حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ

2017 ,نومبر 9



لاہور(علامہ منیر احمد یوسفی):اِمامِ طریقت‘ رہبرِ شریعت‘ مطلعِ اَنوارِ عرفانی‘ واقف اَسرارِ حقّانی‘ عالم علومِ ظاہروباطن‘ فاضلِ اَجل ‘مرشد ِاَکمل‘ مظہر خوارق وکرامات مخدوم شیخ علی بن عثمان گنج بخش ہجویری جلابی عظیم المرتبت اولیاء میں سے ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن ہے اور حضرت داتاگنج بخش کے نام سے مشہور ومعروف ہیں۔

حضرت داتا صاحب کی ولادت پانچویں صدی کے شروع میں ہوئی،سال پیدائش ۰۰۴ھ بمطابق۹۰۰۱ئ کے لگ بھگ ہے آپ حسنی سادات کے چشم و چراغ ہیں شجرئہ نسب اِس طرح ہے حضرت مخدوم علی بن عثمان بن سیّد علی بن عبدالرحمان بن سیّد عبداللہ (شجاع شاہ) بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سیّد زید شہید بن حضرت سیّدنا امام حسن بن علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم۔آپ کا خاندان ایک علمی خاندان سمجھا جاتا تھا جو افغانستان کے شہر غزنی کے دو محلوں میں آباد تھا۔ ایک کانام ہجویر اور دوسرے کا نام جلاب۔ اِس لئے آپ علی بن عثمان بن علی الجلابی الہجویری ‘غزنوی (لاہوری) کہلاتے ہیں۔

آپ سلسلہ ٔجنیدیہ میں حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن الحسن جنیدی (۰۶۴ھ؁) سے بیعت تھے۔ آپ کا شجرئہ طریقت اِس طرح ہے حضرت شیخ علی بن عثمان ہجویری مرید شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی کے‘ وہ مرید حضرت شیخ جنید بغدادی کے‘ وہ مرید شیخ سری سقطی کے‘ وہ مرید حضرت معروف کرخی کے‘ وہ مرید حضرت داؤد طائی کے‘ وہ مرید حضرت حبیب عجمی کے‘ وہ مرید حضرت حسن بصری ث کے‘ اور وہ مریدامیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے‘‘۔

اِبتدائی تعلیم وتربیت اپنے خاندانی بزرگوں سے غزنی میں حاصل کی۔ اِس کے بعد علومِ ظاہر وباطن کی تکمیل کیلئے ماور النہر‘ آدز بایئجان‘فرغانہ ‘خراسان ‘مرو وغیرہ بلاد اِسلامیہ میں تشریف لے گئے، آپ کے اَساتذہ میں حضرت ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن ابوالعباس احمدبن محمد القصاب ‘شیخ ابوسعید ابوالخیر نہایت نامور ہستیاں ہیں۔ صرف ملک خراسان میں آپ نے تین سو(۰۰۳) اَساتذہ سے علم حاصل کیا۔

آپ قطبِ وقت حضرت ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی الحنبلیکی داستانیں سنا کرتے تھے۔ ا ن کی خدمت میںحاضر ہوئے‘ حضرت شیخ ختلی کی نگاہ آپ پرپڑی تو اَنوار وتجلیات برسنے لگے۔ آپ نے شیخ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ پیری مریدی کا یہ رشتہ اِتنا محکم ہوگیا کہ ہمہ وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے ۔ جب مرشد نے دیکھا کہ میرا مرید علمی اور روحانی تکمیلِ فیض کرچکا ہے تو اُسے ہندوستان جانے کا حکم صادر فرمایا۔

پیر روشن ضمیر کے اِرشاد کے مطابق لاہور میں رہتے ہوئے‘ آپ نے ہنگامہ فضیلت ومشیخت گرم کیا۔ دِن کو طالب ِعلموں کی تدریس اور رات کو طالبانِ حق کی تلقین ہوتی۔ ہزاروں جاہل عالِم‘ہزاروں کافر مسلمان‘ ہزاروں گمراہ رہبر، ہزاروں فاسق نیکو کاربنے۔ آپ کی رُوحانی اور اَخلاقی شخصیت کا اِس قدر اَثر کار فرما تھا کہ سب سے پہلے جوشخص اُن کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہوا وہ پنجاب کا نائب حاکم رائے راجو تھا جو بعد میں شیخ ہندی کے نام سے مشہور ہوا، مزار شریف کے خدمت گزاراور مجاور اِسی شیخ ہندی کی اَولاد سے تھے۔

خلقِ خدا کو فیض یاب کرنے کے بعد ۵۶۴ھ؁بمطابق ۳۷۰۱ئ؁ کو پیمانۂ عمر لبریز ہوا آپ نے اپنی جان مبارک ۵۶ سال کی عمر میں جانِ آفرین کے سپرد فرمائی اور اپنی مسجد اور دَرسگاہ کے قریب دفن ہوئے۔

اِس کے بعدسے آج تک فیوضِ باطنیہ سرمدیہ کا سلسلہ آپ کے مزار پُر اَنوار سے جاری ہے اور مزارِ مبارک مرجع ٔخلائق رہے گا۔ سلاطینِ اِسلام میں سے پہلا بادشاہ سلطان مسعود بن سلطان ابراہیم ۶۷۵ھ؁ میں واردِ ہند ہوا جس نے آپ کے مزارِ مبارک کی زیارت کی سعادت حاصل کی اور مقبرہ تعمیر کیا۔ سلطان ابراہیم غزنوی سے لیکراکبر‘جہانگیر ‘شاہجہان اوردارالشکوہ تک سب کے سب یہاں آتے رہے اور اِس وقت تک جو بھی حاکمِ وقت ہواہے اِس دربار ِمقدس کی حاضری سے ضرور مستفیض ہوتا ہے اور نذرِ عقیدت پیش کرتا ہے۔ صوفیاء کرام میں سے سب سے پہلے جس نے آپ کے مزار پُر اَنوار کی زیارت کی اور جوارِ قدس پر ۰۸۵ء ؁ میںپاؤں کی جانب میں چلہ واِعتکاف کیا‘ وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہیں ۔اور بعد حصولِ مراد اور وقتِ رُخصت آپ کی شانِ اَقدس میں روضہ کی طرف رخ کر کے یہ شعر فرمایا:۔

گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا

ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہنما

اِن کے بعد ۰۰۶ھ؁ میں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر حاضرِ بار گاہ ہوئے اور اِکتسابِ فیض فرمایا اور حضرت لال حسین لاہوری نے بھی فیض حاصل کیا۔ علیٰ ہذالقیاس‘ تمام بزرگانِ اقلیم ہند جس قدر ہوئے ہیں‘ سب نے آستانہ بوسی کی ہے۔ شہزادہ دارالشکوہ قادری فرماتے ہیںکہ چالیس جمعرات یا چالیس دن کامل کوئی پیہم اُن کے دربار پُر اَنوار پر حاضری دے‘ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے جو مانگے سو پائے۔

آپ کی کئی تصانیف ہیں‘ جن میں سے کشف المحجوب زیادہ مشہور ہے یہ تصنیف در حقیقت کامل رہنما ہے اور کتبِ تصوف میں مرشد ِکامل ہے۔’’کشف المحجوب‘‘ تصوف کی کتابوں کی سردار ہے جو اِسے توجہ سے پڑھے‘ اُس کی دُنیا وآخرت سنور جاتی ہے۔

حضرت داتا گنج بخش نے بے شمار حجابات کو اِس میں کھولا ہے۔کتاب کے شروع میں آپ نے علم کی اہمیت کو خوب بیان کیا ہے اور نماز، جسے عبادات میں مرکزی اَہمیت حاصل ہے‘اُسے بھی بڑے حسین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کے بغیر کلمہ گواِنسان صحیح مسلمان نہیں بن سکتا۔

فرماتے ہیں کہ:علم دو قسموں کا ہے۔ ایک’’ علمِ اِلٰہی‘‘ دوسرا’’علمِ مخلوق‘‘۔ بندہ کا علم، علمِ الٰہی کے مقابلے میںلَاْشْیْئٍ محض ہو تا ہے۔کیونکہ علمِ الٰہی اللہ تبارک وتعالیٰ جلَّ مجدہُ الکریم کی صفت ِ قدیم ہے جو اُس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اُس کی صفتوں کیلئے اِنتہا نہیں۔جبکہ ہمارا علم ہماری صفت ہے جو ہمارے ساتھ قائم ہے اور ہمارے اَوصاف متناہی ہیں۔

’’علم ‘‘کی تعریف: معلوم چیز کا اِحاطہ کرنا اور اُس کو بیان کرنا ہے اور علم کی نہایت عمدہ تعریف یہ ہے کہ: ’’علم ایک صفت ہے جس سے جاہل عالِم ہو جاتا ہے‘‘۔پس تھوڑے سے علم کی مدد سے بہت سا عمل کرنا چاہئے اور ضروری ہے کہ علم کے ساتھ عمل بھی ہو ۔ کیونکہ رسول اللہ ؐ فرماتے ہیں: ’’ــعابد علمِ دین کے جانے بغیر خراس کے گدھے جیسا ہے کہ وہ کتنا ہی گھومے اپنے پہلے ہی قدم پر رہتاہے اور آگے راستہ طے نہیں کر سکتا‘‘۔فرماتے ہیں ’’ میں نے عوام النّاس کا ایک گروہ دیکھا ہے جوعلم کو عمل پر فضیلت دیتا ہے اور دوسرا گروہ عمل کو علم پر لیکن یہ عمل نہیں سمجھا جاتا ۔ بلکہ عمل اُس وقت ہوتا ہے، جب علم اُس کے ساتھ شامل ہو‘‘۔ چنانچہ ایک واقعہ تحریرفرماتے ہیں:

’’حضرت ابراہیم بن ادہم نے راستہ میں ایک پتھر دیکھا اُس پر لکھا ہوا تھا مجھے اُلٹ کر پڑھو۔ پس اُنہوں نے اُس کو پلٹا اُس پر لکھا ہو اتھا۔ ’’ تو جانی ہو ئی چیز پر تو عمل نہیں کرتا۔ پس کیسے اُس چیزکو تلاش کرتا ہے جس کو تونہیں جانتا؟‘‘۔

حضرت حاتم اصم نے فرمایا کہ میں نے چار علوم اِختیار کئے ہیں ۔ لوگوںنے پوچھا ! وہ کون سے چار علوم ہیں ؟ فرمایا: (۱)میں نے جان لیا کہ میرا رزق مقدّر ہو چکا ہے اِ س لئے لالچ نہیں کرتا، محنت کرتا ہوں۔(۲)میں نے یہ جان لیاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ معبودِ برحق کا مجھ پر حقِ بندگی ہے جس کو سوائے میرے اور کوئی اَدا نہیں کر سکتا۔ (۳)میں نے یہ جان لیا کہ میرا ایک تلاش کرنے والا ہے۔ (یعنی ملک الموت) کہ میں اُس سے بھاگ نہیں سکتااِ س لئے میں نے اُس کا سامان کر لیا ہے۔ (یعنی نیک کام کرتا ہوں) (۴)میں نے یہ جان لیا ہے کہ میرا ایک مالک ہے جو میرے اَحوال سے واقف ہے اِس لئے میں نے اُس سے شرم کی ہے اور نا کردنی کاموں سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے اور جب اِنسان یہ جانتا ہے کہ اللہ اُس کو دیکھ رہا ہے۔تو وہ کو ئی اَیساکام نہیں کرتا جس سے اُس کو اللہ کے سامنے قیامت کے روز شرمسار ہوناپڑے۔( اگر کوئی یہ چار علوم حاصل کر لے تو وہ سلوک کی منزلوںکو آسانی سے طے کر سکتاہے)۔ فرماتے ہیں: حضرت بوعلی نے لکھا ہے۔

علم جہالت کی موت ہے۔ دِل کا زندہ ہونا اور کفر کی تاریکی سے اِیمان کی آنکھ کا روشن ہو نا ہے۔جس شخص کو معرفتِ الٰہی کا علم نہیں اُس کا دِل جہالت کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اہلِ غفلت کا دِل بیمار ہے کہ وہ اُس کے اَحکام (اَوامر و نواہی)سے بے خبر ہیں‘‘۔

فرماتے ہیں:شیخ المشائخ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی نے کیا ہی اَچھا فرمایا ہے کہ ’’ تین اَقسام کے لوگوں کی محفل سے پرہیز کرو‘‘۔(۱)غافل علمائ۔(۲)خوشامدی فقرائ۔ اور(۳)جاہل صوفیائ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرماتے ہیں : حضرت با یزید بسطامی کا فرمان ہے : ’’ میں نے تیس سال کا مجاہدہ کیا مگر میں نے علم اور اِس کے مطابق عمل کرنے سے اور کسی چیز کو اپنے لئے مشکل نہیں پایا‘‘۔

(۱)آگ پر قدم رکھنا ، طبیعت کیلئے علم کے مطابق چلنے سے زیادہ آسان ہے۔ (۲)پل صراط پر ہزار بار گزرنا جاہل کے نزدیک علم کاایک مسئلہ سیکھنے سے زیادہ آسان ہے۔ (۳) فاسق کیلئے دوزخ میں رہنا علم کے ایک مسئلہ پر عمل کرنے سے زیادہ آسان ہے۔فرماتے ہیں۔ پس تیرے لئے علم سیکھنا اور اِس میں کمال حاصل کرنا لازم ہے۔

نماز ایک مخصوص عبادت ہے جو روزانہ چند مخصوص اَحکام کے ساتھ اَدا کی جاتی ہے اور اللہ جلَّ جلا لہٗ کا حکم ہے پانچ وقتوں میں نمازیں ادا کرو۔

حدیث شریف میں ہے۔’’حضور نبی کریمؐنماز پڑھا کرتے تھے تو آپ ؐکے قلبِ منور میں اَیسا جوش ہوتا تھا جیسا کہ کانسی کی دیگ میں‘ جس کے نیچے آگ جلتی ہو‘‘۔

امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ نماز کا قصد کیا کرتے تو آپؐ کے بدن کے بال کھڑے ہو جاتے اور کپڑے سے باہر سرنکال دیتے اور آپ ص پر کپکپی طاری ہو جاتی اور فرماتے کہ اُس اَمانت کے اَدا کرنے کا وقت آگیا ہے جس کے اُٹھانے سے آسمان اور زمین عاجز آگئے تھے۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حاتم اصم سے پوچھا۔ آپ نماز کس طرح اَدا کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: کہ جب نماز کا وقت آجاتا ہے تو ایک وضو ظاہر کا کرتا ہوں اور ایک باطن کا ۔ ظاہری وضو پانی سے کرتا ہوںاور باطنی وضو توبہ سے ۔ پھر مسجد میں داخل ہوتا ہوں اور مسجد بیت الحرام کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ مقامِ ابراہیم کو اپنے دو اَبرو کے سامنے رکھتا ہوں، بہشت کو اپنے قدموں کے نیچے رکھتا ہوں اور ملک الموت کو اپنی پیٹھ کے پیچھے خیال کرتا ہوں، پھر نہایت حُرمت کے ساتھ قیام اور بڑی ہیبت کے ساتھ قرأت اور خاکساری کے ساتھ رکوع، عاجزی کے ساتھ سجود اور بڑے حلم و وقار کے ساتھ قعود اور پھر آخر میں شکرِ حق کے ساتھ سلام پھیر تا ہوں اور توفیق قبضۂ قدرت میں ہے۔

یہ جاننا چاہئے کہ نماز ایک اَیسی عبادت ہے کہ طالبانِ حق، اللہ تبارک وتعالیٰ لکی راہ میں اِبتداء سے اِنتہاتک اِسی سے راہِ حق پاتے ہیں اور اِسی میںمشغول ہوتے ہیں۔ اِن کے مقامات عموماً اِس میں کشف ہوتے ہیں۔چنانچہ طہارت طالبانِ حق کے لئے توبہ ہوتی ہے اور قبلہ کی طرف رُخ کرنا پیر کے ساتھ تعلق کے قائم مقام ہے اور قیام کرنا مجاہدئہ ِنفس اور قرأت ذکرِ دوام اور رکوعِ تواضع اور معرفتِ نفس اور تشہد، اُنسِ حق اور سلام دُنیا سے علیحدگی اور مقامات کی پابندی سے نکلنے کے قائم مقام ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ ؐ دُنیا کے تمام تعلّقات سے منقطع ہو جاتے تو کمالِ حیرت کے محل میں شوقِ دیدار کے طالب ہوتے اور فقط یادِ حق سے تعلق مضبوط کرتے، پھر فرماتے:اَرِحْنَا یَا بِلَالُ بِالصَّلٰوۃِ ’’اے بلال ص ہمیں نما ز سے خوش کرو‘‘۔یعنی نماز کی اذان دو تاکہ نماز پڑھ کر راحتِ قلب حاصل کریں۔ اور رسول اللہ ؐنے فرمایا ’’نمازمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے‘‘۔یعنی مجھے نماز ہی میں سرور اور فرحت حاصل ہوتی ہے۔

حضرت سہل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں: سچے فرمانبردار کی علامت یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ اُس کے لئے مقرر ہوتا ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تو وہ اُس بندہ کو نماز اَدا کرنے پر آمادہ کرے اور اگر وہ شخص سو رہا ہو تو اُسے بیدار کر دے اور یہ علامت حضرت سہل بن عبداللہ تستری میں ظاہر تھی۔ اِس لئے کہ آپ بوڑھے اور معذور ہو گئے تھے۔ لیکن جب نماز کا وقت آیا تو ٹھیک ٹھاک ہو جاتے اور نماز اَدا کر چکتے تو پھر عاجز اور معذور کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔

متعلقہ خبریں