پہنچا۔ لاش کی باقیات اور آس پاس کی زمین کامعاینہ کرنے کے بعد کھوجیوں نے بتایا کہ لڑکے کو مارنے والا ایک بہت بڑا چیتاہے۔
آدم خور چیتے کا سن کر گائوں والوں پر دہشت طاری ہو گئی اور وہ گائوں سے باہر آنے جانے سے کترانے لگے۔ میرے خیال میں وہ حق بجانب تھے۔ شیر یا چیتا آدم خوری پر اتر آئے تو انسانوں کے لیے بڑا عذاب بن جاتا ہے اور اس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں ہوتا۔ میں ہندوستان کے جس خطے کا ذکر کر رہا ہوں وہاں سینکڑوں گائوں ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اس طرح آباد ہیں کہ ان کے درمیان گھناجنگل‘ پہاڑ یا پتھریلے سلسلے موجود ہیں۔ گائوں کے لوگ کہیں بھی آنے جانے کے لیے جنگل کے اندر سے گزرنے پر مجبور تھے۔ یوں اگر کہیں نواح میں کوئی آدم خور سر ابھارتا‘ تو آس پاس موجود کئی دیہات کی روزمرہ زندگی عملی طور پر مفلوج ہو جاتی۔ بنگلور میں بھی یہی ہوا۔
گڈریے کی موت کے چند ہی روز بعد چیتے نے جنگل میں جانے والی ایک بیل گاڑی پر حملہ کیا۔ بیل تو بھاگ گیا مگر گاڑی بان درندے کے ہتھے چڑھ گیا۔ درندے نے دوسری مرتبہ ایک انسان کا گوشت اورخون چکھا تو گزشتہ تمام ذائقے بھول گیا۔ یوں بھی جنگلی جانوروںکے مقابلے میں دو پائے انسان کا شکار اتنا مشکل نہ تھا چنانچہ اس نے اپنی اِکا دُکا وارداتوں کا آغاز کر دیا۔ جب وہ اس قدر نڈر ہو گیا کہ گائوں کے اندر گھس کر بچے اور عورتیں اٹھا لے جانے لگا تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے تمام اندوہناک واقعات کی تفصیلی رپورٹ سرکار کو روانہ کر دی۔
چند روز بعد مجھے اس آدم خور چیتے کے شکار کا سرکاری اجازت نامہ موصول ہو گیا‘ چنانچہ میں نے گائوںسے باہر ایک درخت پر مچان بندھوائی اور ایک بکرا قریبی درخت سے بندھوا کر شام کے وقت مچان پر چڑھ بیٹھا۔ وہ رات میں نے چوکس حالت میں گزار دی مگر دور سے بھی چیتے کی آواز نہ سنائی دی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میرا مدمقابل نہایت ہی چالاک تھا۔ میں نے دوسری رات بھی مچان پر گزار دی مگر چیتا بکرے کے قریب بھی نہ آیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ چیتا اب صرف انسانوں ہی کو کھائے گا‘ بکروں اور بچھڑوں وغیرہ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ میں نے آس پاس کے دیہات یہ پیغام بھجوا دیا کہ وہاں کے مکین خبردار رہیں اور جنگل میں جانا چھوڑ دیں۔ اگر جائیں بھی تو پانچ چھ کی ٹولیوں میں لاٹھیوں سے مسلح ہو کر۔
دس دن بخیریت گزرنے کے بعد گیارہویں روز پھر قیامت آ گئی۔ دو عورتیں خوفزدہ حالت میں بھاگتی ہوئی گائوں آئیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ چار عورتیں جنگل میں خشک لکڑیاں اکٹھی کر رہی تھیں کہ اچانک کسی درخت سے چیتے نے اُن پر جست لگائی اور ایک عورت کو دبوچ لیا۔ اس کے قریب والی عورت خوف کے مارے بے ہوش ہو کر گر پڑی جبکہ باقی دو عورتیں چیختی دوڑتیں گائوں پہنچ گئیں۔
میں نے اپنی سرکاری رائفل تھامی اور دس لٹھ بردار جوانوں کو لے کر موقع پر پہنچ گیا۔ ایک عورت غائب تھی‘ دوسری ابھی تک بے ہوش پڑی تھی۔ گائوں والے اُسے اٹھا کر واپس لے گئے جبکہ میں کھوجیوں کی مدد سے چیتے کے تعاقب میں چل پڑا۔ خون کے علاوہ مٹی اور گھاس پر پڑے نشانات سے صاف پتا چلتا تھا کہ چیتا عورت کو گھسیٹتا ہوالے گیاہے۔ ابھی ہم نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک کھوجی کی گھبرائی ہوئی آواز میری سماعت سے ٹکرائی:
’’وہ دیکھو صاب جی!‘‘
میں نے اس طرف دیکھا‘ بڑا ہی ہیبت ناک منظر تھا۔ ہم سے تقریباً بیس گز کے فاصلے پر ایک بڑا درخت ایستادہ تھا جس کا ایک تنا زمین سے چند فٹ اوپر تھا۔ چیتا عورت کو اٹھا کر اس تنے پر لے گیا تھا اور اب اس کی لاش کھا رہا تھا۔ میں نے رائفل کندھے سے اتاری‘ اپنے ساتھیوں کو پُرسکون رہنے کا اشارہ کیا اور چیتے کا نشانہ باندھتے ہوئے لبلبی پر دبائو بڑھا دیا۔
عین اس لمحے جب میں گولی چلانے والا تھا‘ چیتے نے جھرجھری لے کر درخت سے نیچے جست لگا دی۔ میری چلائی ہوئی دونوں گولیاں خالی گئیں۔ اس کارروائی میں بمشکل چند سیکنڈ لگے مگر انہی چند لمحوں میں وہ جسیم چیتا یوں غائب ہوا جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا ہو۔ چیتے کے جست لگاتے ہی عورت کی ادھ کھائی لاش تنے سے گر گئی۔ اس کی حالت ناقابل بیان حد تک خراب تھی۔ایک ٹانگ غائب تھی‘ پیٹ پھٹ چکاتھااور چہرہ خاردار زمین پر گھسیٹے جانے کے باعث بری طرح مسخ ہو گیا تھا۔
میں نے گائوں والوں سے کہا کہ چیتا اپنا شکار پیٹ بھر کر نہیں کھا سکا لہٰذا وہ دوبارہ آئے گا‘ عورت کی لاش یہیں پڑی رہنے دو‘ مگر وہ نہ مانے۔ ان کے خیال میں اس طرح لاش کی بے حرمتی ہو جاتی۔ میں چاہتا تو حکم دے کر لاش وہیں رکھوا سکتا تھا مگر اس طرح ان لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے۔ معاملہ چونکہ عورت کا تھا اس لیے میں نے انھیں لاش لے جانے دی۔ آخری کوشش کے طور پر میں نے ایک بکرا منگوایا اور جہاں چیتے نے لاش کھائی تھی‘ اس درخت کے نیچے بندھوایا اور قریب کے درخت پر مچان بنوا لی۔ مجھے یقین تھا کہ چیتا عورت کی باقی لاش کھانے ضرور آئے گا اور اپنا شکار نہ پا کر بکرے پر غصہ نکالے گا۔ میں رات بھر مچان پر بیٹھا رہا۔ رات کے آخری پہر مجھے سامنے کی جھاڑیوں میں سے دو چمکتی آنکھیں نظر آئیں مگر بمشکل ایک سیکنڈ کے لیے‘ میں نے باقی رات اس جگہ نظریں جمائے رکھیں حتیٰ کہ صبح ہو گئی مگر چیتے کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
میں واپس آ کر سو گیا۔ دوپہر کا وقت تھا جب لوگوں نے مجھے ہڑبڑا کر بیدار کر دیا۔ وہ سب بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ آدم خور ایک جھونپڑی کے اندر آ کر چار سالہ بچہ اٹھا لے گیا ہے۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ خون کے قطرے ہمیں بہت دور تک لے گئے۔ خاصی تلاش کے بعد ایک جگہ سے بچے کی لاش ملی۔ یہ پہلی لاش تھی جسے چیتے نے کھانے کے بجائے یونہی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ وہ کتنے بچوں کو گائوں سے اٹھا لے گیا اور اس نے کتنی عورتوں کو گائوں کے قریب سے شکار کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس چیتے کی کارروائیوں سے بہت تنگ آ چکا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اسے مارنے کے لیے کیا حربہ استعمال کروں۔ بالآخر میں نے اپنے ایک وفادار ساتھی حوالدار امیر علی کو ساتھ لیا اور اُس کے ہمراہ اُن تمام مقامات کادورہ کیا جہاں آدم خور گھومتا پھرتا دیکھا گیا تھا۔ یہ اس آدم خور کی سرکوبی کے لیے میرا آخری حربا تھا۔ میرا خیال تھا کہ کہیں نہ کہیں ہمارا آمنا سامنا ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ آس پاس کی بستیوں اور چندشکاریوں سے ملنے والی معلومات سے پتا چلا کہ چیتا دن کے وقت عموماً مغرب کی جانب کوئی پندرہ میل دور ایک ویران بستی میں آرام کرتا ہے۔ اس بستی میں پندرہ بیس گھر اور چند جھونپڑے تھے۔ چیتے نے ساٹھ ستر نفوس پر مشتمل اس بستی کے بیشتر مکینوں کو اپنا لقمہ بنا ڈالا تھا۔ بقیہ اپنی جانیں بچا کر دوسری بستیوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اب تک تین گھاگ شکاری چیتے کی تلاش میں اس بستی کارخ کرچکے تھے مگر اُن میں سے ایک بھی واپس نہ لوٹا۔
ہم اپنی مہم کے دوسرے روز ڈھل پران نامی بستی پہنچ گئے جو چیتے کی آماجگاہ سے دس میل دور واقع تھی۔ یہ ایک بڑی بستی تھی۔ اس میں گرد و نواح کی کئی چھوٹی بستیوں کے سہمے ہوئے مکین بھی پناہ لے چکے تھے۔ ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد آدم خور کا نوالہ بن چکا تھا۔ سبھی لوگ ہمیں اپنی اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بے چین تھے۔ ان میں سے سب سے اہم اس زمیندار کا بیان تھا جس کے ملازم لڑکے کو آدم خور چار دن پہلے مویشیوں کے باڑے سے اٹھا لے گیا تھا۔
زمیندار نے بتایا کہ اس نے ایک اٹھارہ سالہ یتیم لڑکا مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھا ہوا تھا۔ وہ چونکہ ہندوئوں کی کمتر ذات سے تعلق رکھتا تھا‘ اسی لیے زمیندار کے گھر اس کا آنا جانا ممنوع تھا۔ اس کی رہائش مویشیوں کے باڑے ہی میں تھی جہاں وہ ایک کونے میں چارپائی پر رات بسر کر لیتا۔ عام حالات میں باڑے کا دروازہ باہر سے زنجیر چڑھا کر بند کر دیا جاتا مگر جب سے چیتا علاقے میں وارد ہوا تھا‘ زمیندار حفاظت کی پیشِ نظر کُنڈی میں لکڑی پھنسا دیتا۔
لڑکا اندر سے خاصا وزنی پتھر دروازے کے ساتھ رکھ کر کھلنے کے امکانات ختم کر دیتا۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود چیتا اپنی واردات اس صفائی سے کر گیا کہ گائوں کے توہم پرست مکین پورے وثوق سے کہنے لگے کہ آدم خور درحقیقت ایک بھوت ہے جو بند دروازے کھول کر گھروں میں گھسنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بعدازاں میں نے امیرعلی کے ساتھ باڑے کا معاینہ کیا تو دروازے اور چوکھٹ پر درندے کے پنجوں کے نشان نمایاں نظر آئے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ کنڈی میںپھنسا لکڑی کا ٹکڑا چیتے کی جدوجہد کے دوران نکل گیا جس کے بعد اس کے لیے زنجیر گرا کر دروازہ کھولنا مشکل نہ رہا۔
مویشیوں کاکمرا اندر سے دیکھنے کے بعد ہم دونوں حیرت زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے‘ کمرا اتنا بڑا نہیں تھا کہ مویشیوں کے درمیان چیتے کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی جگہ مل پاتی۔ لڑکے تک پہنچنے کے لیے اس نے درمیانی فاصلہ یقینا مویشیوں کی ٹانگوں کے نیچے سے رینگ کر طے کیا ہو گا۔ اس دوران مویشی ڈکرائے ضرور ہوں گے‘ مگر لڑکے نے توجہ اس لیے نہ دی کہ مویشی یوں بھی رات بھر ڈکراتے رہتے ہیں۔ وہیقینا اس امر کا عادی ہو چکا تھا۔
بہر حال اس بات پر ہم دونوں حیرت زدہ تھے کہ دروازہ کھولنے کی جدوجہد کے دوران لڑکا بدستور نیند میں کیونکر مگن رہا؟اگرچہ یہ بات بھی بظاہر ناقابل یقین لگتی ہے مگر میں اور امیرعلی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے کہ گیارہ گائے بھینسوں میں سے کسی کو چیتے کے پنجوں سے خراش تک نہ آئی۔
وہ زمیندار پھر ہمیں اپنے گھر لے گیا جہاں اس نے ہماری خاطر تواضع کی۔ اس کا تعلق برہمن ذات سے تھا۔ اس نے ہمارے رہنے کا انتظام بھی کردیا۔ ہمارا ارادہ اگلی صبح آدم خور کی تلاش میں نکلنے کا تھا۔ میرا ذاتی خیال تھا کہ جس بستی کو چیتے نے ٹھکانہ بنا رکھا ہے وہاں ہماری کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
اس بستی کوایک طرف سے ندی تو دوسری طرف سے گھنے جنگل نے گھیر رکھا تھا۔ شمال میں وہ بستی تھی جہاں ہم مقیم تھے۔ جنوب میں جنگل سے ذرا ہٹ کر ایک چھوٹی سی جاگیر تھی جس کا نام بھگت پور تھا۔
اگلی صبح امیرعلی نے تجویز پیش کی کہ آدم خور والی بستی کا معاینہ کرنے سے قبل جنگل کا چکر لگا لیا جائے۔ میں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا اور ہم ضروری ساز و سامان سے لیس ہو کر جنگل کی سمت روانہ ہو گئے۔ جنگل کافی گھنا تھا اور اس میں تناور برگد‘ پیپل‘ مہوہ اور املی کے درخت جابجا نظر آئے۔ اس روز ہمارا ارادہ صرف علاقے کا جائزہ لیناتھا۔ یوں بھی مجھے آدم خور سے مڈبھیڑ کی کوئی امید نہ تھی۔ میں آدم خور درندوں کی فطرت سے بخوبی واقف ہوں‘ کسی مخصوص علاقے میں اوپر تلے وارداتیں کرنا آدم خور کی خصلت کے خلاف ہے۔ پھر ہمارا پالا تو ایک ایسے درندے سے پڑا تھا جو اپنی عیاری اور مکاری کے واضح ثبوت فراہم کر چکاتھا۔
ہماری نگاہیں اطراف کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ جنگل کے قریب پہنچ کر ہم مزید محتاط ہو گئے۔ ہماری رفتار قدرے نرم اور سست ہو گئی۔ راستہ ہر آن دشوار اور خطرناک ہوتا جا رہا تھا۔ بے پناہ نشیب و فراز تھے پھر جابجا خاردار جھاڑیاں راہ میں حائل ہو کر مزید مشکلات پیدا کر رہی تھیں۔ ایک میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ایک پگڈنڈی نما راستے تک پہنچ کر رک گئے۔ وہ راستہ جنگل کے وسط سے شرقاً غرباً گزرتا تھا۔
میں نے اس مقام پر زمین کاجائزہ لیا‘ تو ایک نر چیتے کے نقوش پا بکثرت نظر آئے۔ نشانات دیکھ کرمیں نے اندازہ لگایا کہ چیتا یہ راستہ باقاعدہ طور پر استعمال کرتا ہے۔ امیرعلی نے مجھ سے اتفاق کیا۔ ہم نے باڑے کے آس پاس جو نشانات دیکھے تھے وہ اِن نقوش سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔ اب میری ڈھارس بندھی اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ راستہ آدم خور ہی کے زیر استعمال تھا۔
’’اگر اس مقام پر گھات لگائی جائے تو بآسانی آدم خور کو جہنم واصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ امیرعلی نے رائے دی۔
’’لیکن میرے خیال میں ایسا قدم اٹھانے سے قبل ہمیں وہ بستی بھی ایک نظر دیکھ لینی چاہیے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ چیتے نے وہاں اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔‘‘ میں نے دھیرے سے کہا ’’مجھے یقین ہے یہ نقوش پا اسی بستی تک جا رہے ہیں۔‘‘
میرا اندازہ درست تھا۔ ایک گھنٹے بعد ہم ان کا تعاقب کرتے ہوئے اس بستی کی حدود میں داخل ہو گئے۔ دورسے دیکھنے پر ہی وہ ویران دکھائی دیتی تھی۔ گھاس پھونس سے بنی تیس چالیس جھونپڑیوں کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ چیتے کی آمدسے قبل وہاں لکڑہاروں کی رہائش تھی۔ آدم خور نے اپنی وارداتوں کا آغاز بھی اسی بستی سے کیا تھا۔ گھاس پھونس کی دیواریں توڑ کر شکار کرنے میں اسے یقینا کوئی دقت نہ ہوئی ہو گی۔ تین چار وارداتوں کے بعد لکڑہاروں نے وہ مقام غیرمحفوظ تصور کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ اُدھر چیتے کو اس بستی کی شکل میں ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا۔
جیسے جیسے ہم آگے بڑھے بستی کی ویرانی ہمارے دل و دماغ پر مسلط ہونے لگی۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا جیسے آدم خور ہمارے ساتھ اسی بستی میں موجود ہے۔ وسط میں پہنچ کر ہم رک گئے۔ وہاں دو انسانی پنجر اس حال میں پڑے تھے کہ ایک نظر ڈالتے ہی دل کانپ گیا۔ لباس کے چیتھڑوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ وہ دونوں آدم خور کا لقمہ بننے والے بدنصیب شکاری تھے۔
’’آدم خور یقینا بستی اور جنگل کے درمیان آزادانہ گھومتا پھرتا ہے۔‘‘ میں نے محتاط نگاہیں چار سو پھراتے ہوئے کہا۔
’’اس کا مطلب ہے صاحب! ہمیں اِن دونوں مقامات کی نگرانی کرنی ہو گی۔‘‘ امیرعلی نے تائیدی انداز میں سر ہلا کر تجویز دی۔
’’اس کے سوا کوئی چارہ نہیں امیرعلی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ہمارا پالا نہایت ہی مکار درندے سے پڑا ہے۔ اگر ہم اکٹھے رہے تو بعید نہیں کہ ہماری توجہ آدم خور سے زیادہ ایک دوسرے پر مرکوز رہے اور ہم اسے شکار کرنے کے بجائے خود شکار ہو جائیں۔لہذامیں بستی میں رکتا ہوں۔‘‘ میں نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا ’’تم جنگل میں نگرانی کرو۔ زمین کی نسبت تم کسی مضبوط درخت کی بلندی پر محفوظ بھی رہو گے۔‘‘
امیرعلی نے سر کو اثبات میں جنبش دی اور اپنا ساز و سامان سنبھال کر اس پگڈنڈی پر ہو لیا جو جنگل کی طرف جا تی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد رات ہونے والی تھی۔ اگر امیرعلی کے بجائے کوئی اور میرے ساتھ ہوتا تو میں اسے یوں تنہا جنگل میں کبھی نہ بھیجتا۔ لیکن امیرعلی کی بات دوسری تھی‘ مجھے اس کی حسیات اور نشانے پر بھرپور اعتماد تھا۔
امیرعلی کو روانہ کرنے کے بعد میں نے ایسی جھونپڑی کا انتخاب کیا جو بستی کے وسط میں واقع اور نسبتاً مضبوط تھی۔ اس کی تعمیر میں گھاس پھونس کے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختے بھی استعمال کیے گئے تھے۔ جھونپڑی کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ اگر کوئی اس کی طرف بڑھتا تو میں فوراً اسے نشانے پر لے سکتا تھا۔ پھر میں نے جس کمرے کومسکن بنایا اس کی دیواروں پر بنی درزوں سے میں باہر کا منظر بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا۔
جھونپڑی کا دروازہ اندر سے بند کر کیمیں کمرے میں نہیںبیٹھابلکہ وقفوں وقفوں سے کھانس کر اور کبھی سیٹی بجا کراپنی وہاں موجودگی کا احساس دلاتا رہا۔ جھونپڑی کے باہر چوہے اور گیدڑ حرکت کر رہے تھے۔ تین گھنٹے بعد چاند کی روشنی اس حد تک پھیل گئی کہ درزوں میں سے چاندنی چھن چھن کر اندر آنے لگی۔ مجھے یقین تھا کہ اگر چیتا کہیں آس پاس موجود ہوا‘ تو میری بو پا کر جھونپڑے کا رخ ضرور کرے گا۔
مزید تین گھنٹے یوں ہی گزر گئے مگر چیتے کی آمد کے آثار پیدا نہ ہوئے۔ چیتا جب رات کو شکار کے لیے نکلے تو ایک میل کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے میں طے کرتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اور نہایت استقلال کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا اور ذرا سی آہٹ پر چوکنا ہو کررک جاتا ہے۔ وہ جہاں جہاں سے گزرے دوسرے جانور محتاط انداز میں چیختے ہوئے اس کی آمد کی خبر دینے لگتے ہیں۔
میں نے درزوں میں سے باہر جھانکا‘ چاند کی روشنی اس حد تک پھیل چکی تھی کہ چالیس پچاس فٹ دور پھیلی جھاڑیاں اور دوسرے جھونپڑے صاف نظر آ رہے تھے۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہا تھا۔ آخر میں اس خود ساختہ قید سے اکتا گیا‘ جی میں آیا کہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائوں۔
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دور سے بندروں کے خوخیانے کی آوازیں سنائی دیں۔ تھوڑی دیر بعد بستی کے باہر گیدڑ زور زور سے چلانے لگے۔میں رائفل ہاتھ میں تھامے بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا۔ گیدڑ مسلسل چلّااور خبردار کر رہا تھا کہ ’’ہوشیار! دشمن آ پہنچا۔‘‘ میں کمرے سے نکلا‘ جھونپڑی کے چھوٹے سے صحن کے وسط میں کھڑا ہوا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔
جھونپڑی کی جس دیوار میں دروازہ نصب تھا‘ وہ تختوں سے بنائی گئی تھی اور میرا رخ اسی جانب تھا۔ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ چیتا اسی طرف سے حملہ آور ہو گا۔ دفعتہ فضا پر ہیبت ناک سکوت طاری ہو گیا۔ گیدڑوں کے چلّانے کی آوازیںبھی اب کہیں دور سے سنائی دے رہی تھیں۔ میں اپنی جگہ پتھر کے بت کی طرح کھڑا تھا کہ اچانک درندے نے جھونپڑی کے دروازے کو زور سے ٹکر ماری اور پوری جھونپڑی لرز گئی۔ دہشت سے میرا بدن پتھر ہو گیا۔ پُرشور آواز کے ساتھ دونوں پٹ وا ہوئے اور چیتا میرے عین سامنے آن کودا۔میں نے پہلی بار اس چیتے کو یوں بھرپور انداز میں اپنی آنکھوں کے سامنے کھڑا دیکھا۔ اس سے قبل میرا اس آدم خور سے آمناسامنا تو ہوا تھا مگر وہ اتنا تفصیلی نہ تھا کہ میں اس کے وجود پر ایک بھرپور نظر ڈال پاتا۔
میں نے زندگی میںبیسیوں درندے شکار کیے ہیں مگر میں دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ اس سے زیادہ عجیب و غریب درندہ میں نے آج تک اپنی زندگی میں دوبارہ نہ دیکھا۔ وہ تھا تو قدآور نر چیتا لیکن اس کا رنگ ڈھنگ ہی نرالا تھا… منقّش کمر بند‘ کلائی بند اور سر پر چمڑے کی جڑائو ٹوپی۔سچ پوچھو تو وہ اس قدر خوبصورت حیوان کی شکل میں میرے سامنے کھڑا تھا کہ ہزار کوشش کے باوجود میںرائفل سیدھی کر کے اس پرگولی نہ چلا سکا۔
اگلے ہی لمحے میری پلک جھپکی اور چیتا وہاں موجود نہ تھا۔ میں نے فوراً باہر نکل کر اِدھر اُدھر دیکھا مگر چیتے کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
یہ میری خوش قسمتی ہی تھی کہ اس وقت میں زندہ سلامت اپنی جگہ پر کھڑا تھا ورنہ میری بے خودی سے فائدہ اٹھا کر وہ درندہ پل بھر میں میری تکابوٹی بھی کرسکتا تھا۔ مجھ سے قبل آنے والے بدقسمت شکاریوں کے ساتھ شاید ملتا جلتا حادثہ رونما ہوا تھا۔ میرے زندہ بچ جانے کی ایک ہیتوجیہ پیش کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ ابھی میری زندگی کے دن باقی تھے۔ بہرحال ایک خطرناک درندہ میرے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ میںنے جھونپڑیکیکنڈی چڑھا کرپائپ سلگا یا‘ اور برآمدے میں بیٹھ گیا۔
چند ثانیے قبل میں نے جس درندے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ کوئی معمولی درندہ نہیں بلکہ کسی کا سدھایا ہوا نہایت قیمتی شکاری چیتا تھا۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ہندوستان میں شکاری چیتے سدھانے کا رواج مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے ڈالا تھا۔ اس کے بعد آنے والے بادشاہوں اور والیان ریاست نے بھی اپنے اپنے دور میں چیتے پالے۔ انگریز دور حکومت میں بھی ہندوستان کی بعض ریاستوں میں شکاری چیتے خاص طور سے پالے جاتے تھے۔ ان کی نگہداشت و پرورش کے لیے باقاعدہ تنخواہ دار ملازم مقرر ہوتے۔
شکاری چیتے کی تربیت انہی خطوط پر ہوتی جن پر دوسرے شکاری جانوروں مثلاً کتوں یا باز وغیرہ کی تربیت کی جاتی ہے۔ مگر یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ چیتا ایک بار سدھا لیا جائے تو وہ انسان سے بہت مانوس ہو جاتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اس سے بہترین اور تیزرفتار شکاری جانور شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ راجے مہاامیرعلیں کے ہاں پالے جانے والے شکاری چیتوں کا مقصد بھی خالصتاً شکار کھیلنا ہی ہوتا تھا۔
جب کبھی والی ریاست یا کوئی اہم سرکاری ملازم اس مخصوص شکاری مہم کا لطف اٹھانا چاہتا تو شکاری چیتوں کو مع ان کے رکھوالوں کے طلب کر لیا جاتا۔ ان چیتوں سے عام طور پر ہرن اور تیز رفتار چیتل کے علاوہ کبھی کبھی خرگوش کا شکار بھی کھیلا جاتا۔ محافظ چیتوں کو ان کے مخصوص لکڑی کے پنجروں سمیت بیل گاڑیوں پر لاد کر میدان میں لے آتے۔
شکار نظر آتا تو چیتے کی آنکھوں سے پٹی کھول کر اسے دکھایا جاتا۔ چیتا چپکے سے گاڑی سے اترتا اور جھاڑیوں میں چھپتا چھپاتا اپنے شکار کے سر پر پہنچ جاتا۔ یہ طریقہ عام طور پر ہرنوں اور بارہ سنگھوں کے شکار کے لیے مخصوص تھا۔ شکار زیر ہونے کے کچھ دیر بعد تیزرفتار گھوڑوں پر سوار نگران بھی وہاں پہنچ جاتے اور چیتے کو بہلا کر ہرن اس سے لے لیتے۔ ہرن کو ذبح کر کے اس کی ایک ران چیتے کو بطور انعام پیش کی جاتی۔
برصغیر میں شکاری چیتے پالنے اور ان کے ذریعے شکار کرنے کا رواج تو خیر عام تھا‘ بعد میں وہ انگلستان بھی پہنچ گیا۔ سرنگا پٹم کی فتح کے بعد مارکوئلس ویلزلی نے ٹیپو سلطان شہید کے تین شکاری چیتے شاہ جارج سوم کی خدمت میں روانہ کیے تھے۔ ان چیتوں کے ساتھ ان کے خدمتگار اوربیل گاڑیوں کے علاوہ تربیت یافتہ بیل اور عربی النسل گھوڑے بھی تھے۔مگر شاہ جارج سوم نے اِن چیتوں کا فن دیکھنے کی کبھی کوشش نہ کی اور انھیں اپنی باقی زندگی شاہی چڑیا گھر میں گزارنی پڑی۔
سنگم کا وہ آدم خور چیتا بھی شکاری چیتوں کے قبیل سے تعلق رکھتا تھا۔ اب میری سمجھ میں یہ آیاکہ اب تک کوئی شکاری آدم خور کو کیوں شکار نہ کر پایا۔ عام چیتے کو زیر کرنا تو جان جوکھوں کا کام ہے ہی مگر ایک شکاری چیتے کے خلاف نبرد آزما ہونا بالکل ایسا ہے جیسے انسان خودکشی کرنے نکل کھڑا ہو۔
میرا ذہن انہی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا کہ صبح ہو گئی۔ اجالا پھیلتے ہی امیرعلی بھی مجھے ڈھونڈتے ہوئے وہاں آ گیا۔ ساری رات آنکھوں میںکاٹ دینے کے باوجود اس کا چیتے سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ جب اسے میرے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور چیتے کی حقیقت کا علم ہوا‘ تو وہ بھی ہراساں نظر آنے لگا۔
’’آپ کی قسمت اچھی ہے صاحب کہ زندہ بچ گئے۔‘‘ وہ خوفزدہ لہجے میں گویا ہوا۔
’’ہاں امیرعلی۔‘‘ میں نے ہنکارا بھر کر جواب دیا۔’’مگر افسوس کہ اس آدم خور چیتے کی قسمت مجھ سے بھی زیادہ اچھی ہے‘ میں نے اسے مارنے کا سنہرا موقع کھو دیا۔ خدا جانے اب وہ دوبارہ ہاتھ آئے گا بھی یا نہیں۔‘‘ میں نے حسرت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
ہم دل برداشتہ واپس گائوں پہنچے۔ مگرہم نے اپنی ناکامی کی خبر گائوں والوںکو نہیں سنائی ورنہ وہ مزید خوفزدہ ہو جاتے۔ ہم ناشتہ کرنے کے بعد رت جگے کے باعث کسل مندی کا شکار ہو گئے۔ زمیندار کے مشورے پر ہم نے نیند پوری کرنا مناسب جانا۔
اگر دوپہر کے وقت شور و غل سے میری آنکھ نہ کھلتی‘ تو خد امعلوم میں کب تک یونہی پڑاسویا رہتا۔ شور سن کر امیرعلی بھی جاگ گیا تھا۔ہم نے باہر نکل کر دیکھا تو لوگوں کا جم غفیر جمع تھا۔ جوآہ و زاری کر رہے تھے۔ پتا چلا کہ چیتا ابھی ابھی ایک چھ سالہ بچے کواُٹھاکر لے گیا ہے مگر کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ کس طرف گیا۔
ہم دونوں فوراً جائے وقوعہ پہنچے جہاں بچے کے والدین گریہ و زاری کر رہے تھے۔ مکان کے باہر ہم نے نشانات کا کھوج لگانا چاہا مگر کوئی ایسا نشان نہ ملا جس سے معلوم ہوتا کہ درندہ شکار لے کرکس سمت گیا ہے۔ دراصل وقوعہ کے بعد وہاں کئی لوگ جمع ہو گئے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے قدموں سے چیتے کے نقوش مٹ گئے۔
میں نے لوگوں کو تاکید کی کہ ہمارے علاہ کوئی گائوں کی حدود سے باہر نہ جائے اور پھر میں امیرعلی کو ساتھ لے کر گائوں کے گرد چکر لگانے لگا کہ شاید کہیں نشانات کا سراغ مل جائے۔ ہم گھومتے ہوئے گائوں کے مغربی حصے پہنچے تو زمین پر گھسیٹے جانے کے واضح نشانات نظر آئے۔ کچھ دور چل کر وہ نشانات غائب ہو گئے او رفقط چیتے کے نقوش پا رہ گئے۔ وہاں سے چیتے نے یقینا اپنا شکار پیٹھ پر لاد لیا تھا۔ ان نشانات اور خون کے قطروں کا رخ اسی جنگل کی طرف تھا جہاں ہم نے گزشتہ روز چیتے کی جستجو کی تھی۔
جوں جوں ہم آگے بڑھے بچے کے کپڑوں کے چیتھڑے اور ایسے ہی دوسرے نشانات ملنے لگے۔ جنگل کے باہر پیپل کا ایک خاصا پھیلا ہوا پرانا درخت تھا۔ جیسے ہی ہم نے اس درخت کو پیچھے چھوڑا نشانات یکدم غائب ہو گئے۔ اسی لمحے میری چھٹی حس چیخ چیخ کر نادیدہ خطرے کا اعلان کرنے لگی۔ میں نے امیرعلی سے پیٹھ جوڑ کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں مگر وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں آدم خور چھپ سکتا ہو۔ معاً میرا دھیان اس درخت کی طرف گیا۔
اب جو میں نے نظریں اٹھائیں تو میری نگاہیں درخت کے اس حصے پر جم کر رہ گئیں جہاں شاخوں میں سے بچے کا ایک خون آلود ہاتھ جھانک رہا تھا۔ درخت بلندی پر جا کر خاصا پھیل گیا تھا اور وہاں کئی ایسی شاخیں تھیں جن پر چیتا بآسانی خود کوپتوں میں چھپا سکتا تھا۔
میں نے امیرعلی کوخاموشی کااشارہ کیا اور ہم دونوں الٹے قدموں درخت سے دور ہوتے گئے۔ ہماری نگاہیں اور رائفلوں کے دہانے درخت پر مرکوز تھے۔ دس قدم دور ہم رک گئے۔ درخت کے آس پاس زمین پر نگاہیں دوڑانے کے بعد میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔
’’جناب چیتا اسی درخت پرچھپا بیٹھاہے۔‘‘ امیرعلی نے میرے کان میںسرگوشی کی مگر میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ۔
’’نہیں امیرعلی۔‘‘ میں نے سر کو نفی میں جنبش دیتے ہوئے کہا ’’اگر یہ عام آدم خور ہوتا تو شاید تمہاری بات درست ہوتی مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ ہمارا پالا ایسے شاطر درندے سے پڑا ہے جسے شکار کی تربیت خود انسان نے دی ہے۔‘‘
امیرعلی کبھی مجھے اور کبھی اس درخت کو دیکھتا جس پر سے میں نے اپنی رائفل کادہانہ ہٹا لیاتھا۔
’’آپ کامطلب ہے چیتا درخت پرموجود نہیں۔‘‘ وہ متوحش انداز میںبولا ’’اس نے ہمیں دھوکا دینے کے لیے لاش درخت پر چھپائی ہے ‘مگر یہ ثابت کیسے ہو گا۔‘‘
’’ایسے۔‘‘ میں نے درخت کے دامن میں نظر آنے والے پنجوں کے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اب امیرعلی بھی اس طرف متوجہ ہو گیا۔ پنجوں کے نشانات جنگل کی سمت جا رہے تھے۔ امیرعلی کے منہ سے ایک طویل سانس خارج ہو گئی۔
’’وہ ہمیں غُچہ دینا چاہتا ہے۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’تاکہ ہم اس امر کا انتظار کریں کہ وہ کب اپنا شکار کھانے واپس آئے اور اس دوران وہ یہاں سے دور نکل جائے۔ لیکن میں ایسا نہیںہونے دوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے اسے اپنے پیچھے آنے کااشارہ کیا اور جنگل کی سمت بڑھ گیا۔ چیتا ذرا گھوم کر مشرق کی طرف سے جنگل میںداخل ہوا تھا۔جنگل نے اپنی پوری رعنائی‘ دہشت اور پرشور آوازوں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ درخت ہوا کے جھونکوں سے ہل رہے تھے اور چاروں طرف عجیب بھیانک آوازیں گونج رہی تھیں۔ہم دونوں خاموش اور یوں چل رہے تھے کہ نہ قدموں کی آہٹ بلندہو اور نہ خشک پتوں کے پیروں تلے روندے جانے کی چرچراہٹ۔
آدم خور کے شکار میںکامیابی اور حفاظت کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ شکاری ممکنہ خاموشی سے پیش قدمی کرے۔ میری نظریں اطراف کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ رفتہ رفتہ جنگل گھنا ہوتا گیا۔ زمین پر پھیلے خشک پتوں اور دوسرے جانداروں کے نقوش پا کے درمیان چیتے کے نقش پا نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ قریب ہی درختوں پر سرخ منہ والے بندروں کا ایک غول چیخ رہا تھا۔کچھ خرانٹ قسم کے بندر ہماری طرف متوجہ بھی ہوئے لیکن اگلے ہی لمحے ہم آگے بڑھ گئے۔ ابھی ہم نے جنگل کے اندر نصف فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ پیچھے جھاڑیوں میں سر سراہٹ سن کر ہمارے قدم جہاں تھے وہیں منجمد ہو گئے۔
ہم نے پلٹ کر ادھر دیکھا جہاں آواز سنائی دی تھی مگر ہمارے رکتے ہی وہ آواز بھی بند ہو گئی۔ معاً بائیں طرف ایک درخت پر بیٹھے پرندے زور سے چیخے اور فضا میں پرواز کر گئے۔ خطرے کا احساس ہوتے ہی میرے اندر کا شکاری چوکنا ہو گیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیٹھ جوڑے‘ جنگل کے تاریک گوشوں کو گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہیں کسی گوشے میں چھپا بیٹھا کوئی ہماری حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔
میں نے امیرعلی کو مخصوص انداز میں ٹہوکا دیا اور رائفل کے ٹریگر پر ہاتھ رکھے آگے بڑھا۔ بارہا مجھے اپنے پیچھے کسی جانور کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئی لیکن یہ فیصلہ کرنا میرے لیے مشکل ہو گیا کہ وہ کسی کھردار جانور کیقدموںتلے روندے جانے والے پتوں کی آواز تھی یا گدی دار پیر والے چیتے کی۔ میں نے چند قدم پیچھے ہٹ کر رائفل کادہانہ اسی طرف گھما دیا۔
اچانک ہمارے سامنے قدِّآدم درختوںکے نیچے کوئی جانور تیزی سے گزرا۔ اس سے قبل کہ ہم اس کا نشانہ لیتے‘ وہ اونچی گھاس میںکہیں گم ہو گیا۔ میں اسے دیکھتے ہی پہچان گیا‘ یہ وہی مکار شکاری چیتا تھا جو ہمارے ساتھ ساتھ جھاڑیوں میں چھپتا چھپاتا چل رہا تھا۔ درندوں میں چیتا سب سے زیادہ مکار اور ہوشیار جانور ہے۔ وہ شیر کی طرح نہ تو گرج کر حملہ کرتا ہے اور نہ ہی دوسرے درندوں کی طرح اپنی موجودگی کااحساس دلاتا ہے۔ وہ بلی کی طرح دبے قدموں شکار کا تعاقب کرتا اور موقع ملتے ہی اسے نیچے گرا لیتا ہے۔ معاً ہمارے سامنے قدآدم گھاس میں جنبش ہوئی اور مجھے چیتے کی دم کا بالائی حصہ نظر آیا جو سانپ کے پھن کی طرح دھیرے دھیرے لہرا رہا تھا۔ اگر دم نظر نہ آتی‘ تو میں کبھی اندازہ نہ لگا پاتا کہ وہ کہاں چھپاہوا ہے۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میںامیرعلی کو ساکت رہنے کا اشارہ کیا‘ آہستہ بہت آہستہ سے رائفل اوپر اٹھائی اور پھر ہاتھوں کی ہلکی اور نرم جنبش سے اس مقام کا نشانہ لیا جہاں میرے اندازے کے مطابق چیتے کا دھڑتھا۔
ابھی میری انگلیاں بمشکل لبلبی تک ہی پہنچی تھیں کہ چیتے نے سر اٹھا کر یکلخت مجھے دیکھا اور پھر ایک چنگھاڑ کے ساتھ میری جانب چھلانگ لگا دی۔ اس کے اور میرے درمیان ابھی چند گز کا فاصلہ تھا کہ میرے فائر کی آواز گونجی اور دوسرے ہی لمحے چیتا اپنی پوری طاقت اور وزن کے ساتھ میرے اوپرآ گرا۔یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ میں کچھ سمجھ نہ سکا اور رائفل ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔
چیتے کا ایک پنجہ زور سے میرے کندھے پر لگا اور میں لڑھکتا ہوا گھاس میں جا گرا۔ چیتے نے چھلانگ لگائی اور غرا کر میرے کندھے میں دانت گاڑ دیے۔ وہ لمحہ میں زندگی بھر فراموش نہیںکرسکتا‘ حددرجہ تکلیف کے ساتھ ہی موت کے احساس نے پل بھر کے لیے میرے اعصاب جکڑ لیے۔ میںاچھی طرح جانتا تھا کہ ایسے موقع پر امیرعلی کبھی گولی نہیں چلائے گا۔ اب جو بھی کرنا ہے مجھے ہی کرنا تھا۔
گھٹنوں کے بل اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے اپنے شکاری خنجر کے دستے پر ہاتھ جمایا اور اسے میان سے باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسی لمحے چیتے نے غرا کر میرے کندھا چھوڑا‘ تو ایک جھٹکے کے ساتھ خنجر میرے ہاتھ میں آ گیا۔ اس دوران چیتے کی تیز سانسیں مجھے اپنی گردن اور کان پر محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے دیکھے بغیر خنجر اپنے پیچھے کھڑے چیتے کے جسم میں پیوست کر دیا۔ چیتا خون آشام غراہٹ کے ساتھ تلملایا اور میری پیٹھ سے اتر کر ایک طرف بھاگ گیا۔
امیرعلی شاید اسی لمحے کا منتظر تھا‘ اس نے آن واحد میں کئی گولیاں فرار ہوتے چیتے پر داغ دیں مگر وہ تو پلک جھپکتے میں غائب ہو گیا تھا۔
امیرعلی نے فوراً آگے بڑھ کر مجھے اٹھایا‘ میرے زخمی کندھے سے ابلتا خون سارے جسم کو تر کر رہا تھا۔ اس نے مجھے کندھے پر اٹھایا اور جنگل سے باہر دوڑ لگا دی۔ اس دوران میں درد کی شدت سے بے ہوش ہو گیا۔
٭٭
جب مجھے ہوش آیا‘ تو میں زمیندارکی حویلی کے صحن میں ایک چارپائی پر پڑا تھا۔ میری قمیص اتار کرزخموں کی مرہم پٹی شاید امیرعلی نے خود کی تھی کیونکہ وہ ادویہ کابکس اٹھائے میرے سرہانے ہی کھڑا تھا۔ صحن میںگائوں والوں کا ہجوم تھا‘سب میری طرف پرتشویش نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
اس موذی نے مجھے اس قدر پریشان کر دیا تھا کہ اس کا ہیولا ذہن میں آتے ہی اپنے زخم کی تکلیف فراموش کر کے میں امیرعلی کی مدد سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب میں ہر قیمت پر اس چیتے کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہتا تھا۔ میں نے گائوں والوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ وہ ہمارے ہمراہ زخمی چیتے کو تلاش کریں‘ کہیں نہ کہیں ضرور اس کا سراغ مل جائے گا۔ دراصل زخمی حالت میں اس کے فرار کے بعد میں خاصا پُرامید ہو گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ چند روز تک وہ اپنے زخم چاٹے گا اور اس جنگل سے نکل کر کہیں اور نہیں جائے گا۔
اگر میں زخمی نہ ہوتا تو گائوں والوں کی مدد کے بغیر ہی امیرعلیکے ہمراہ آدم خور کے تعاقب میںنکل کھڑا ہوتا مگر میرے زخمی ہونے کے بعد صورت حال بدل چکی تھی۔ ایسی حالت میں آدم خور کا تنہا تعاقب سیدھی سادی خودکشی تھی‘ لیکن گائوں والوں کے دلوں پر چیتے کی ہیبت اس قدر طاری تھی کہ انھوں نے ہانکاکرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اتنے دنوں کی مشقت اور صعوبتیں اٹھانے کے بعد جب منزل قریب آنے کے آثار پیدا ہوئے تو گائوں والوں کی بزدلی نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔
میری گردن‘ گھٹنے اور انگلیوں پر بھی گہری خراشیں آئی تھیں۔ ایک ہفتہ شدید تکلیف کے عالم میں بسر ہوا۔ اس دوران امیرعلی کے علاوہ قریبی قصبے سے ایک ناتجربہ کار ڈاکٹر میرے زخموں کی دیکھ بھال کرتا رہا مگر تکلیف روز بروز بڑھتی گئی۔ بخار بھی رہنے لگا۔ میری ذاتی رائے تھی کہ چیتے کے دانتوں اور پنجوں کا زہر میرے خون میں سرایت کر چکا ہے۔ بالآخر میری حالت کی خبر ڈپٹی کمشنر کے کانوں میںپڑی‘ تو انھوںنے اگلے ہی روز مجھے بنگلور کے سول ہسپتال میں داخل کرنے کے احکامات صادر کر ڈالے۔
بنگلور ہسپتال میں پڑے پڑے مجھے دو ماہ ہوگئے۔ اس دوران امیرعلی نے میری خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ صحیح معنوں میں میرا رفیق ثابت ہوا۔ مجھے آدم خور کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی تفصیلی خبریں ملتی رہیں۔ وہ اتنا نڈر ہو چکا تھا کہ لنگادھالی‘ تدک‘ سنتاویری‘ ہوگر خان اور ہوگرالی میں دن دیہاڑے کسی نہ کسی کو پکڑ کر لے جاتا۔ ایک مرتبہ اس نے ہوگر خان کے ریلوے اسٹیشن پر نمودار ہو کر سنسنی پھیلا دی۔ اس کے بعد متضاد خبریں آنے لگیں۔ کبھی معلوم ہوتا کہ آدم خور مارا گیا اور کبھی پتا چلتا کہ نہیںمرا۔ حکومت کی طرف سے بھیجے گئے فوجی افسروں نے آدم خور کے مغالطے میں کئی جنگلی درندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
امیرعلی بڑی بے قراری سے میری صحت یابی کی دعائیں مانگا کرتا تھا۔ خود میری طبیعت ہسپتال میں پڑے پڑے بیزار ہو چکی تھی‘ میں چاہتا تھا کہ جتنی جلد ہو سکے اس کمرے سے نکلوں اور آدم خور سے بدلہ لے کر حساب چکتا کروں‘ مگر ڈاکٹروں نے میری ایک نہ چلنے دی۔
خدا خدا کر کے ڈھائی ماہ بعد مجھے ہسپتال سے رخصت ملی‘ تومیں امیرعلی کے ہمراہ سیدھا ہوگرخان پہنچ گیا۔ اسٹیشن کے باہر سرکاری اہلکاروں نے اونچی اونچی بلیاں باندھ کرلوہے کی باڑ نصب کر رکھی تھی۔ ہر طرف مہیب سناٹا اور دہشت کی فضا چھائی ہوئی تھی۔
آدم خور کے تعاقب میں مجھے دن کا چین تھا نہ رات کا ہوش‘ بس میرے دل و دماغ پر یہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اسے جہنم واصل کر دوں۔ امیرعلی سائے کی طرح میرے ساتھ تھا۔ وہ نہایت نڈر اور بہادر آدمی تھا ‘ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر وہ میرا ساتھ نہ دیتا تو شاید میں کبھی آدم خور کو جہنم واصل کرنے میںکامیاب نہ ہوتا۔
اس دوران ہمیں آدم خور کی پچھلی زندگی کے بارے میںخاطر خواہ معلومات مل چکی تھیں۔ وہ مہاراجہ گوالیار کے ذاتی چڑیاگھر کا سدھایا ہوا شکاری چیتا تھا جو مہاراجہ نے اپنے ایک انگریز فوجی افسر دوست کو تحفتاً دیا تھا۔ بنگلورمیں تعیناتی کے دوران اس انگریز افسر کی لاپرواہی کے نتیجے میں چیتا آزاد ہو گیا اور یوں اس المناک داستان کی ابتدا ہوئی۔ میری صحت یابی تک وہ منحوس درندہ ڈیڑھ سو افراد کو اپنا لقمہ بنا چکا تھا۔
تین دن بعد بھرن پاڑ سے یہ خبر ملی کہ وہاںایک چودہ سالہ لڑکے کو آدم خور اٹھا لے گیا۔ یہ حادثہ بھرن پاڑ کی پہاڑی ڈھلوانوں کے قریب پیش آیا تھا جو چیتل ورگ کے جنوب میں واقع ہیں اور وہاں صدیوں پرانے قلعے کے کھنڈر بھی موجود تھے۔
ہم نے اسی وقت گھوڑے سنبھالے اور چیتل ورگ روانہ ہو گئے۔ ہمیں وہ جھونپڑی دکھائی گئی جہاں چیتے نے واردات کی تھی۔ وہ شکار منہ میں دبائے پہاڑی کی طرف بھاگ گیا تھا۔ لوگوں کے بیانات سے میں نے اندازہ لگایا کہ آدم خور لاش کو قلعے کے کھنڈر میں لے گیا تھا اور شاید اب تک وہیں ہو۔ کسی نے چیتے کا تعاقب کرنے کی جرأت نہ کی۔
اس جگہ مسلمانوں کی آبادی خاصی زیادہ تھی۔ شکار ہونے والا لڑکا بھی مسلمان ہی تھا۔ سمجھانے بجھانے پر ہمارے ہمراہ آٹھ نوجوان کھنڈروں تک جانے کے لیے راضی ہو گئے۔ اگرچہ سورج غروب ہونے میں زیادہ دیر نہیں تھی لیکن میں آج ہی کھنڈرجاناچاہتا تھا۔ راستہ انتہائی دشوار اور خطرناک تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھے ہمارے ساتھ آنے والے نوجوان سراسیمگی کا شکار نظر آنے لگے۔ جب مجھے احساس ہوا کہ وہ آگے بڑھنے سے کترا رہے ہیں‘ تو میں نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور انھیں وہیں رکنے کی ہدایت دے کر امیرعلی کے ہمراہ پتھروں کو پھلانگتا خاردار جھاڑیوں کی پروا کیے بغیر کھنڈروں تک پہنچنے میںکامیاب ہو گیا۔
میں نے برسوں پہلے اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں وہ کھنڈر دیکھے تھے۔ ان کی حالت اب بھی ویسی ہی تھی۔ غروب ہوتے سورج کی سنہری کرنوں میں کھنڈر عجب ڈرائونا منظر پیش کر رہے تھے۔
قلعے میں داخل ہوتے ہی میری چھٹی حس خطرے کا اعلان کرنے لگی۔ میں نے امیرعلی کو اشارہ کیا اور لبلبی پر انگلی جمائے چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ دائیں جانب واقع جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ سن کر میں نے اپنی سماعت اسی جانب مرکوز کر دی۔ مجھے اپنی قوت سماعت پر کامل بھروسا تھا۔ جھاڑیاں مجھ سے تیس گز دور تھیں۔ میں عجلت کا مظاہرہ کر کے بنا بنایا کام بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ آدم خور اپنی فطرت کے مطابق مجھے بے خبری میں دبوچ لینا چاہتا ہے۔
دفعتہ آدم خور کی سانسوں کی آواز ابھری اور میں برقی سرعت سے اس جانب گھوم گیا۔ اسے لمحے جھاڑیوں میں دبکے ہوئے آدم خور نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی آبگینوں کے مانند دمکتی ہوئی آنکھیں جیسے میرے وجود میں سوراخ کرنے لگیں۔ آدم خور کی اس تنویمی قوت کا ماضی قریب میں مجھے خاصا تلخ تجربہ ہو چکا تھا۔ اس سے قبل کہ وہ جست لگا کر میرے سر پر پہنچتا میری گولی اس کاداہنا شانہ توڑتی ہوئی نکل گئی۔
زخمی ہونے کے باوجود چیتا دل دہلا دینے والی غراہٹ کے ساتھ میری جانب جھپٹا۔ میں نے فوراً زمین پر لوٹ لگائی اور سیدھا ہوتے ہی دوسری گولی داغ دی جو اس کی گردن میںسوراخ کرتی نکل گئی۔ اس دوران امیرعلی بھی یکے بعد دیگرے تین فائر داغ چکاتھا۔ چیتا فضا میں اچھل کر قلعے کی دیوار سے جا ٹکرایا اور وہیں گر کر ذبح شدہ جانور کی طرح تڑپنے لگا۔ تڑپتے تڑپتے وہ ایک بار پھر فضا میں اچھلا لیکن فوراً ہی میری گولی اس کی کھوپڑی میں پیوست ہو گئی اور وہ دوبارہ نہ اٹھ سکا۔
اس طرح بہت بڑے رقبے پر تباہی پھیلانے والا انسان ہی کا سدھایا ہوا ایک درندہ اپنے انجام کو پہنچا۔جب امیرعلی اور میں چیتے کی پیمائش اور معاینہ کر چکے تو اسے ایک درخت کے سائے میں ڈال دیا گیا۔ اگلے روز صبح سے شام تک سینکڑوں مرد اور عورتیں اسے دیکھنے آتے رہے۔
اس لمحے ہم دونوں نے خود کو دنیا کے مسرور ترین انسانوں میں شامل محسوس کیاکیونکہ ہم اب حکومت اور آس پاس کے دیہہ میں بسنے والوں کو بتا سکتے تھے کہ تین سال سے ان کی زندگی کو عذاب بنادینے والا موذی ٹھکانے لگ چکا تھا۔
٭٭
مصنف کا تعارف
برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ایس۔کے۔جیفری ﴿۱۹۵۰ء۔ ۱۸۷۵ء﴾ پولیس انسپکٹر ہونے کے علاوہ ماہر شکاری بھی تھا۔ اس نے اپنی ملازمت کا بیشتر حصہ مشرقی ہندوستان میں منی پور، آسام، الموڑہ، کماؤں اور ترائی کے پر خطر جنگلوں میں بسر کیا۔ دراصل انہی وادیوں اور پہاڑی علاقوں میں ملنے والے بکثرت شکار نے اسے کہنہ مشق شکاری بنایا۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باعث وہ اعلیٰ درجے کا داستان گو اور ادیب بھی تھا۔ یہی خصوصیات اسے اپنے نام ور معاصرین، جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن کے مقابل لا کھڑا کرتی ہیں۔
لیکن کرنل جیفری کی ایک خوبی اسے ممتاز کرتی ہے۔ جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن فقط شکاری تھے، انھیں درندوں اور آدم خوروں کی تلاش کے دوران ملنے والے انسانوں یا لاشوں کی داستانیں بُننے سے مطلق دلچسپی نہ تھی۔ کرنل جیفری اگر کوئی لاش ملتی تو وہ پولیس افسر ہونے کے ناتے یہ بات ضرور کھو جتا کہ آیا اسے کسی جانور نے ہلاک کیا ہے یا کسی نے قتل کر کے وہاں ڈال دیا۔ اس نے اپنی زندگی کے تمام بڑے بڑے واقعات و حوادث مختلف کتابوں کے بجائے اپنی اکلوتی شکاری تصنیف ’میری آپ بیتی: شکار اور شکاری‘ ﴿My Autobiography, Hunt and Hunter﴾ میں قلمبند کیے۔
دوسری جنگِ عظیم کے اوائل میں شائع ہونے والی یہ کتاب اب نایاب ہے۔ خوش قسمتی سے میرے دادا کے زمانے کا ایک بوسیدہ مگر قیمتی نسخہ میرے کتب خانے کی زینت ہے۔ اس سے ہم وقتاً فوقتاً کرنل جیفری کی مہمات اور کارناموں کو اخذ کر کے آپ کی تفریح طبع کے لیے پیش کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہے گے۔ ہمیں یقین ہے اس سے قبل اردو زبان میں ایسی کہانیاں آپ نے کم پڑھی ہوں گی۔