توبہ استغفار

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 11, 2022 | 17:22 شام

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں اپنے ایک ہمسایہ کے پاس گیا وہ بیمار تھا اور گناہ گار تھا تو میں نے کہا، اے دوست! تو اللہ سے توبہ کا وعدہ کر شاید تجھے شفا حاصل ہو وہ روپڑا تو میں نے گھر کے ایک کونہ سے ہائف کو کہتے سنا کہ اگر اس کا وعدہ تیرے وعدے جیسا ہے تو فائدہ نہیں، کیونکہ تو نے اکثر دفعہ وعدہ کیا لیکن ہم نے تجھے جھوٹا ہی دیکھا،

راوی کہتا ہے اس وقت مالک پر غشی طاری ہوگئی۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا تم اس شخص کی نسبت کیا کہتے ہو جو توبہ ک

رے اور توڑدے پھر کرے اور توڑ دے اسی طرح کرتا رہے، آپ نے فرمایا میں اسے مومن ہی خیال کروں گا کیونکہ یہ کام مومن ہی کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت کے آٹھ دروازے ہیں تمام کھلتے اور بند ہوتے ہیں، مگر توبہ کے دروازہ پر فرشتہ ہے جو اسے بند نہیں ہونے دیتا، پس التجا کرو اور ناامید نہ ہو، امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تائبوں کی ہم نشینی کرو کیونکہ وہ بہت نرم دل ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے: جو استغفار کرے وہ اصرار کرنے والا نہیں ہوتا، خواہ دن میں ستر بار سے زیادہ گناہ کی طرف لوٹے۔

یحیی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ سے اس مسلمان کی نسبت دریافت کیا گیا جو گناہ کرے اور برا جانے کہ لوگ اس پر اطلاع پائیں، اللہ کی واقفیت کو اتنا برا نہ سمجھے، کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی عزت اس کے دل میں اتنی نہیں ہے آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ اللہ کے کرم سے پوری واقفیت کے باعث ہے کیونکہ وہ لوگوں میں رسوا نہیں کرے گا، برعکس لوگوں کے۔ اے دوست! اسے یاد رکھ اور جب تک تو دنیا میں ہے بکثرت استغفار کر، کیونکہ اس سے اللہ کا غصہ فرو ہوتا ہے، جب تو عبادات بجالائے جن کے حق میں ان گناہوں کا کفارہ ہونا شریعت میں وارد ہے تو بھی اپنے گناہوں کی معافی کا یقین نہ کر، کیونکہ ان کے شرائط ہوتے ہیں جن کو تو نے پورا نہیں کیا، یاد رکھ! کہ مومن جب تک جنت میں داخل نہ ہوجائے اسے اطمینان نہیں ہوتا۔ اخلاق سلف ترجمہ تنبیہ المغترین ص195