6 سال کی عمر سے جنسی غلام

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 22, 2016 | 21:12 شام

نیویارک (شفق ڈیسک) آج اہل مغرب نے انسانی حقوق اور تہذیب و ترقی کا علم اٹھا رکھا ہے اور ساری دنیا کو اچھائی کا درس دیتے پھرتے ہیں لیکن انکی پوشیدہ اصلیت ایسی بھیانک ہے کہ سن کر انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ بیلجیئم سے تعلق رکھنے والی خاتون انیکے لوکس کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان بھی کچھ ایسے ہی گھناؤنے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ ایک تفصیلی مضمون میں انیکے لوکس نے پہلی بار ان شرمناک حقائق سے پردہ اٹھا دیا ہے جو یورپ کے طاقتور ترین افراد کے خوف سے وہ آج تک چھپائے ہوئے تھیں۔ انیکے کا کہنا ہے کہ

1969ء میں ان کی والدہ انہیں پہلی بار ایک جنسی پارٹی میں لے کر گئیں تو انکی عمر صرف 6 سال تھی۔ یہ بیلجیئم کے سرکردہ سیاستدانوں، کاروباری شخصیات اور اعلیٰ افسران کی پارٹی تھی۔ دیگر کئی لڑکیوں کی طرح انیکے کو بھی پارٹی کے شرکاء کی جنسی تفریح کیلئے پیش کیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس رات ان کے ساتھ جو ہوا وہ ہمیشہ کیلئے انکے ذہن پر سبت ہوگیا اور آج بھی ڈراؤنے خواب کی طرح ان کا پیچھا کرتا ہے۔ پارٹی میں متعدد افراد نے انہیں جنسی کھلونے کی طرح استعمال کیا، ان کا برہنہ رقص دیکھا اور یہاں تک کہ انہیں اپنے جسم کی غلاظت کھانے پر مجبور کیا۔ انیکے کا کہنا ہے کہ وہ اس قدر خوفزدہ تھیں کہ انہیں محسوس ہوتا تھا کہ یہ ان کی زندگی کی آخری رات ہے، لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ابھی انہیں مزید زندہ رہنا تھا۔ اس رات کے بعد وقتاً فوقتاً یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب وہ 10 سال کی ہوئیں تو بیلجیئم کے ایک طاقتور سیاستدان کے جوان بیٹے نے انہیں اپنی جنسی غلام بنالیا۔ وہ انہیں ایک سال تک اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا لیکن اس کے بعد انہیں قتل کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ انیکے کا کہنا ہے کہ بیلجیئم میں طاقتور ترین شخصیات کیلئے جنسی تفریح فراہم کرنے کیلئے ایک بڑا گروہ کام کررہا تھا، جس کا سربراہ اس وقت کا ایک وزیر تھا۔ اسی شخص نے انہیں قتل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ انہیں ایک ویران گھر میں لیجایا گیا اور ایک کمرے میں بند کرکے ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔ قریب تھا کہ انہیں ہلاک کردیا جاتا کہ وہی نوجوان ان کی مدد کو آن پہنچا جو گزشتہ ایک سال سے انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنارہا تھا۔ اس نے انیکے کی جان تو بچالی لیکن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس واقعے کے بعد انیکے اپنی زندگی بچانے کیلئے روپوش ہوگئیں۔ بعدازاں وہ بیلجیئم سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں اور آج کل امریکہ میں مقیم ہیں۔ انیکے کا کہنا ہے کہ 40 سال خوف اور دہشت کے سائے میں گزارنے کے بعد بالآخر انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام درندوں کا پول دنیا کے سامنے کھول دیں گی جو انہیں اور ان جیسی بے شمار کمسن لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیلجیئم کے جنسی درندوں پر مشتمل گروہ میں اس ملک کے نمایاں ترین سیاستدان اور دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ جنسی پارٹیوں کے دوران ان کی عصمت دری کرنے والوں میں دیگر یورپی ممالک کے سیاستدان بھی شامل تھے، جن میں سے چند بعد ازاں سربراہان مملکت بھی بنے، اور حتیٰ کہ شاہی خاندان کے ایک فرد نے بھی انہیں ہوس کا نشانہ بنایا۔ انیکے اب ان تمام بدکرداروں کی زندگی کے تاریک ترین راز ایک کتاب کی صورت میں ساری دنیا کے سامنے لانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ ان کی کتاب کی اشاعت جلد متوقع ہے۔