2022 ,دسمبر 5
حافظہ آباد کی فیملی جج نازیہ بتول کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حافظہ آباد پولیس پر دباؤ ڈالنے کا کہا گیا ہے۔ یہ درخواست حافظہ آباد کی ایک خاتون کی جانب سے دائر کی گئی ۔خاتون کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی کمپنی میں اس کی ساس، دو نندیں اور سابق شوہر کام کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی کمپنی میں کام کرنے سے ظاہر ہوتا ہے وہ لوگ امریکہ کے رہائشی ہیں۔
اس خاتون کے تین بچے تھے۔ ایک بیٹی اور ایک بیٹا اس عورت کا سابق شوہر پہلے ہی امریکہ لے جا چکا ہے۔اور تقریباً دس سال سے وہ وہاں مقیم ہے۔وہ بچوں کو ماں کے پاس نہیں آنے دیتا۔ اب ایک بچی جو اس عورت کے پاس ہے وہ ان کی علیحدگی کے وقت ڈیڑھ سال کی تھی۔ ماں نے اپنے زورِ بازو پر اس بچی کی پرورش کی کیونکہ شوہر سے طلاق کے بعد سسرال سے اس بچی کے لیے کوئی خرچہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اب چونکہ بچی بڑی اور سمجھ دار ہو چکی ہے تو حافظہ آباد کی پولیس اس عورت کو کورٹ کے باہر ہراساں کر رہی ہے اور دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ بچی اپنے سابق شوہر کے حوالے کر دے۔ حافظہ آباد فیملی کورٹ کے سول جج نازیہ بتول نے اس کیس کی سماعت کی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ سسرال والے اس سے اس کی بچی چھیننا چاہتے ہیں۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل شعیب اسلم نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کی ساس اور دو نندیں ٹرمپ کی کمپنی میں ملازم ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقامی پولیس پر پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ خاتون نے الزام عائد کیا کہ مقامی پولیس بچی واپس کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد فریقین سے جواب طلب کر لیا۔ درخواست گزار خاتون کا نام ثناءجاوید ہے۔ ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ علیحدگی کے بعد ثناءکا سابق شوہر ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو اپنے ہمراہ امریکہ لے گیاتھا۔ ثنا کا کہنا ہے کہ بیٹی کی واپسی کے لیے سسرال والے اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس لیے وہ عدالت سے سٹے آرڈر لینے آئی تھی کہ پولیس کو روکا جائے وہ مجھ سے زبردستی بچی نہ چھینیں۔ یہ ایک اہم درخواست ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کیا جواب آتا ہے۔ اس میں باقاعدہ ٹرمپ کو فریق بنایا گیا اور عدالت نے14دسمبر کو ان سے جواب طلب کیا ہے۔ ہمارے ہاں سول لاءمیں کسی بھی غیر ملکی کے خلاف کیس دائر ہو سکتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک دلچسپ کیس ہے۔